منډيګک
افغان تاريخ

غازی امان اللہ، بابائے استقلال افغانستان

عبدالحئی ارین

0 697

تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم پر بُرے حالات آتے ہیں تو اُس وطن کے سپوت اپنے جان اور مال کی قربانیوں سے اپنے وطن کو قبضہ گروں سے بچاتے آرہے ہیں۔ ا پنے وطن کی دفاع کیلئے میروائس نیکہ، احمد شاہ بابا، دریا خان، ایمل خان، خوشحا ل خان ، بایزد روشان ، خان شھید، باچا خان ،صنوبر کاکا جی اور ہزاروں دیگر پشتونوں نے مغل اور انگریز حکمرانوں کے خلاف بغاوت کا علم بلندکر کے اپنے سرزمین کا دفاع کیا۔ امیر عبدالرحمن کی وفات کے بعد اُن کے فرزند شہزادہ حبیب اﷲخان تخت نشین ہوئے۔ تاہم وہ بھی اپنے والد کی طرح انگریز سامراج کی استعماری پالیسیوں سے اپنے وطن کو آزاد نہیں کراسکا۔

امیر امان اللہ

ایک دن امیر حبیب اﷲ خان شکار کھیلتے ہوئے زخمی ہونے کے بعد وہ جانبر نہ ہوسکے یوں وہ اپنے والد کی طرح انگریزوں سے اپنے مادر وطن کو آزاد کرانے کے ارمان دل میں لئے اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ انکے موت کے بعد اُسکا بیٹا شہزادہ امان اللہ خان جو کابل کا حکمران تھاا فغانستان کے تخت پر جلوہ افروز ہوئے۔ جنھوں نے بحثیت افغان شہنشاہ کے اپنی پہلی تقریر میں تلوار میان سے نکالی اور افغانستان کی آزادی کا اعلان کرتے ہوئے، کہاکہ’ یہ تلوار میں اُس وقت تک میان میں نہیں رکھوں گا جب تک افغان سرزمین کو مکمل آزادی نہ دلاوں‘

انگریز سرکارکو امیر امان اللہ کی یہ بے نیازی راست نہیں آئی اور اُنھوں نے ۱۹۱۹ میں افغانستان کے خلاف تیسری افغان انگلو وار(جنگچھیڑ دی، تاہم شاہ امان اللہ خان کی ولولہ انگیز قیادت اور افغان قوم کی اتحاد و اتفاق نے انگریز فوج کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا اور اس طرح وہ زلت امیزشکست سے دو چار ہوئے۔ اور اخر کار ۱۸ اگست ۱۹۱۹ کو برطانیہ کو افغانستان کی آزادی تسلیم کرنی پڑی۔ جنگ میں سُرخرو ہو نے کے بعد ناصرف افغان قوم نے امیر امان اللہ خان کو نجات دہندہ قرار دے دیا بلکہ انھیں شاہ کے لقب سے نوزا۔
تاریخ نے قوموں کو یہ پیغام دیا ہے،حق مانگنا توہین ہے حق چھین لیا جا ئے

احمد فراز کے اس شعر کے مصداق بابا استقلال غازی امانﷲخان نے افغان ملت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے انگریزاستعمار کے سامنے ڈٹ گئے۔ اور اُنھوں نے انگلستان کو خبردار کیا کہ وہ آزاد افغانستان میں مداخلت سے باز رہے اور �آپ نے اپنے والد اور دادا کے انگریزوں کے ساتھ افغان سر زمین کے حوالے سے کیے گئے تمام معاہدوں کو ماننے سے انکار کیا جس کی وجہ سے ۱۹۱۹ میں انگلستان نے افغانستان کے خلاف جنگ شروع کی۔ افغان ملت نے شاہ امانﷲ کا ساتھ دیتے ہوئے بالخصو ص افغانستان کے وردگ اور ہزارہ قبائل نے سب سے پہلے اور پھر تمام افغان ملت نے بیک آواز اور متحد ہو کر انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوے۔

