ټول حقوق د منډيګک بنسټ سره محفوظ دي
ملتان میں آباد سدوزئی خاندان قندھار کے نواحی علاقے صفا پر حکمرانی کرتا تھا۔ سدوزئی خاندان کے مورث اعلیٰ سعد اللہ خان معروف بہ امیر سدو خان نے علاقہ کے افغان قبائل کو متحد کیا اور افغانستان کو ایران سے ملانے والی شاہراہ کو محفوظ بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ۔
صفوی تاجدار شاہ عباس نے انہیں امیر سدو کے خطاب سے نوازا اور قندھار کے شمال مشرق میں علاقہ صفا کی حکمرانی بھی عطاء کی۔ امیر سدوکی وفات کے بعد اس کا بڑا بیٹا خضر خان سدوزئی قبیلے کا سردار بنا، تاہم اس نے حکومت اپنے بھائی مودود خان کے حوالے کر کے گوشہ نشینی اختیار کر لی، خان مودود کے بعد اس کا بیٹا شاہ حسین سدوزئی قبیلے کا سردار بنا مگر خضر خان کے بیٹے سلطان خدا داد خان نے اس کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا، یوں ایک خونریز جنگ کے بعد شاہ حسین کو شکست ہوئی اور سلطان خدا داد خان نے صفا پر قبضہ کر لیا ، اس جنگ میں شاہ حسین مغلوں کا حامی جبکہ سلطان خدا داد خان ایرانیوں کا ساتھ دے رہا تھا۔ شاہ حسین شکست کے بعد 1652ء میں ملتان آگیا، کچھ عرصہ بعد سلطان خدا داد خان کا بیٹ سلطان حیات خان بھی حکومت سے ہاتھ دھونے کے بعد ملتان آگیا۔
ملتان آنے کے بعد اس افغان سدوزئی خاندان کی ایک نئی تاریخ کا آغاز ہوا، کہا جاتا ہے کہ سدوزئی خاندان نے ملتان کو سات حاکم دیئے، سلطان حیات خان، جن کے والد خدا داد خان سلطان خدا داد کے نام سے معروف تھے ،کی اولاد ملتان میں خدکہ سدوزئی کہلائی، یوں سدوزئی افغان خاندان میں ایک نئی شاخ کا اضافہ ہوا۔ سلطان خدا داد خان بابائے افغان احمد شاہ ابدالی کے پر دادا تھے، سلطان حیات خان نے ملتان میں موجود بنگلہ ڈپٹی کمشنر کی جگہ پر کڑی خدکہ آباد کی اور ساتھ ہی ایک مسجد سلطان حیات خان کی بنیاد بھی رکھی، ملتان کی تاریخی ابدالی مسجد کی تعمیر بھی اسی خاندان سے منسوب کی جاتی ہے۔
سلطان حیات کے بیٹے باقر خان ہوئے ان کے پوتے کا نام شریف خان تھا، شریف خان کے بیٹے کا نام دین محمد خان تھا جو شہزادہ علی محمد خان ملوک کے والد تھے، شہزادہ علی محمد خان ملوک جو نواب مظفر خان کے ہم عصر اور ایک عالم فاضل شخصیت تھے، نے 1825ء میں ’’تذکرۃ الملوک‘‘ نامی کتاب فارسی میں لکھی، یہ کتاب سدوزئی خاندان کی مفصل تاریخ سامنے لاتی ہے، شہزادہ علی محمد خان ملوک کی وفات 1840ء میں ہوئی۔ 1818ء میں ملتان پر سکھوں کے حملے سے پہلے یہ خاندان کڑی خدکہ ابدالی روڈ پر آباد تھا، اس دور میں نوا ں شہر چوک سے لے کر ایس پی چوک تک سدوزئی خاندان کے محلات اور محلے پھیلے ہوئے تھے۔
کہا جاتا ہے کڑی خدکہ میں خدکہ خاندان کے محلات کا سلسلہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا، موجودہ ڈپٹی کمشنر بنگلہ کی جگہ سلطان حیات خان کا رہائشی محل تھا، جبکہ کارڈیالوجی سنٹر کی جگہ پر نواب شاکر خان کا تعمیر کردہ شیش محل تھا جس جگہ پر احمد شاہ ابدالی کی پیدائش کی یادگار بنی ہوئی ہے اس کے عقب میں سدوزئی و خدکہ امراء کی رہائش گاہیں تھیں، کڑی خدکہ کے ایک مکان میں ہی احمد شاہ ابدالی جیسے سپہ سالار کی پیدائش بھی ہوئی تھی۔ 1818ء میں رنجیت سنگھ کے حملہ کے وقت سدوزئی خاندان کے یہ محلات اور محلے مسمار کر دیئے گئے۔
