یونانی جغرافیہ دانوں اور مورخین کے مطابق آریانہ قدیم افغانستان ، خراسان اور شمال مغربی ہند کے علاقوں پر مشتمل ایک وسیع ریاست تھی ۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی سرحدیں پھیلتی اور سکڑتی رہیں لیکن آریاوں کا مرکز یہی علاقے رہے ۔
حقیقت میں یہی آریاوں کی سرزمین تھی اور اسے آریانہ کہا جاتاتھا ۔ اس علاقے کا سب سے پہلا تذکرہ آریاوں کی مذہبی کتاب رگ وید میں ملتا ہے ۔ جس کے بھجنوں میں اس علاقے کے دریاوں ، دریائے کابل ، دریائے سوات اور دریائے گومل کا تذکرہ ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ آریا یہاں ہزاروں سال پہلے آباد تھے ۔ ہسٹوریکل سوسائٹی آف افغانستان کے مطابق آریا یہیں سے مشرق و مغرب میں پھیلے ۔ہسٹوریکل سوسائٹی آف افغانستان کے مطابق آریانہ کی تاریخ 3 ہزار قبل مسیح سے شروع ہو کر 997ء عیسوی تک جاتی ہے جب مملکت غزنویہ وجود میں آئی ۔
آریانہ ہی وہ خطہ ہے جہاں سے گندھارا تہذیب پروان چڑھی ۔اس علاقے میں جو آثار ملے ہیں انہیں گندھارا کی گورستانی تہذیب (Gundhra Grove Cltur) کا نام دیا گیا ۔ آریاوں کی قدیم کتب سے پتا چلتا ہے کہ گندھارا پر کوشالہ نامی حکمران کی حکومت تھی ۔ جس کے ایک بیٹے ٹکسا (Taksa) نے ٹکاشیلہ (Taksahshsila) شہر کی بنیاد رکھی ۔ یونانی مورخین نے اس کو ٹیکسلو Taksailo لکھا ۔ جو آج ٹیکسلہ کہلاتاہے ۔ دوسرے بیٹے پوشکلا (Poskda) نے پوشکلا وتی (Poshkalawati) شہر کی بنیاد رکھی ۔ جو آج کل چار سدہ کہلاتاہے۔ گوتم بدھ (480قم تا 400 قم)کے زمانہ میں ٹیکسلہ کی شہرت ایک علمی مرکز کی تھی ۔ جہاں دور دور سے لوگ علم حاصل کرنے آتے تھے ۔
جب سکندر یونانی نے فارس کو فتح کرنے کے بعد 329ق م میں آریانہ کو بھی فتح کر لیا تو آریانہ پر یونانیوں کی حکمرانی قائم ہو گئی ۔327 قم میں ٹیکسلہ کے راجہ امبھی نے بھی سکندر کی اطاعت قبول کرلی اور 326 قم میں سکندر کا مقابلہ راجہ پورس سے ہوا ۔
اسی دور میں یونان سے Eratosthenes اراٹوستھینس (276قم تا 196قم )یہاں آیا ۔ وہ ماہر علوم فلکیات ہونے کے علاوہ سکندر یونی کا چیف لائبریرین اور یونان کی جیوگرافکل فاونڈیشن کا صد ر بھی تھا ۔اس نے اس علاقے کو آریانہ ہی لکھا جہاں آج افغانستان موجود ہے ۔
آریانہ پر یونانیوں کی حکومت 275قم تک رہی ۔ اس کے بعد ہند کے موریا حکمران اشوک (304قم تا 232قم )نے آریانہ پر چڑھائی کرکے اسے موریہ سلطنت کا حصہ بنا لیا ۔ سکندر کے سپہ سالار سلوکس نے سکندر کے مفتوحہ علاقوں کو فتح کرنے کی دوبارہ کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوا ۔ تاہم اشوک کی موت کے بعد موریہ سلطنت بھی کمزور ہو گئی اور آریانہ پر ان کی حکومت 185قم میں ختم ہو گئی جب اسوبھاگ نے کابل ، غزنی ، پنجاب اور سندھ پر قبضہ کر لیا ۔ اسوبھاگ کے بعد اس کا بیٹاگج حکمران ہوا۔جس نے اپنے نام پر شہر گجنی بسایا ۔ جب عرب فاتحین اس علاقے میں آئے تو گجنی کا نام غزنی پڑ گیا ۔
گج کے بعد آریانہ پر انڈو گریکس قبائل نے 155 تا 90 ق م تک حکومت کی ۔ 90 قم سے 20ء تک انڈو ستھین قبائل نے حکومت کی اور اس کے بعد کشان دور کا آغاز ہوا ۔ کشانوں نے آریا نہ پر 450ء تک حکومت کی ۔
کشانہ دور کے آغاز میں یونانی جغرافیہ دان Strabo اسٹرابو (64قم تا 24 ء )نے آریانہ کی سرحدوں کی وضاحت بیان کرتے ہوئے لکھا کہ آریانہ کی سرحدیں دریائے سندھ سے لے کر بحیرہ خزر تک پھیلی ہوئی تھیں۔
