ټول حقوق د منډيګک بنسټ سره محفوظ دي
“مستی خیل تنظیم ملاکنڈ” نے 11 ستمبر 2019ء کو فِشنگ ہٹ چکدرہ دیر لوئر میں عمرا خان جندول کی 115ویں برسی کے موقعہ پر ایک سیمینار کا اہتمام کیا، جس میں مقررین نے عمرا خان کے بارے میں جو کچھ پیش کیا، اسے میں زیرِ نظر تحریر میں سمونے جا رہا ہوں۔
غازی عمرا خان جندول کو تاریخ اور باقی ماندہ دنیا “دی پٹھان نپولین” کے نام سے یاد کرتی ہے۔ کہتے ہیں کہ عمرا خان کے آبا و اجداد ترکی سے افغانستان آئے۔ وہاں سے باڑوہ جندول منتقل ہوئے، جن کا تعلق ترکھلانی یا ترکھانی قبیلے سے تھا۔ عمرا خان جندول موضع باڑوا (ثمر باغ) میں خان آف جندول امان اللہ کے گھر میں 1860ء کو پیدا ہوئے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کا اصل نام “امرا خان” تھا جس کے معنی بادشاہوں کا بادشاہ کے ہیں۔ بعد میں امرا خان، عمرا خان میں تبدل ہوگیا۔
چرچل سمیت انگریز لکھاریوں نے عمرا خان کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے، لیکن ایچ سی تھامسن کی کتاب “دی ہسٹری آف چترال” میں عمرا خان کی زندگی کے بارے میں بہت کچھ ملتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک بار عمرا خان کو جرگہ میں بلایا گیا اور اُن سے چترال کے بارے میں سوال کیا گیا۔ عمرا خان نے جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرا مشورہ تو یہی ہے کہ چترال پر قبضہ کیا جائے۔ جرگے نے کہا کہ آپ کے والد ایک طاقتور حکمران تھے، اُس نے چترال کو فتح کرنے کی کوشش میں بہت سے گھوڑے، توپیں، گولہ باردو اور دیگر ساز و سامان ضائع کر دیا، لیکن انہیں ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا۔ عمران خان نے جواباً کہا کہ میں نے ایک عرصہ سے قسم کھا رکھی ہے کہ میں چترال پر ضرور قبضہ کروں گا اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔
1879ء کو امان اللہ خان کی وفات کے بعد عمرا خان کے بڑے بھائی نے باپ کی جگہ لے لی۔ وہ جندول سے پشاور آئے اور پشاور سے حج کے لیے چلے گئے۔ حج سے واپس آکر 1881ء میں برطانوی رجمنٹ سے ایک رائفل اور کافی تعداد میں کارتوس چرا کر جندول واپس چلے آئے۔ انہوں نے وہی کچھ کیا جو اکثر لوگ اقتدار حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے چند دوستوں کے ہمراہ خواتین کا لباس اور برقعہ پہنا اور اپنے بڑے بھائی کو جندول کے قلعہ کے باہر قتل کیا۔ بھائی کو قتل کرنے کے بعد انہوں نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ دیر کے نواب “شریف خان” کو معزول کرکے دیر اور اسمار پر قبضہ کرلیا۔ 1892ء تک انہوں نے دیر، ملاکنڈ اور سوات کے بعض علاقوں پر قبضہ کرلیا جب کہ بونیر تک اپنے تعلقات بڑھا دیے۔ انہوں نے 1894ء کو باجوڑ پر بھی قبضہ کرلیا۔ شدید برف باری اور سخت سردی کے باوجود عمران خان فروری 1895ء کو چترال میں داخل ہوئے اور دروش کے قلعے کو فتح کرلیا۔ دروش پر قبضہ کے وقت اللہ تعالیٰ نے عمرا خان کو عبدالمتین کی صورت میں چاند جیسا بیٹا عطا کیا۔ آج جہاں بھی مستی خیل قوم رہ رہی ہے، وہ عبدالمتین ہی کی اولاد میں سے ہے۔ دروش پر قبضہ کے بعد گلگت کے پولی ٹیکل ایجنٹ میجر جارج سکاٹ رابٹ سن (Major George Scott Robetsone) نے عمرا خان کو دھمکی دی کہ وہ چترال سے نکل جائے۔ اس کے جواب میں عمرا خان نے پولی ٹیکل ایجنٹ کو خط لکھ دیا کہ وہ خو یہاں سے نکل جائے۔ عمرا خان چترال کے قلعہ پر قبضے کے لیے آگے بڑھے اور قلعہ کو فتح کرنے کے لیے ڈھیر سارے حملے کیے۔ لڑائی میں فریقین کو کافی جانی نقصان اُٹھانا پڑا۔ دو انگریز فوجی افسر بھی گرفتار ہوئے جنہیں دروش کے قلعہ منتقل کرکے وہاں رکھا گیا۔ لڑتے لڑتے عمران خان نے چترال پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے چچازاد بھائی مجید خان کو اپنا فوجی افسر مقرر کیا۔ اسی دوران میں نوابِ دیر “شریف خان” انگریزوں کی حمایت حاصل کرنے کے بعد واپس دیر آگئے، تو عمرا خان نے مجید خان کو پیغام بھیجا کہ “فوج کو اکھٹا کرکے دیر کی طرف روانہ ہو جاؤ۔ کیوں کہ نوابِ دیر انگریزوں کی حمایت سے واپس دیر آچکے ہیں اور اس کی گوش مالی ضروری ہے۔ اس سے کوئی رعایت نہ کرنا۔ اس لے کہ وہ مسلمانوں کا دشمن ہے۔” مجید خان کو جب یہ پیغام ملا، تو اُس نے نوابِ دیر اور انگریزوں سے ساز باز کرتے ہوئے چالیس ہزار روپے رشوت وصول کی۔ مجید خان نے فوج، گھوڑے، اسلحہ، گولہ بارود اور ساز و سامان حکومت یا انگریز حکمران کے حوالے کیا۔ جب اس بارے میں حسن خان کو علم ہوا، تو وہ عمرا خان کے پاس پہنچ گیا اور انہیں حالات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ آج یا کل مجید خان جندول کو برباد کرنے والا ہے۔ کیوں کہ اُس نے نوابِ دیر اور انگریزوں سے معاہدہ کرکے چالیس ہزار روپے رشوت لی ہے۔ عبدالمتین جو کہ اب جوان ہوچکا تھا اور اُس میں شیروں جیسی خصوصیات موجود تھیں، سے عمرا خان نے کہا کہ اب ہمارے لیے یہاں پہلے جیسا رہنا مشکل ہو گیا ہے۔ عبدالمتین خان نے پوچھا کہ “ابا جی، آپ آج اتنے پریشان کیوں ہیں؟ مجھے تو کچھ بتائیں۔” عمرا خان نے اسے جواباً کہا کہ “بیٹا، انگریزوں سے ہوشیار رہنا۔ آج سے چودہ سال پہلے جب تمام علاقے گلگت سمیت میرے قبضے میں تھے، تو رشتے کے ناتے مجید خان کو مَیں نے اپنی فوج کا افسر مقرر کیا، تاکہ وہ لوگوں کے جان و مال کا تحفظ کرے، لیکن مجید خان نے اپنا ضمیر بھیج کر ملک کو انگریزوں کے حوالے کردیا۔ اس نے میرے ساتھ بہت بڑا دھوکا کیا ہے۔”
مارچ 1895ء کو موبلائزیشن ڈویژن فوج نوشہرہ سے جنرل سرجان لو (General Sir John low)، میجر جنرل سر رابرٹ لو (Major General sir Robert low) اور جنرل باڈن بلڈ (Genral Badon Blood) کی سرکردگی میں جندول کے لیے روانہ ہوئی۔ لڑائی سے پہلے انگریزوں نے باجوڑ، مہمند، بونیر، ناوگئی اور علاقے کے دیگر طاقت رکھنے والے خوانین سے بات چیت کی کہ وہ لڑائی کے دوران میں غیر جانب دار رہیں۔ نوابِ دیر شریف خان انگریزوں کا حمایتی تھا۔ انگریزوں کو شاہ کوٹ (پلئی درہ)، ملاکنڈ پاس، چکدرہ، راموڑہ اور کاٹکلہ میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ آخری لڑائی جندول کی وادی میں لڑی گئی۔
