پختون قبیلہ۔ خٹک صوبہ خیبر پختونخوا میں دریائے سندھ کے مغربی کنارے سے لے کر مالاکنڈ کی سرحدوں تک آباد ہیں۔ اس تمام علاقے کو ضلع کرک میں شامل کیا جاتا ہے۔ خٹک قبائل کا تاریخی مرکز اکوڑہ خٹک ہے جو کہ صوبائی صدر مقام پشاور سے تقریباً 50 کلومیٹر مشرق میں واقع ہے۔
پختون قوم کی روایات، اقدار اور پشتو شاعری کا جب بھی ذکر ہوتا ہے تو خوشحال خان خٹک کے بغیر یہ تذکرہ ادھورا ہی رہتا ہے ۔
انگریز سامراج کے خلاف اپنے اشعار کے ذریعے آواز بلند کی اور پشتونوں کو ان کا عہد ماضی یاد دلایا ۔ امن کے حوالے سے بھی لازوال اشعار کہے ۔
حسن کہ غرور لری وقار د مینی ھم شتہ
ستا گونجی پہ تندی کی زما گونجی پہ شملہ کی
ترجمہ
خوشحال خٹک اپنے محبوب سے کہتے ہیں
کہ اگر تم حسن پر غرور کرتے ہو تو مجھے بھی اپنی محبت پر ناز ہے اگر تمھارے ماتھے میں غرور کی وجہ سے شکن پڑ جاتا ہے تو میری پگڑی میں بھی شکن ہے
خوشحال خان خٹک پشتو زبان کے صاحب سخن شاعر تھے۔ انہوں نے بیس سال کی عمر میں شاعری شروع کی۔ خوشحال خان خٹک نے عملی زندگی کی طرح اپنی شاعری میں رزم اور بزم کو یکجا کر کے لطیف جذبوں کا کھل کر اظہار کیا۔ انہوں نے اپنے کلام میں زبان و مکان کی قید سے آزاد ہوکرنئے خیالات کی شمع روشن کی۔
قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ جس کا انہوں نے اپنے کلام میں تذکرہ بھی کیا ہے۔خوشحال خان خٹک بیک وقت صاحب تیغ و قلم، شاعر و فلسفی اور خودی و غیرت کے علمبر دارتھے۔
شاعر مشرق علامہ اقبال بھی ان کے اشعار سے متاثر تھے اسی لئے انہوں نے خوشحال خان خٹک کو بابائے افغان کا لقب دیا ۔ پشتو کے یہ عظیم شاعر نہ صرف ادیب اور حکیم تھے بلکہ وہ ایک بے مثل جنگجو بھی تھے جن کی تلوار کی کاٹ کا ہر جانب چرچا تھا ۔ غیرت مند پختون کے طور پر انہوں نے آخری دم تک تلوار بلند کئے رکھی ۔
تاریخ کے نشب وفراز میں پشتون قوم ایک طویل عرصے سے غیر ملکی جارحیتوں ، حملہ آوروں اور استبداد ی قوتوں کاشکار رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان تمام سماجی برائیوں کے خلاف منطقی طو رپر روز اول سے جدوجہد بھی پشتون قومی تاریخ کا اٹوٹ حصہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پشتو زبان کادامن مزاحمتی ادب پاروں انقلابی ترانوں سے بھرا پڑا ہے ۔
خٹک لقمان کی اولاد میں سے ہیں، لقمان کا بھائی آفریدی قبائل کا جد امجد تصور کیا جاتا ہے۔ تاریخ سے عیاں ہے کہ خٹک قبائل نے با رہا ہجرت کی ہے اور اب یہ قبیلہ مختلف علاقوں جیسے بنوں کے شمالی حصے، کوہاٹ، کرک، نوشہرہ اور اٹک میں آباد ہیں۔
گل مل، ساز و سرود، ساقی سرے سترگے
لا بہ ڈیر عالَم رسوا کا چی دا چار شتہ
گل و نرگس، ساز و سرود، ساقی کی سرخ آنکھیں
اگر یہی عالَم رہا تو بہت سے لوگ رسوا ہو جائیں گے
پشتون یا پختون قبائل میں خٹک قبیلہ کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ اس قبیلہ میں شرح تعلیم بہت زیادہ ہے۔ تاریخ میں یہ بات بھی عیاں ہے کہ خٹک قبیلہ سے تعلق رکھنے والے افراد ذہین تھے اور کلیدی عہدوں پر فائز رہے۔
