افغان ملکہ ثریا: جلا وطنی سے موت تک

صہیب مرغوب

افغانستان کی بدنصیب ملکہ ثریا (24نومبر1899ء تا20دسمبر 1968ء )جلاوطنی میں پیدا ہوئی ،جلا وطنی میں ہی منوں مٹی میں دفن ہو گئی،وہ اپنے وقت سے کہیں آگے تھی یہی وجہ ہے کہ انکی سوچ آج بھی زندہ ہے اپنے 10 سالہ دور سلطنت میں ملکہ ثریا افغان خواتین کیلئے جو کام کر گئیں اسے تادیر یاد رکھا جائے گا۔ ملکہ اپنے دور کی صاحب بصیرت خاتون تھیں لیکن و قت اور حالات نے انہیں افغانستان کیلئے بہت کچھ کرنے کی مہلت ہی نہ دی۔ملکہ ثریا کے والد بھی جلاوطن رہے اور شوہر نے بھی زندگی کے بھیانک دور دیکھے ۔

افغان ملکہ ثریا

ثریا طرزی کے نام سے جانی جانے والی ملکہ پشتون شاہی خاندان بارک زئی کی شاخ محمد زئی کی دری سے تعلق رکھتی تھیں، ان کی والدہ اسماء خانم الیپو کی معروف مسجد کے امام شیخ محمد صالح الفتل آفندی کی بیٹی تھیں۔بادشاہ امان خان کی اس ملکہ نے ملک شام کے مرکزی شہر دمشق میں جنم لیا جہاں ان کے والد سردار محمود بیگ اپنی اہلیہ اسماء ریشماء خانم کے ساتھ جلاوطن تھے ۔
دمشق ان دنوں خلافت عثمانیہ کا حصہ ہوا کرتاتھا،جہاں ثریانے اسلامی تعلیمات کے علاوہ جدید مغربی علوم میں بھی ملکہ حاصل کیا۔انہوں نے دوران جلا وطنی کئی یورپی ممالک کے دورے کئے، انہوں نے نظام تعلیم اور دیگر ڈھانچوں کو سٹڈی کرنے میں کافی وقت صرف کیا۔
امان اللہ خان کے والد حبیب اللہ خان اکتوبر1901ء میں تخت نشین ہوئے۔ان دنوں بے شمار افغان مختلف ممالک میں جلاوطن تھے بادشاہ کی اولین کوشش تمام جلاوطن افغان باشندوں کی ملک واپسی تھی۔بادشاہ کی اجازت ملنے پر طرزی خاندان نے اکتوبر1901ء میں افغانستان واپسی کی راہ لی۔افغان خواتین کی بہبود کا کام کرتے وقت ثریا کا دربار شاہی میں آنا جانا رہتا تھا۔لیکن پہل شاہی خاندان کی جانب سے ہوئی۔ بادشاہ امیر حبیب اللہ خان نے ثریا کو اپنے محل میں آنے کی دعوت دی تھی،یہ دعوت ایسی پکی تھی کہ پھر وہ محل کی ہی ہو کر رہ گئیں۔ شہزادے امان اللہ خان سے گاہے بگاہے ہونے والی ملاقاتیں بالآخر 30اگست 1913ء کو شادی کے مضبوط رشتے میں بدل گئیں۔یہ شاہی شادی بڑی دھوم دھام سے کابل کے قیام باغ محل میں انجام پائی۔شوہر امان اللہ خان 20فروری 1919ء کو امیر اور 1926ء میں بادشاہ کے جلیل القدر منصب پر فائز ہوئے۔ملکہ نے شاہی محل میں قیدی جیسی زندگی کو خیر باد کہتے ہوئے ترقی کے ہر کام میں اپنے شوہر کے قدم سے قدم ملانے کو ترجیح دی۔امان اللہ خان نے ہر بڑے کام میں انہیں ہمیشہ اپنے ساتھ پایا ۔
متحرک ملکہ ثریا نے افغانستان کی برسوں پرانی روایات کو بدلتے ہوے شاہی خاندان سے باہر امور سر انجام دینا شروع کر دیئے ،افغا ن شاہی محل سے باہر قدم نکالنے اور کام کرنے والی وہ واحد مسلم ملکہ تھی۔ یہ وہ دو رتھا جب کسی بھی اسلامی ملک میں کوئی ایک ملکہ بھی اپنے شوہر بادشاہ کے ساتھ کسی تقریب میں کبھی دیکھی گئی نہ سنی گئی!۔ مگر ثریاہر تقریب میں اپنے شوہر کے ہمراہ شانہ بشانہ کھڑی ہوتیں۔حتیٰ کہ شکار میں بھی اور گھڑ سواری کے وقت بھی بادشاہ انہیں اپنے ساتھ پاتے۔کابینہ کے اجلاس ملکہ کے بغیر ادھورے تھے۔مردانہ وار کام ان کی سرشت میں شامل تھے اسی لئے عزیز واقارب اور بعض وزراء بھی انہیں پیار سے” ثریا شہزادہ خانم‘‘ بھی کہتے تھے۔
بادشاہ کتنے فخر سے اپنی رعایا سے مخاطب ہوا کرتے تھے۔۔ ‘‘آپ کا بادشاہ میں ہوں لیکن شاہی وزیر تعلیم کا قلم دان میری بیوی ، اور آپ کی ملکہ ثریا کے قابو میں ہے‘‘۔
امان اللہ خان نے مغرب کی تقلید میں ملک کو نیا آئین دیا،خواتین کیلئے بھی مردوں کے مساوی حقو ق متعین کئے۔ لیکن بیوی کی تقلید میں ذرا آگے چلے گئے۔ انہوں نے اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے عورت کو جو حقوق مل سکتے ہیں ،کوئی ادارہ ان سے انکار نہ کرے۔ بادشاہ دراصل محمود طرزی کے افکار سے بھی متاثر تھے ۔محمو د طرزی کہا کرتے تھے کہ قرآن پاک نے 4 شادیوں کا حکم دیاہے لیکن سخت شرائط پر عمل کرنے کے بعد۔ محمود طرزی نے خود بھی ایک شادی کی تھی، انہوں نے دوسری شادی کیلئے قرآن پاک کی ہدایات پر عمل کرنے کا حکم دیدیا۔ ملک بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کا بندوبست کیا گیا لیکن پردے اور احترام کے ساتھ۔ ملکہ کے حکم سے کابل میں عالی شان گرلز سکول قائم کیا گیا ،یہ کابل میں پہلا زنانہ سکول تھا۔ 1928ء میں انہوں نے متعدد لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم کی غرض سے بیرون ملک بھیجا۔ انہوں نے ”ارشاد نسواں‘‘ کے عنوان سے خواتین کیلئے جریدے کاآغاز کیا۔ملکہ کے کام کے پیش نظر بادشاہ کو ایک تقریب میں کہنا پڑا” اسلام خواتین کی عزت کیلئے مردوں کو بھی نظریں نیچی کرنے کا حکم دیتا ہے‘‘۔چنانچہ ملکہ نے پورے دور میں سر چھپانے کے لئے بڑی سی مخصوص ٹوپی اور کپڑے کا استعمال شروع کر دیا۔