برٹش دور میں اس علاقہ کی تعمیرنو کی گئی اور یہاں سے تین سڑکیں بہاولپور روڈ، ابدالی روڈ اور گجر کھڈہ روڈ نکالی گئیں، اس کے بعد تو ملتان کا یہ خدکہ خاندان قدیر آباد کے علاقے میں آباد ہوگیا لیکن شہزادہ علی محمد خان ملوک نے موجودہ گھنٹہ گھر کی جگہ پر اپنی حویلی بنوائی جو حویلی شہزادہ علی محمد ملوک کے نام سے معروف تھی۔
بعدازاں یہ جگہ برطانوی حکومت نے حاصل کر لی اور یہاں کلاک ٹاور بنایا، اس کے بعد شہزادہ علی محمد خان ملوک کا خاندان بھی محلہ قدیر آباد میں منتقل ہوگیا۔ شہزادہ علی محمد خان ملوک کے بڑے صاحبزادے کا نام بہرام خان سدوزئی تھا انہوں نے محلہ قدیر آباد نزد چوک فوارہ میں منتقلی کے بعد 1867ء میں ایک ایسی مسجد کی تعمیر کی بنیاد رکھی جو آج بھی فن تعمیر کا شاہکار تسلیم کی جاتی ہے مسجد خدکہ کے نام سے 1867ء میں تعمیر ہونے والی یہ مسجد تین سال بعد 1870ء میں تکمیل کو پہنچی۔
ملتان کی وہ تاریخی عمارات جو فن تعمیر کا شاہکار اور ملتانی اسلوب فن کی نمائندگی کرتی ہیں ان میں مقبرہ شاہ یوسف گردیز، مقبرہ شاہ رکن عالم، مقبرہ خواجہ اویس کھگہ، مقبرہ عبیداللہ ملتانی، مسجد عید گاہ، ساوی مسجد، مسجد علی محمد خان اور خدکہ مسجد شامل ہیں۔ مسجد خدکہ حسن و جمال کی جیتی جاگتی تصویر اور ملتانی صناعوں کی مہارت کا ثبوت ہے۔ تقریباً 12 مرلے پر مشتمل یہ مسجد ملتان کی صدیوں پرانی کاشی گری اور نقاشی کا ایک تاریخی شاہکار ہے۔ اس مسجد کی بنیاد سطح زمین سے 9 فٹ نیچے سے اٹھائی گئی ہے اسی طرح یہ سطح زمین سے 4 سے 5 فٹ بلند بھی ہے۔
اس مسجد کے دو چھوٹے اور ایک بڑے گنبد پر بھی کاشی گری کا شاندار کام کیا گیا ہے خدکہ مسجد کا مرکزی گنبد اس مسجد کے فن تعمیر کا مرکزی حوالہ ہے، کہا جاتا ہے کہ ایسا گنبد ملتان شہر کی کسی بھی تاریخی عمارت پر موجود نہیں ہے، چھوٹی اینٹ سے تعمیر کردہ اس مسجد کے دروازے کھڑکیاں اور اندر کی نقاشی بھی آج تک اصلی حالت میں موجود ہے، تعمیر کے وقت یہ مسجد ایک چار دیواری کے اندر تھی وقت کے ساتھ ساتھ وہ چار دیواری تو ختم ہو گئی لیکن اس کا مرکزی دروازہ آج بھی اسی طرح قائم ہے۔ مسجد کی مرکزی عمارت کے ساتھ ایک حصہ قریباً 20 سال پہلے تعمیر کیا گیا تھا جس جگہ پر یہ نئی توسیع کی گئی ہے پہلے یہاں وضو خانہ ہوتا تھا، مسجد کی دیواریں دو فٹ سے زیادہ چوڑی ہیں اور ان پر کاشی گری کا نہایت پختہ کام کیا گیا، مسجد کی اندرونی دیواروں پر چونے اور دالوں کا پلستر کیا گیا ہے جو قریباً ڈیڑھ صدی گزرنے کے باوجود بھی قائم ہے۔
اس مسجد کا اندرونی حصہ فنی جمالیات کے حوالہ سے بہت ہی زیادہ اہم ہے اس کے تین گنبدوں کے اندرونی حصہ پر نقاشی کا جو کام کیا گیا ہے وہ بہت ہی زیادہ خوبصورت ہے، محراب در محراب کی گئی نقاشی اور خطاطی د یکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کرتی ہیں، مسجد کے اندر دیواروں پر نقاشی کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے شیشے بھی آویزاں کیے گئے ہیں جو مسجد کی تعمیر کے ساتھ ہی نصب کیے گئے تھے۔ بتایا جاتا ہے جس دور میں بجلی نہیں تھی تو مسجد کے اندر ایک چراغ جلانے سے ہی ساری مسجد روشن ہو جاتی تھی، مسجد کی مرکزی محراب کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے 1870ء کے نقشے بھی مصور کیے گئے ہیں، ساتھ ہی قرآنی آیات اور فارسی کے نعتیہ اشعار بھی مسجد کی دیواروں پر نظر آتے ہیں۔