علامہ اقبال نے 1928میں افغانستان کی وزارت تعلیم کو ایک خط لکھا ، جس میں اس بات پر زور دیا کہ وہ شاعر،حکیم، مفکر و فلسفی خوشحال خان خٹک کی تعلیمات کو عام کرنے کی اہمیت کا ادراک کرے۔ اُس وقت افغانستان میں ترقی پسند غازی امان اللہ کی حکومت تھی۔ جب اُنہوں نے اپنی اصلاحات کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا تو فرنگی استعمار نے پیروں اور مذہب فروشوں کا ایسا گٹھ جوڑ بنایا کہ 17جنوری 1929کو غازی امان اللہ کو افغانستان چھوڑ کر اٹلی میں پناہ لینی پڑی۔
اپنی زندگی کے اس پہلوکے بارے ميں ايک جگہ لکتھے ہيں-
“لايو غم لا زنے لاڑ نۂ وی چی بل راشی،
لکہ زۂ پہ ورز پيدا د شور و شر يم”
ترجمہ
“ابھی ايک غم سے چٹھکارا نھيں پاتا
کہ دوسرا آ موجود ہوتا ہے
میجر راورٹی نے 1862میں گلشن روہ، کے نام سے خوشحال خٹک کے 100نظموں کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا، علامہ اقبال اس ترجمے کی وساطت سے اس نابغہ روزگار شخصیت سے متعارف ہوئے۔ غور فرمائیں! حضرت اقبال نے خوشحال بابا کی صرف 100نظموں کا مطالعہ فرمایا اور محض 100نظموں میں ایسے خوشحال کو پالیا ، جو علم و فن اور قول وعمل میں عالمگیر ہے۔
لمبے شاعرانہ بال، لمبی لمبی فلسفیانہ داڑھی، گال پر کالا تل جو انسانی نفسیات پر عبور رکھنے کی واضح علامت ہے، مضبوط توانا جسم اور دراز قدوقامت کے مالک، نابغہ روزگار شخصیت، پشتو زبان کے عظیم قوم پرست اور وطن پرست شاعر، ادیب، سردار، فلسفی، سیاست دان، ماہر نفسیات، شکاری، حکیم اور جنگجو خوشحال خان خٹک مغل شہنشاہ نورالدین جہانگیر کے دور حکومت میں1022ھ بمطابق مئی1613ء کو خٹک قبیلے کے سردارشہبازخان کے ہاں اکوڑہ خٹک(نوشہرہ)میں پیدا ہوئے،چھ سال کے تھے کہ انہیں ایک دن گھر کی خادمائیں اپنے ساتھ دریائے کابل میں سرائے اکوڑہ کی گھاٹ پر لے گئیں، وہ خود تو کپڑے اور برتن دھونے میں مصروف ہوگئیں جب کہ ننھا خوشحال خان دریا کے کنارے نہانے لگا کہ اس دوران پانی کا زوردار ریلا آیا اور اسے اپنے ساتھ بہا لے گیا۔ان خادماؤں میں ’’دولتئی‘‘ نامی خادمہ کی نظر خوشحال کے بالوں میں بندھے ریشم کے تاروں پر پڑی جو سطح آب پر تیرتے چلے جارہے تھے دولتئی نے ریشم کا گچہ سمجھ کر جوں ہی اسے پکڑ کر زور سے کھینچا تو اس کے منہ سے ایک آہ نکلی کیوں کہ اس گچے کے ساتھ وہ خوشحال خان کو بھی پانی سے باہر نکال لائی تھی۔ دولتئی چلانے لگی، دوسری نوکرانیاں بھی یہ چیخ وپکار سن کر آپہنچیں، خان زادے کو بے ہوش دیکھ کر سب کو اپنی جان کی پڑگئی، خان زادے کا پیٹ دریا کے پانی سے اتنا بھر چکا تھا کہ اس کے منہ سے پانی بہہ رہا تھا، نوکرانیوں نے جلدی اسے گڑھے پر پیٹ کے بل ڈال دیا تاکہ اس کے پیٹ میں بھرا پانی باہر نکل سکے۔تھوڑی دیر بعد خان زادے کو ہوش آیا،اس واقع کے دوسال بعد خوشحال خان خٹک کے ساتھ ایک اور واقعہ بھی پیش آیا، ایک دن وہ سخت گرمی کے موسم میں اپنے محلے کے لڑکوں کے ساتھ ایک چھپر کے نیچے کھیل رہے تھے کہ اس دوران زور کی آندھی آئی اور چھپر پر پڑی چٹائی کو جس پر کچھ بھاری پھتر پڑے ہوئے تھے، آندھی لے اڑی، ان پھتروں میں سے ایک پھتر خوشحال خان پر آگرا اور بالوں کی مانگ کے برابر ان کی پیشانی کو چیر ڈالا جس سے بے ہوش ہوکر زمین پرگر پڑے اور کئی دنوں تک مرہم پٹی کرنے کے بعد ان کا زخم ٹھیک ہوا۔