اسی طرح پشتونخوا وطن اورنیم ازاد پشتونخوا وطن (فاٹا)سے بھی حریت پسند وطن دوست قوتوں نے شاہ کی مدد کیلئے لشکر تیار کیے، جن میں خان شھید عبداصمد خان اسکزئی،عبدا سلام اسکزئی،مشو شیرانی، شیر علی کاکڑ، ازمیر خان مندوخیل، ساوون موسی خیل، باچا خانخان عبدالغفار خان)، فقیر ایپی، عجب خان اپریدی صنوبر کاکاجی اور ہزاروں افغانوں نے بھی امانﷲخان کا ساتھ انگریزوں کے خلا ف ازادی کی جنگ شروع کی، جن میں سے اکژ رہنماوں کو انگریزسرکار نے جیلوں میں بند کرکے اُن کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کئے۔ اور افغانوں کی یہ تا ریخی اتحاد اخر کار رنگ لے آیا اور انگریز حکومت کو شاہ امانﷲ اور افغان قوم کے سامنے جھکنا پڑا، اور اُنھوں نے شاہ افغانستان کے استقلال کو تسلیم کیا۔ غازی امان اللہ خان نے بحثیت حکمران نا صرف ملک کی آزادی حریت اور امن و امان کو برقرار رکھا بلکہ انھوں نے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے اور افغان ملت کو جدید دنیا کے ساتھ اھم اھنگ کرنے کیلئے بھی کئی تاریخی کارنامے سرانجام دے جن میں کچھ کا مختصرا ذکر میں یہاں کرتا چلوں۔

غازی امان اللہ خان نے ایک موقع پر فرمایا تھا ’’آزادی کا ایک لمحہ یہ بھی ہے کہ آپ عوام ، علماء ، مشائخ، وکلاء اور ملت کے دیگر لوگ میرے حضور اپنی رائے اور افکار کا آزادانہ طور پر اظہار کرسکتے ہو‘‘ ۔امان اللہ خان جوکہ خود بھی ایک صحافی تھے وہ اور اُس کی اہلیہ ملکہ سوریا ’ سراج لاخبار‘ نامی مشہور اخبار میں کام کرتی تھی،اس ا خبارکے ایڈیٹر شاہ امان اللہ کے سُسر محمود طرزی تھے۔ اسی طرح شاہ کے دور کے پہلے سال اپریل 1919میں ’افغان ‘کے نام سے ایک اخبار شروع کیا گیا جس کے سربراہ جعفر خان قندھاری تھے۔

اعلیٰ حضرت شاہ امان اللہ خان

اعلیٰ حضرت شاہ امان اللہ خان اپنی ملت کی آراء و افکار بیان کرنے کی آزادی پر پورا یقین رکھتے تھے چونکہ میڈیا کی آزادی بادشاہ اور عوام پر ایک چیک اینڈ بیلنس کی حیثیت رکھتا ہے۔ غازی امان اللہ خان نے اپنے دور کے پہلے ہی سال جرنلزم کی آزادی کا اعلان کیا اور’ امان افغان‘ جریدہ نے سراج الاخبار کی جگہ لے لی ۔ اس کے علاوہ ملک میں عام لوگوں نے مختلف اخبار و جرائد کی اشاعت شروع ہوئی۔ اس طرح ملک میں خواتین کے لئے ’ارشاد نسواں‘کے نام سے ایک میگزین بھی شروع ہوا جس کی مدیران غازی امان اللہ خان کی ساس اسماء سیمی اور ایک دوسری خاتون محترمہ روح افزاء تھیں ۔