Strabo کے مطابق آریانہ کے مشرق میں ہند ، شمال میں باختریا ، مغرب میں پرتھیا، جنوب مغرب میں کارمانیہ جبکہ جنوب میں جدروسیہ نام کی ریاستیں تھیں۔
کشانہ دور گندھارا تہذیب کا بھی سنہری دور تھا ۔ خاص طور پر کشان شہنشاہ کنشک (78ء تا 144ء ) کے عہد میں گندھارا تہذیب اپنے عروج پر پہنچی اور آریانہ تعلیم و تہذیب کا مرکز بن گیا ۔ جہاں دور دور سے تحصیل علم کے لیے لوگ آنے لگے ۔کنشک کے دور میں اس سلطنت کی سرحدیں ہندوستان سے لے کر وسطی ایشیا ء تک پھیل گئیں ۔
اسی دور میں آریانہ پر وائٹ ہن قبائل کی یلغار شروع ہوئی ۔ہنوں کے چار خاندانوں نے آریانہ کے مختلف حصوں پر حکومت کی ۔
1۔ کیدارا Kidarites
320ء سے 500ء تک
مرکز: باختریا ، پشاور ، ٹیکسلا
نامور بادشاہ : کیدارا ، ورہارن اور کندک
ایریا: ترکمانستان ، تاجکستان ، ازبکستان ، افغانستان ،شمالی پاکستان
2۔ والکسن Walxon (سرخ ہن)
380ء تا 560 ء
مرکز: کاپیسا بعد ازاں وسطی ہند
نامور بادشاہ : کھنگیلہ Khingila، تورمان (جس نے ہند پر حملہ کیا )، مہرکل Mihirakula (ہند آریانہ کا نامور بادشاہ)
ایریا : وسط ایشیا سے لے کر وسطی ہندوستان تک
3۔ نزاک ہن ۔ Nezak
484ء سے 665ء
مرکز: غزنہ ، کاپیسا
نامور بادشاہ : گھرالچی
ایریا:غزنہ ، کاپیسا
4۔ ہفتھالی Hephthalites (سفید ہن)
440ء تا 710ء
مرکز: قندوز اور بلخ
ایریا: افغانستان ، بلخ ، جنوبی مغربی چین ، سمرقند ، بخارا ، شمالی ہند
ہیون سانگ اور فاہیون کے سفر ناموں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہُنوں کے دور کے بعد کابل شاہی دور کی شروعات ہوتی ہیں.کابل شاہی دور کو کشتری شاہی، برھمن شاہی کے ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے. یہ کھٹانہ گجر تھے ۔ جس کی حکومت افغانستان ، سرحد اور پنجاب پر محمود غزنوی کے حملوں تک برقرار رہی آخری کابل شاہی حکمران انند پال اور جے پال کھٹانہ تھے جن کا مقابلہ 11ویں صدی کے آغاز میں محمود غزنوی سے ہوا ۔
18ویں صدی میں احمد شاہ درانی کے دور میں آریانہ کا نام افغانستان رکھا گیا ۔
بدقسمتی سے تاریخ کو اس قدر مسخ کیا گیا ہے کہ آج بعض لوگ ایران کو آریاوں کی سرزمین کہتے اور سمجھتے ہیں حالانکہ ایران لفظ Eran (ایرن ) سے لیا گیا ہے جس کا ذکر مجوسیوں کی مذہبی کتاب اوستا میں موجود ہے ۔ اوستا کے مطابق Eran Phej ایک شہزادہ تھا جس کو اس کے بھائیوں نے قتل کر دیا تھا ۔ اسی کے نام پر وسطی فارس میں ایرن Eran نام کا شہر آباد کیا گیا ۔ اسی سے منسوب کرکے 18 ویں صدی میں فارس کا نام ایران رکھا گیا ۔ حالانکہ اس سے قبل ہر دور میں اسے فارس ہی کہا گیا ہے ۔ یونانی ، عرب اور یہاں تک کہ ہندی مورخین نے بھی کبھی بھی فارس کو ایران نہیں لکھا ۔
بجائے اس کے آریاوں کی اصل سرزمین وہ تھی جسے آریانہ کہا جاتا تھا اور وہ وسط ایشیا ، افغانستان اور شمال مغربی ہند کے علاقے تھے ۔ یہیں سے آریا دیگر علاقوں میں پھیلے ۔ آریاوں کی قدیم کتب میں بھی اسی علاقے کے دریاوں ، شہروں اور آثار کا ذکر ہے ۔ قدیم یونانی مورخین اور جغرافیہ دان بھی اسی سرزمین کو آریانہ
لکھتے رہے اور حقیقت میں بھی یہ Gujjar دور تک ہمیشہ آریاوں کا مرکز رہا ۔ آج بھی ہمالیہ کی وادیوں، کشمیر ، سوات ، چترال اور اس سے ملحقہ افغان صوبہ نورستان اور دیگر افغان صوبوں میں آپ کو کئی خالص آریائی قبائل ملیں گے ۔