خوشحال نے نثر کے علاوہ شعر کی زبان میں بھی تعلیم و تربیت کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور اس بات کی تاکید کی ہے کہ لڑکے یا لڑکی کی مناسب تربیت ہونی چاہیے۔ خوشحال کے یہ خیالات ان اعلیٰ اقدار کی عکاسی کرتے ہیں جو ہمیں ایک روشن مستقبل کی طرف گامزن کرتے ہیں۔ انسانی کردار کی تعمیر کے حوالے سے خوشحال نے جو مثالیں دی ہیں۔ وہ بڑی معنی خیز اور معقول دکھائی دیتی ہیں۔
“پروردہ کہ دہ مغلو پہ نمک يم،
د اورنگ لہ لاسہ ہم لا غريوہ ڈ ک يم،
بس ناحقہ ئے زندان کڑم يو سو کالہ،
خدائے خبردے کاپاخپل گناہ زۂ شک يم،
د افغان پہ ننگ م وتڑلہ تورہ،
ننگيالے د زمانے خوشحال خٹک يم-“
“اگرچہ ميں مغلوں کے نمک کاپروردہ ہوں- ليکن اورنگ (زيب) کے ہاتھوں بہت غضبناک ہوں- ناحق چند سال تک مجھے زندان کيا- خدا جانتا ہے کہ ميں نے کوئی گناہ نہيں کيا- ميں نے افغان قوم کی ننگ و ناموس کی خاطر اپنی کمر سے تلوار باندھ لی ہے- میں زمانے بھرکا غيرت مند خوشحال خان خٹک ہوں-“ پھر رہا ہو کر وطن واپس آیا۔ دل میں مغلوں کے خلاف انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی۔ یوسف زئی اور آفريدی قبیلے کے ساتھ مل کر شاہی فوجوں پر کئی حملے کیے اور اکثر معرکوں میں مغل افواج کو زک پہنچائی۔ ويسے تو ساری زندگی جنگ و جدل اور افغان قوم کوايک کرنے کی کوشش ميں گزاری تاھم اس کا آخری زمانہ بڑی مصیبت اور پریشانی میں گزار۔ اپنی زندگی کے اس پہلوکے بارے ميں ايک جگہ لکتھے ہيں- ”لايو غم لا زنے لاڑ نۂ وی چی بل راشی، لکہ زۂ پہ ورز پيدا د شور و شر يم“ ”ابھی ايک غم سے چٹھکارا نھيں پاتا کہ دوسرا آ موجود ہوتا ہے٫ جيسے کہ ميں بروز شور و شر پيدا ہوا ہوں-“ اس نے تقریباً پنتالیس ہزار اشعار اپنی یادگارميں چھوڑے ہیں۔ 200 سے زائد کتابيں ان سے منسوب ہيں- جن ميں سے زیادہ تر نا پيد ہيں- موجود کتابوں ميں سے قابل ذکر باز نامہ، فضل نامہ، دستار نامہ اور فرح نامہ شامل ھيں-ان کی شاعری ميں تغزل سے بڑھ کر واقعاتی رنگ ہے۔ بیشتر رجزیہ اشعار ہیں۔ وہ بيک وقت صاحب تيغ و قلم، شاعر و فلسفی، افغان قوم کے راہ نما و حکيم، خودی و غيرت کے علمبر دارر و پاسدارتھے-
پشتو ادب میں خوشحال خان خٹک سب سے زیادہ ہمہ گیر شخصیت ہیں۔ خوشحال خان شاعر بھی تھے، ادیب بھی تھے، امیر بھی تھے اور فقیر بھی، انہیں تلوار اور ڈھال سے بھی عشق تھا اور سر و ساز کے ساتھ بھی لگاؤ تھا۔ وہ کتابوں کے صفحات پر بھی خطاطی کرتے تھے اور شکار کے میدان میں بھی ثانی نہیں رکھتے تھے۔ غرض زندگی کا کوئی ایسا رخ نہیں ہے جس میں انہوں نے طبع آزمائی نہیں کی ہو اور ادب کی کوئی ایسی شاخ نہیں ہے جس میں انہوں نے پشتو زبان کو دوسری زبانوں کے ساتھ ہم پلہ کھڑا نہیں کیا ہو بلکہ سچ تو یہ ہے کہ پشتو زبان پر خوشحال بابا کا جتنا احسان ہے اتنا کسی دوسرے شخص کا نہیں ہے