اس کے ساتھ ملک میں دیگر جرائد و اخبار مثلاً مجموعہ عسکریہ جسے بعد میں اردو اخبار کے نام سے منسوخ کیا گیا اس کے علاوہ آئینہ عرفان ، مجموعہ صحیہ اور ثروت کے پروگرام شروع کئے گئے ۔ اس طرح آزادی بیان اور جرنلزم کے حوالے سے 1924میں مطبوعات قانون نافذ کیا گیا۔ جس کے بعد ملک میں میڈیا نے زو ر پکڑ لی اور افغانستان میں سیکڑوں اخبار جرائد ، پروگرام اور رسائل چھپنے لگے ۔ اخوان افغان کے نام سے کابل میں پہلی پارٹی بنائی گئی اور غالباً یہ سیاسی پارٹی غازی امان اللہ خان کے سسر محمود طرزی نے بنائی تھی ۔

افغانستان میں ریڈیو اسٹیشن بھی امانی دور میں قائم کیا گیااور ملک کے کئی علاقوں شہروں اور خاص مقامات پر لاؤڈ اسپیکر بھی نصب کئے گئے تاکہ عوام ریڈیو کی نشریات سن سکے اور اس طرح سیل سے چلنے والے ریڈیو سیٹ بھی عوام میں تقسیم کئے گئے۔ اور اس طرح جب امان اللہ خان نے ملک میں سینما گھروں کی ضرورت محسوس کی تو جب وہ یورپ کے دورے پر تھے اس دوران شاہ کے انگلستان کے سیاحت کے دوران فلم بندگئے فلموں کی نمائش کابل کے مرکزی سینما گھرو ں میں شرع ہوئی اور یہ تمام سینما گھر امان اللہ خان نے یورپ کے دورے سے پہلے ملک میں قائم کئے تھے اور اس طرح امانی دور میں ملک کے کئی مشہور علاقوں میں چھاپے خانے بھی قائم کئے گئے ۔

امان اللہ خان کے خاندان کا موسیقی کے ساتھ لگاؤ اورمحبت تھی ۔ ان کے دادا عبدالرحمان خان خود موسیقی کے دلدادہ تھے اور وہ موسیقی کے کئی الات بجا بھی سکتے تھے ۔ جبکہ امیر نے نورستان اور ہندوستان سے خاتون موسیقاروں کو اپنی محل میں جگہ دی تھی جو موسیقار تھے اور ملک کے تمام موسیقاروں کو تنخواہیں یا خاص معاش ملتی تھی ۔ امان اللہ خان کے والد حبیب اللہ خان بھی موسیقی سے لگاؤ رکھتے تھے اور افغانستان میں موسیقی کو پروان چڑھانے کے لئے ملک کے کونے کونے اور ہندوستان سے اچھے موسیقار بلائے گئے تھے تاکہ اچھی موسیقی کو ترقی دی جاسکے ۔

غازی امان اللہ خان نے اپنے دور میں موسیقی کو ملک کے تعلیمی اداروں میں بطور مضمون شامل کیا تھا جس کی ہفتے میں دو دن کلاسز ہوتی تھیں۔ جس کا ثبوت اس وقت کے تصانیف سے بھی عیاں ہے کہ غازی امان اللہ خان خود بھی شوقیہ گانے گاتے تھے ۔ اور وہ پیانو بجا نے پر مہارت رکھتے تھے ۔ یہ ہنر اس نے اپنے والد کے دور میں استاد قاسم خان سے سیکھی تھی ۔اس سلسلے میں انھوں نے سینکڑوں نوجوانوں کو موسیقی کی تربیت کیلئے ترکی ، ہندوستان ، روس اور دیگر ممالک بھیجا تاکہ وہ وہاں سے موسیقی اور گلوگاری کی تربیت حاصل کرسکیں۔

