ایمل خان مومند۔پختونوں کا ایک بہادر”مشر”

شمس مومند

ایمل خان مومند کو پختونوں کی تاریخ میں قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہے وہ خوشحال خان خٹک کے ہمراز اور قابل اعتماد ساتھیوں میں سے تھے ایمل خان مومند اور مغل افواج کے درمیان چھوٹے موٹے حملوں کے علاوہ پانچ باقاعدہ جنگیں لڑی گئیں مومند یا مہمند قوم کی تاریخ میں وہ واحد شخصیت جو اپنے علاقے بلکہ پورے خطے کا بادشاہ(باچا) بن گئے تھے اور مومند، خیبر اور قرب و جوار میں ایمل شاہ کے نام سے ان کا باقاعدہ سکہ چلتا تھا۔ تاریخ میں ایمل خان مومند کے نام سے مشہور ہے۔ اگرچہ بوجوہ ان کا صحیح تاریخ پیدائش تو معلوم نہیں ہے لیکن ان پر تحقیق کرنے والے محققین نے ان کے کارناموں خصوصا مغل حکمران اورنگزیب عالمگیر کیساتھ پانچ سے زیادہ مقابلوں اورافغانستان کے علاقہ لغمان کے کمانڈر آغر خان کیساتھ لڑائی اور خوشحال خان خٹک کے ان کی تعریف میں لکھے گئے اشعار سے جو اندازہ لگایا ہے اس کے مطابق ان کی پیدائش کا سال1032 یا1033 ھجری یعنی 1622ـ23 عیسوی ہو سکتی ہے۔ ایمل خان مومند کو افغانستان کی تاریخ میں قومی ہیرو کی حیثیت حاصل ہے کیونکہ انہوں نے اپنے زور بازو اور بھادری کی بدولت کئی سال تک مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کے حملوں کا مقابلہ کیا۔ محققین کا کہنا ہے کہ ایمل خان مومند اور مغل افواج کے درمیان چھوٹے موٹے حملوں کے علاوہ پانچ باقاعدہ جنگیں لڑی گئیں۔ جس میں دو نوں اطراف سے ایک لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ مومند سرزمین کے علاقہ ہزار ناو میں رہائش پزیر اور مہمند کی شاخ کوکوزی سے تعلق رکھنے والے ایمل خان مومند کے سر پرسرداری کی پگڑی(لونگی، شملہ) مہمند قوم کے روحانی بزرگ میاں جان محمد صاحب نے باندھی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وادی پشاور اور اسکے مضافات میں عظیم پشتون رہنماء خوشحال خان خٹک مغل افواج سے برسر پیکار تھے۔ اسی دور میں جب بھی مغل افواج نے دریائے کابل کے کنارے مومند یا خیبر کے راستے افغانستان پر چڑھائی کی کوشش کی۔ ایمل خان مومند نے اپنے محدود جانبازوں کیساتھ ہمیشہ کامیابی کیساتھ ان کا راستہ روکا۔ اور اپنے وطن کی آزادی کا پرچم سرنگوں نہیں ہونے دیا۔ اس بہادری اور جانبازی کی سزا دینے کے لئے ایک مرتبہ مغل افواج نے اپر مومند کے علاقہ ہزار ناو میں واقع ان کے گھر پر حملہ کر کے اسے نذر آتش کر دیا۔ اس حملے اور گھر کی آتشزدگی کا ذکر بھی عظیم خوشحال خان خٹک کے اشعار میں ملتا ہے۔جس کا لب لباب یہ ہے کہ (ایمل خان کے گھر کو جلا یا گیا، جس سے ایسا لگا کہ گھر کے تمام خان جل گئے۔ اگر میں زندہ رہا تو میں یہ نعرہ لگاتا رہوں گا۔ کہ اگر آپ لوگ متحد نہ ہوئے تو یکے بعد دیگرے یہ آگ پورے افغان قوم تک پہنچ جائے گی)۔ کہا جاتا ہے کہ جب اورنگزیب عالمگیر نے کشمیر میں رہائش پزیر نیازی پشتون قبیلے کے خلاف 1073 ھجری میں سختیاں شروع کی۔