یہاں دو متضاد رائے سامنے آتی ہیں۔ ایک رائے کے مطابق جب عمرا خان کو یہ یقین ہوگیا کہ ان کے غیر منظم لشکری انگریز کے بڑے اور منظم فوج کے ساتھ نہیں لڑسکتے، تو عمران خان نے شکست تسلیم کرتے ہوئے دو گرفتار انگریز افسروں کو رہا کردیا اور خود افغانستان چلے گئے۔ انہوں نے افغانستان ہی میں 1903ء کو وفات پائی اور وہی پر دفن ہوئے۔ بعض کے نزدیک عمرا خان 1904ء کو وفات ہوئے۔
دوسری رائے رکھنے والے یہ کہتے ہیں کہ عمرا خان کا نوجوان بیٹا عبدالمتین مستی خیل جان بھٹے کے مقام پر جنگ لڑ رہا تھا۔ انگریزوں نے کئی بار صلح کی پیشکش کی، اور دوستی کا ہاتھ بڑھایا لیکن عبدالمتین لڑنے پر مصر رہا۔ لڑائی میں نوابِ دیر اور انگریزوں کے پاس بیس ہزار فوج جب کہ عبدالمتین کے پاس صرف تین ہزار لشکری تھے۔ ایک طرف عبدالمتین انگریزوں سے جنگ لڑ رہا تھا، تو دوسری طرف دس انگریز خواتین کے لباس میں ملبوث جندول کے قلعہ پہنچے، اور دروازے پر دستک دی۔ عمرا خان دروازے پر آئے، تو انگریزوں نے دروازہ کھولنے کی استدعا کی، لیکن عمرا خان نے انکار کیا۔ کافی منت سماجت کے بعد جب عمرا خان نے خواتین کی حرمت کو مدنظر رکھتے ہوئے دروازہ کھولا، تو انگریزوں نے ان کو گھیر لیا۔ ان کو پکڑ کرجیپ میں ڈال دیا اور پشاور لے گئے۔ وہاں عمرا خان کو جیل میں رکھا گیا۔ شام کو لڑائی تھم جانے کے بعد جب عبدالمتین خان جندول قلعہ پہنچا، تو اسے معلوم ہوا کہ اس کے والد کو انگریز دھوکے سے گرفتار کرکے پشاور لیے گئے ہیں۔ عبدالمتین خان اسی وقت اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر پشاور کے لیے روانہ ہوئے۔ عبدالمتین خان پشاور میں اپنے ایک دوست کے پاس گئے، اور اسے سارا ماجرا سنایا۔ اس نے اپنے دوست کو گورنر کے اِغوا کے اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔ دوست نے اُسے بہت سمجھایا کہ گورنر کے بنگلے پر سنتری ہوتے ہیں، یہ بہت مشکل کام ہے اور اس میں جان سے جانے کا بھی خطرہ ہے، لیکن وہ باز نہیں آئے۔ عبدالمتین رات کے آخری پہر گورنر کے بنگلے میں داخل ہوئے۔ گورنر کے سر پر پستول رکھ کر اسے اِغوا کیا اور اسے باڑوہ (ثمر باغ) جندول لے آیا۔ صبح گورنر کو نہ پا کر انگریز بہت پریشان ہوئے کہ گورنر کو کون اُٹھا کر لے گیا ہے؟ عبدالمتین نے باڑوہ (ثمر باغ) پہنچ کر انگریز سرکار کو خط لکھا کہ گورنر میرے قبضے میں ہے، اور اُسے تب رہا کیا جائے گا جب میرے والد عمرا خان کو رہا کیا جائے گا۔ عبدالمتین خان کا خط ملتے ہی انگریز مطمئن ہوئے۔ پھر جب انگریزوں نے عمرا خان کو رہا کر دیا، تو بدلے میں عبدالمتین خان نے بھی انگریز گورنر کو رہا کیا۔
عمرا خان کی رہائی کے بعد دونوں باپ بیٹا افغانستان چلے گئے۔ انگریز سرکار کے کہنے پر نوابِ دیر نے عبدالمتین خان کو بلایا۔ انہیں کھانے کے بہانے تور قلعہ (Tor-Qila) لے جا کر گرفتار کیا۔ اس موقعہ پر انگریز نے نوابِ دیر سے کہا کہ عبدالمتین خان کو فوراً قتل کردیا جائے، یا اُس کی دونوں آنکھیں نکال لی جائیں۔ اگر آپ ان دونوں میں ایک کام نہیں کریں گے، تو تمام منصوبہ ناکام ہو جائے گا۔ نوابِ دیر نے اس کی آنکھیں نکال دیں، جس کے عوض انگریزوں نے نوابِ دیر کو دوسو ہزار (دو لاکھ) روپے عطا کیے۔ عبدالمتین کی آنکھیں دو سال تک انگریزوں کے پاس رہیں۔
عبدالمتین اس کے بعد کچھ عرصہ زندہ رہ کر انتقال گیا۔