انہوں نے غلامی نظام ختم کردیا۔ملک میں تمام قیدیوں کو آزاد کیا خاص کر وہ قیدی جو ان کے والد کے دور میں جیل میں رکھے گئے تھے ۔ شاہ نے نہ صرف انہیں آزادی دی بلکہ اہم حکومتی عہدوں پر بھی فائز کیا ۔اس سے پہلے کہ امان اللہ خان انگلستان کے ساتھ اپنا حساب کتاب برابر رکھتا امان اللہ خان نے اپنے ملک کے حالات تبدیل کرنے کے لئے ملک میں معاشرتی ، معاشی، سیاسی تبدیلیوں اور اصلاحات شروع کیں ۔انہوں نے جلال آباد میں لویہ جرگہ بلاکر ا س میں ایک اساسی قانون بھی پاس کیا امان اللہ خان نے مختلف ملکوں کے ساتھ معاہدے اور عہد نامے بھی کئے جن میں افغان روس عہدہ نامہ، افغان انگلستان عہد نامہ، افغان ترکی عہد نامہ اس طرح افغان ایران ،فرانس، جاپان وغیرہ کے معاہدے شامل ہے ۔

امانی دور میں افغانستان کی قدیم تاریخ اور تاریخی مقامات پر ریسرچ کیا گیا جس میں بگرام، بامیان، نوشیروان، غزنی، بلخ وغیرہ کے علاقے قابل ذکر ہیں ۔ ان علاقوں میں قدیم تصاویر، نقشے ، پتھر لکھ ، میخی خط ، زرتشی مذہب اور آرین تہذیب کے حوالے سے کافی معلومات حاصل ہوئیں اور یہی وجہ ہے کہ آج کے تاریخ کے علماء نے انہی حقائق و معلومات کو بنیاد بناکر پشتونوں کی اصل ونسل کی تاریخ رقم کی۔

1923ء میں لویہ جرگہ میں اساسی قانون پاس کیا گیا جو ملک کا پہلا آئین بنا ۔ امان اللہ خان نے دس سالہ دور میں ملک کو جدید انقلابی دور میں داخل کیا اور اپنے ان اصلاحات کی بناء پر وہ چاہتے تھے کہ ملک کو دنیا میں ایک اعلیٰ اور بہتر مقام پر لاکھڑا کرسکے۔ اس لئے اس دور کے پہلے اصلاحات تعلیم و تدریس کے مرحلے سے شروع ہوئی جہاں پر بادشاہ نے ترکی ، مصر اور فرانس سے اساتذہ بلائے اور پہلے ہی مرحلے میں ملک میں ترانوے مڈل سکول بنائے گئے اور اس طرح انیس سو بائیس میں پہلے امانیہ سکول کی بنیاد رکھی گئی جس میں فرانس کے اساتذہ تھے انیس سو تئیس میں امانیہ کالج بنایا گیا اور ملک میں ہر جگہ تعلیمی ادارے کھولے گئے ۔اس طرح مذہبی درس و تدریس کو حکومت کے کنٹرول میں لایا گیا۔

امانی دور میں ہی کمیونی کیشن کے شعبے کو کافی ترقی دی گئی۔ملک میں اہم قومی شاہراہیں کی تعمیر شروع کی گئی۔ اپ کے دور میں اہم اور بڑی قومی شاہراہوں کی تعمیر ات، جدید ٹیلیگراف، ٹیلیفون لائینز ، ٹیلیوژن، ریڈیو اسٹیشنز(۱۹۲۹ میں پہلا ریڈیو اسٹیشن قائم کیا گیا)۔ اسی طرح کابل سمت ملک کے کئی صوبوں میں سنیما گھر کھولے گیے۔جہاں بڑے سکرین پر ملک میں جاری ترقیاتی کاموں اور عوام کو شعور دینے والے فلمیں دیکھائی جاتی تھیں۔
حوالہ جات

1 Da Afghanistan Land Tareekh (short History of Afghanistan); by Abdul Hai Habibi
Kabul, 1982.
2. Da Afghanistan Mahasir Tareekh (Contemporary History of Afghanistan); by Ibrahim Attahi, Kabul press, 2000.
3. Ghazi Amanullah Khan, Habibullah Rafi; Peshwar, Pakistan. 1990.
5. Zma Zhowand ao Zhowandoon, Abdul Samad Khan Achakzai; Quetta, Pakistan.2005.
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Protected contents!