افغان ملکہ ثریا

3مئی 1919ء کو امان اللہ خان نے برٹش انڈیا پر حملہ کر دیا، لیکن افغانستان کی آزادی حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔برطانیہ نے جنگ مسلط کرنے اور نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کا مطالبہ کرنے پر امان اللہ خان کو سبق چکھانے کا فیصلہ کیا،متعدد دستاویزات میں افغانستان کے داخلی امور میں برطانوی مداخلت کے شواہد ملے ہیں ۔ امان اللہ خان سابق سوویت یونین کے قریب تھے ۔مئی 1921ء میں انہوں نے سابق سوویت ہونین کے ساتھ دوستی کے معاہد ے پر بھی دستخط کر دیئے تھے۔برطانیہ کو روسی حملے کا بھی خدشہ تھالیکن اس وقت برطانیہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔بادشاہ برطانیہ سے اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب رہے۔1927-28ء میں سابق ملکہ ثریا اپنے شوہر کے ساتھ یورپ کے دورے پر تھیں، تعلیمی ترقی میں ملکہ کے کام کو دیکھتے ہوئے یونیورسٹی آف آکسفورڈ نے انہیں اعزازی ڈگری سے نوازا۔جریدہ ”ٹائم‘‘ کی ”وویمن آف دی ایئر‘‘ بھی وہی تھیں۔ ملکہ کی پرفارمنس کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا عین حقیقت کے مطابق ہو گا کہ وہ محض ”فل ان دی بلینکس نہ تھیں‘‘ بلکہ ان کے بغیر پالیسی سازی کا عمل بھی نامکمل رہتا تھا، ہر بڑا تعلیمی فیصلہ ملکہ کی توجہ اور رضامندی کا محتاج تھا۔ملکہ کی تحریک نے مخالفین میں بھی بیداری کی لہر پیدا کر دی۔ 14نومبر 1928ء کو ملک میں خانہ جنگی شروع ہو گئی جوتھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی ،لاتعداد جانیں ضائع گئیں چنانچہ 13اکتوبر 1929ء کو امان اللہ خان ملک گیر ہنگاموں سے بچنے کیلئے تخت و تاج چھوڑ کر اپنی ملکہ کے ساتھ انڈیا چلے گئے۔شاہی خاندان کی جلا وطنی سے خانہ جنگی ختم ہو گئی ۔انڈیا میں تھوڑا عرصہ قیام کے بعد اگلی منزل دمشق تھی، دمشق سے اطالوی حکومت کی دعوت پر انہوں نے 17جنوری کوروم میں مستقل سکونت اختیار کر لی،وہیں 68برس کی عمر میں 20 اپریل 1968ء کو آخری ہچکی لی اور خالق حقیقی سے جا ملیں۔ ملکہ اور انکا شوہردونوں جلال آباد کے شاہی قبرستان میں خاک ہوئے ان کی سب سے چھوٹی بیٹی ”Princess India of Afghanistan‘‘ کے لقب سے مشہور ہیں ۔ وہ افغان حکومت کی جانب سے یورپ میں اعزازی ثقافتی مشیر ہیں اورانہوں نے افغانستان میں سماجی ترقی کے کئی منصوبے شروع کر رکھے ہیں۔

 

ملکہ ثریا
نظريات (0)
نظر اضافه کول