ایمل خان مومن

ان کو تنگ کرنا شروع کیا تو اسی سال ایمل خان مومند نے مغل حکمرانوں کے خلاف اپنی جدوجہد شروع کردی۔ 1073 ھجری کے بعد ایمل خان مومند اور مغل افواج کے درمیان کئی معرکے ہوئے۔ تنگ آکر جب مغل افواج نے ہزار ناو میں واقع آپ کے گھر کو نذر آتش کیا۔تومومند قوم نے1079 ھجری میں ایمل خان مومند کو اپنا باقاعدہ سردار چن لیا۔ ایمل خان مومند نے مومند سرزمین کے مختلف علاقوں کے علاوہ درہ خیبر میں لواڑگی اور علی مسجد کے ساتھ ساتھ پشاور کے مضافات میں بھی مغل افواج سے جنگیں لڑی ہیں۔ انھوں نے کچھ عرصہ درہ آدم خیل کے علاقے میں بھی قیام کیا۔ اس جگہ کو ایمل چبوترہ کہا جاتا ہے۔ یہاں میں اپنی کتاب مطبوعہ ٢٠٠٥ ء مہمند قبائل (کل اور آج) سے صرف دو تین واقعات کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں۔اورنگزیب عالمگیر کی فوج سے بے عزتی کا بدلہ: اس حقیقی واقعے کے متعلق تفصیلات ایک لمبی داستان بن جائیگی۔ واقعات کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ محمد امین خان شہنشاہ اورنگزیب کا گورنر تھا۔ انہوں نے حسن بیگ کو کونڑکا حاکم مقرر کیا تھا۔ حسن بیگ کے سپاہیوں نے کونڑ میں ایک صافی خاتون کی بے عزتی کی۔ یہاں پر مقیم صافی قبیلہ نے انتقا ما ان تینوں سپاہیوں کو قتل کردیا۔ حسن بیگ نے صافی قبیلہ کو مجرموں کو حوالہ کرنے کا حکم دیا جس سے صافی قبیلہ کے انکار پر دیگر مراعات یافتہ ملکان اور قبیلوں کو صافی کے خلاف کاروائی پر مجبور کیا۔ لیکن ان ملکان اور قبیلوں نے درپردہ صافیوں کو شاباش دی۔ اور بظاہر ان سے شکست کھا کر واپس چلے گئے۔ اس واقعہ نے تمام قبائل میں غصہ کی آگ بھڑکا دی۔ صافی کی سرکشی کی اطلاع گورنر محمد امین کو دی گئی۔ وہ راستے میں صافیوں کو سبق سکھانے کے غرض سے کابل کے سالانہ دورے پر وقت سے پہلے روانہ ہوگئے۔ صافی اور مہمند نے شاہی فوج کا راستہ روک کر ان سے خاتون کی بے عزتی کا بدلہ لینے کیلئے اتحاد کیا۔ آفریدی اور شنواری قبائل کی حمایت بھی حاصل کی۔ ان سب نے ملکر درہ خیبر کے لنڈی کوتل میں مورچے بنالیے اور سڑک پر رکاوٹیں کھڑی کردیں۔ گورنر امین خان ١٦٧٢ئ کے موسم بہار میں کابل کے اس سفر پر روانہ ہوئے۔ انہوں نے پشاوری مہمندوں کے چند ارباب، چند اورکزئی سردار اور خوشحال خان خٹک کو بھی ہمراہ لیا۔ گورنر کو راستہ روکنے کی اطلاع ملی تھی۔ انھوں نے مہمندوں کے پاس مشران کا جرگہ بھیجا۔ کہ شاہی فوج کو راستہ دیا جائے۔ لیکن مہمندوں اور صافی نے اس مطالبے کو مسترد کردیا۔ جس پر گورنر محمد امین نے بھرپور حملے کا حکم دیا۔ شاہی فوج کے خلاف اس حملے میں قبائلی لشکر کی راہنمائی ایمل خان مومند اور دریا خان آفریدی کررہے تھے۔ ان دونوں کی تعریف میں لکھے گئے خوشحال خان خٹک اور عبدالقادر خان خٹک کے اشعار اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ میں جنگ کی تفصیلات بیان کرنا نہیں چاہتا۔ لیکن واقعات میں کہا جاتا ہے کہ محمد امین نے تاترہ پہاڑ کے دامن میں ندی کے راستے فوج بچا کر لے جانے کی کوشش کی۔ لیکن اسے وہاں بھی تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ کہا جاتا ہے کہ اس جنگ میں صرف امین بذات خود اور چار دیگر افراد زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ گورنر کی بیوی بچوں سمیت، بعض افسران کی بیویاں، تمام فوجی سازوسامان، اسلحہ، ہاتھی اور خزانہ قبائل کے قبضے میں آیا۔ بعد میں فدیہ دیکر بعض خواتین کو رہا کرا لیا گیا۔ لیکن محمد امین کی بیوی نے غیرت کی وجہ سے واپس جانے سے انکار کردیا۔ اور تارک الدنیا ہوگئی۔ خوشحال خان خٹک کی زبانی قبائل کا دعوی ہے کہ اس لڑائی میں مغل فوج کے تقریبا چالیس ہزار افراد ہلاک کیے گئے۔ مہمند اور صافی کے اتحاد اور آفریدی و شنواریوں کی بھرپور حمایت نے اورنگزیب کی فوج کو وہ نقصان پہنچایا جس کی تلافی وہ عمر بھر نہ کرسکے۔ گندہاب اور خاپخ میں مغل فوج کو شکست: درہ خیبر میں تباہی اور بدترین شکست کے بعد اورنگزیب نے محمد امین کو برطرف کرکے مہابت خان (بانی مسجد مہابت خان پشاور) کو دوبارہ گورنر مقرر کردیا۔