خوشحال خان خٹک ایک صاحب سیف شاعر تھے. وہ خٹک قببیلے کے سردار تھے. مغلوں کے خلاف کئی لڑائیاں لڑیں. پٹھانوں کے یوسفزئ قبیلہ کے ساتھ جنگ و جدل کا میدان گرم رکھا. بعض مصلحتوں کی بناء پر یوسفزیوں کو ساتھ ملانے کی کوششیں بھی کیں.اس مقصد کے لیے سوات بھی گئے اور وہاں چند مہینے قیام کیا.
پشتو ادب میں خوشحال خان خٹک سب سے زیادہ ہمہ گیر شخصیت ہیں۔ خوشحال خان شاعر بھی تھے، ادیب بھی تھے، امیر بھی تھے اور فقیر بھی، انہیں تلوار اور ڈھال سے بھی عشق تھا اور سر و ساز کے ساتھ بھی لگاؤ تھا۔ وہ کتابوں کے صفحات پر بھی خطاطی کرتے تھے اور شکار کے میدان میں بھی ثانی نہیں رکھتے تھے۔ غرض زندگی کا کوئی ایسا رخ نہیں ہے جس میں انہوں نے طبع آزمائی نہیں کی ہو اور ادب کی کوئی ایسی شاخ نہیں ہے جس میں انہوں نے پشتو زبان کو دوسری زبانوں کے ساتھ ہم پلہ کھڑا نہیں کیا ہو بلکہ سچ تو یہ ہے کہ پشتو زبان پر خوشحال بابا کا جتنا احسان ہے اتنا کسی دوسرے شخص کا نہیں ہے۔
د گلونو پہ موسم کے خوار ہغہ دے
چی ئے نہ پیالہ پہ لاس نہ ئے نگار شتہ
فصلِ گل میں خوار و زار وہی شخص ہے
جس کے ہاتھ میں نہ جام ہے نہ اس کا کوئی نگار ہے
خوشحال خان خٹک ایک پٹھان جنگجو، شاعر اور خٹک قبیلے کے قبائلی سردار تھے۔ ابتداء میں وہ مغلوں کے ایک وفادار حامی تھے، اورنگزیب نے انہیں دھوکے سے قید کردیا اور اس کے بعد کی زندگی انہوں نے جلا وطنی میں گزاری۔ ان کی شاعری پٹھانوں سےاپنے اختلافات پسِ پشت ڈالنے اور مغلوں کے خلاف متحد ہونے کی درخواست کرتی تھی۔ آج وہ پشتو ادب کے بانی اور افغانستان کے قومی شاعر کہلائے جاتے ہیں۔
خوشحال خان اپنی شاعری کے لیے مشہور ہیں، لیکن انہوں نے مختلف موضوعات پر دیگر کتابیں بھی لکھیں، جن میں سفر نامے سے لیکر، جغرافیہ، دیسی ادویات، اسلامی قانون اور اپنی زندگی کے تجربات تک شامل ہیں۔ شاعری میں، انہوں نے پشتو اور فارسی شاعری کی مختلف شکلوں میں لکھا ( جیسا کہ غزلیں، قصیدے، اور مسدس) اور تقریباً 45,000 اشعار ترتیب دئیے۔ خوبصورتی، وقار اور انصاف کے لیے ان کی محبت کے ساتھ ساتھ مغلوں کے خلاف متحدہ پختون نقطہ نظر دیکھنے کی خواہش ان کے کچھ پسندیدہ موضوعات تھے۔
آپ کی شعری تخلیقات کو تین ادوار میں منقسم کیا جا سکتا ہے۔ ابتدائی شاعری روحانی تفکرات سے پر ہے۔ قیدی کی حیثیت سے لکھی گئی نظمیں حقیقی زندگی کے مختلف ادوار کی ترجمانی کرتی نظر آتی ہیں اور اس کے بعد کے دور کی نظمیں صوفیانہ انداز میں مذہبی جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں۔ آپ کی شاعری میں قبائلی روایات و انداز کے ساتھ ساتھ اخلاقی ، فطری اور انسانی حسن کی ترجمانی جا بجا نظر آتی ہے۔ روحانی تجربات اور آزادی پر مبنی موضوعات کو آپ نے اپنے پر قوت انداز میں اس طرح ادا کیا ہے کہ آپ کی شاعری عوام الناس میں بے پناہ مقبولیت حاصل کرتی نظر آتی ہے۔ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود آپ کے گیت آج بھی حجروں اور چوپالوں میں اپنی تانیں بکھیر رہے ہیں۔ پشتو جاننے والا ہر شخص اپنے سینے میں خوشحال خان خٹک کی شاعری کا کچھ نہ کچھ حصہ لازمی طور پر سنبھالے بیٹھا ہے۔
خوشحال خان کی شاعری میں عربی الفاظ و اصطلاحات محض قرآن کے مطالعہ سے ہی نہیں آئے بلکہ ان کا گہرا مطالعہ ،عربی کے ساتھ ساتھ فارسی زبان کی بے ساختہ شعری تعلیمات کو بھی آپ کی شاعری میں لے آیا۔ آپ کی شاعری میں زباندانی کے تجربوں کے ساتھ ساتھ سر اور لے میں ہم آہنگی بھی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ آپ نے عربی شاعری کی صنف بیت کو زیادہ تر اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ جو کہ نہ صرف پشتو زبان میں بلکہ لا تعداد دوسری زبانوں میں بھی بے پناہ مقبول ہے۔ اگرچہ جنگ وحرب آپ کا پیشہ تھا لیکن شاعری جیسے نازک جذبے کو آپ نے اپنے آپ سے الگ نہیں ہونے دیا۔
د منت دارو که مرم پکار می نه دی
که علاج لرہ می راشی مسیحا ھم
یعنی کہ اگر مجھے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑے
تو مجھے بھیک مانگنے سے موت عزیز ہوگی
اورنگزیب ہی کے زمانے میں شہنشاہ نے یوسف زئی قبائل کو زیادہ ترجیح دینی شروع کر دی اور خوشحال کو گرفتار کر کے جئے پور کے قلعہ میں سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔ قید و بند کی صعوبتوں کے بعد خوشحال خان خٹک کی تمام تر زندگی مغلوں کے خلاف مہمات میں بسر ہوئی اور انہوں نے پشتون قبائل کو متحد کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ ان کی اس دور کی نظمیں بادشاہی نظام کے خلاف اور قبائل کے اتحاد کے لئے جدوجہد پر مبنی مضامین پر مشتمل ہیں۔اسی دور کی نظموں میں پشتون تشخص کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاقیات، تصوف ، اقدار اور روایات پر مبنی ان کی شاعری آج تک زبان زدِ خاص وعام ہے۔ خوشحال خان خٹک نے جلا وطنی کے عالم میں۱۶۸۹ء میں وفات پائی اور اپنے پسندیدہ گاؤں سرائے ۱کوڑہ میں دفن کیے گئے۔
پشتو کے یہ عظیم شاعر 88 سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے ۔ اکوڑہ خٹک کے پہاڑی سلسلے کے دامن میں انہیں پیوند خاک کیاگیاجہاں ان کامقبرہ آج بھی موجود ہے ۔ خوش حال خان خٹک کی تصوف اور انسانی اقدار پر مبنی شاعری نے انہیں پختون قوم کا ایک ممتاز شاعر بنا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ تین سو سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود ان کی شاعری آج بھی نئی نسل کے لئے مشعل راہ ہے۔
د افغان پہ ننگ م وتڑلہ تورہ
ننگيالے د زمانے خوشحال خٹک يم
نن خوشحالہ! د زڑہ داد د عشرت ور کڑہ
دا سو ورزے غنیمت دی سو گلزار شتہ
آج اے خوشحالؔ دل سے داد عیش کر