ڈیڑھ صدی کے عرصہ میں اس مسجد میں صرف یہ تبدیلی آئی ہے کہ اس کے اندرونی حصہ میں کی گئی نقاشی کے کچھ حصے معدوم ہو گئے تو انہیں دوبارہ پہلے جیسے رنگوں سے لکھوایا گیا۔ کچھ عرصہ پہلے اس مسجد کی بنیاد جو سطح زمین سے 9 فٹ بلند ہے کا کچھ حصہ دوبارہ تعمیر کیا گیا، بنیاد کو مضبوط بنانے کے لیے چھوٹی اینٹ استعمال کی گئی اس مقصد کے لیے خصوصی کاریگر بلوائے گئے تھے۔ مسجد کی بیرونی دیوار پر کاشی گری کی نئی منقش ٹائیلز بھی لگائی گئیں، مسجد کی بیرونی دیوار پر 4فٹ تک لگائی گئی یہ نئی ٹائلز پرانے حصے سے کچھ الگ نظر آتی ہیں کیونکہ پرانی ٹائلز کے رنگ نئی ٹائلز سے زیادہ نمایاں اور پختہ ہیں۔
قریباً ڈیڑھ سو سال پہلے تعمیر ہونے والی خدکہ مسجد ملتان کی ان اہم ترین عمارات میں شامل ہے جو ملتانی فن تعمیر کا شاہکار ہیں۔ 1970ء میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق خدکہ مسجد کو پاکستان کی 12 خوبصورت ترین مساجد میں شامل کیا گیا، اس سروے میں اس مسجد کا نمبر 8 واں تھا۔ اس کے علاوہ ملتان کی 30 تاریخی عمارات میں بھی خدکہ مسجد شامل ہے۔ اپنی تعمیر سے آج تک مسجد خدکہ کا انتظام و انصرام خدکہ خاندان کے پاس ہی چلا آ رہا ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے اس مسجد میں امامت کے فرائض بھی زیادہ خدکہ خاندان کے لوگ ہی ادا کرتے تھے۔
اس دور میں اس خاندان میں حفاظ کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ مسجد خدکہ کا مرکزی دروازہ جو 1870ء میں تعمیر ہوا آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ اس مرکزی دروازہ سے خدکہ خاندان کے کچھ گھروں کی طرف بھی راستہ جاتا ہے‘ کچھ خاندان یہاں سے دوسرے علاقوں میں بھی چلے گئے ہیں بیشتر اسی جگہ آباد ہیں۔
خدکہ خاندان کے وہ گھرانے جو یہاں سے دیگر علاقوں میں چلے گئے ہیں یا جو یہیں آباد ہیں میں گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ وہ ہر جمعہ کی نماز اپنے بزرگوں کی تعمیر کردہ اس تاریخی مسجد میں ادا کرتے ہیں، جمعہ کی نماز کے بعد اس خاندان کے بزرگ اور نوجوان مسجد کے انتظامی معاملات پر گفت و شنید کی ایک نشست بھی کرتے ہیں۔ خدکہ مسجد کی ملتان کی تاریخ میں شہرت کا خاص حوالہ اس کا فن تعمیر ہے جس میں ملتانی کاشی گری اور نقاشی کے ساتھ ساتھ سنٹرل ایشیاء کا تعمیری اسلوب بھی پایا جاتا ہے۔
بیرون ممالک اور شہروں سے آنے والے سیاح جو ملتان کی تاریخی عمارات دیکھنے کے لیے آتے ہیں انہیں خدکہ مسجد خصوصی طور پر دکھائی جاتی ہے گو کسی مرکزی شاہراہ پر نہ ہونے کی وجہ سے اس مسجد کو خاص عوامی شہرت حاصل نہیں ہو سکی لیکن جو لوگ ملتان اور اس کے فن تعمیر سے آشنا ہیں، ان کے لیے خدکہ مسجد جمال و فن کا ایک شاہکار ہے۔