جمرود قلعہ پشاور ..1880.

انھوں نے1673 اور1676 میں دو مرتبہ خیبر کے بجائے مہمندوں کے راستے (کڑپہ اور خاپخ) سے گزر کر افغانستان جانے کی کوشش کی۔ لیکن خیبر کی فتح سے مہمندوں کا مورال بہت بلند ہوچکا تھا۔ اور انہیں ایمل خان مومند جیسے تلوار کے دھنی اور مخلص رہنما کی راہنمائی نصیب تھی۔ یہی وجہ تھی کہ دونوں مرتبہ کڑپہ، گندھاب اور خاپخ میں مغل فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اور مہمندوں نے اپنی آزادی اور خودمختاری پر آنچ نہیں آنے دی۔ کہا جاتا ہے کہ میدان جنگ میں شکست نہ دے سکنے کے بعد دشمن نے ایمل خان کو راستے سے ہٹانے کے لئے دوسرا حربہ آزمایا۔ اور ان کے کسی قریبی غدار رشتہ دار کو لالچ دیکر اس بات پر آمادہ کرلیا۔ کہ وہ ان کا کام تمام کرے گا۔ اور اس طرح اس مرد میدان کو اپنے ہی علاقے میں زہر دے کر قتل کردیا گیا۔ ایمل خان مومند کے مزار اور آثار کے حوالے سے مومند قوم کے معروف مورخ ادیب اور قومی مشر میرا جان سیال اپنی کتاب (ایمل خان) میں لکھتے ہیں۔

( ایمل خان کا آخری رہائش تو ہزار نو (امان کوٹ) میں تھا مگر اس سے پہلے جس طرح کہ بیان کیا گیا ہے وہ چکنور میں بھی رہائش پزیر رہے ہیں گاوں چکنور کا ایک حصہ کوکوزئی قوم کا ہے جس کے آثار اب بھی موجودہیں اور وفات کے بعد بھی ایمل خان چکنور میں مدفون ہے۔جس کا مقبرہ وہاں موجود ہے) یاد رہے کہ چکنور اور ہزار نو، ایک دوسرے سے دور دراز علاقے نہیں ہے بلکہ یہ ایک ہی علاقے میں دریائے کابل کے دونوں طرف واقع دو دیہات کے نام ہیں۔اور یہاں پر مومند قوم ہی آباد ہے۔ مضمون کا اختتام خوشحال خان خٹک کے ان اشعار پر کرنا چاہتا ہوں۔ فرماتے ہیں۔

شپگم جنگ مکرم خان شمشیر خان دواڑہ

چہ ایمل کڑہ پہ خاپخ کے تارپہ تار

بیالہ پسہ جسونت سنگھ شجاعت دواڑہ

چہ ایمل ئی پہ گنداؤ اوویست دومار

دریا خان مے د کچئی گوتے غمے دے

ایمل خان مے د پگڑئی شملکے دے

آفریدو شینوارو زڑہ پہ ولجہ خہ کڑو

ایمل خان مومند پہ ننگ پہ ولجہ دواڑہ

نظريات (0)
نظر اضافه کول