[مارچ 1929تا اکتوبر1929]
تعارف:
بچہ سقہ کا اصل نام جبیب اللہ تھا اسکے باپ کانام کریم اللہ جبکہ دادا کانام عظیم اللہ تھا. بجہ سقہ افغانستان کے علاقہ کلکان کا رہائیشی اور نسلی اعتبار سے تاجک تھا، اس وجہ سے تاریخ میں اسے حبیب اللہ کلکانی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے. اسکاباپ بکریاں چرایاں کرتاتھا مگر جب اس کام سے گزر اوقات نہ ہوسکا تو اس نے “سقہ” کا پیشہ اختیار کیا اور پانی ندی نالوں اور آبادی کے قریب کنووں سے بھر کر مشکیزوں میں گھر گھر پہنچایا کرتاتھا اس وجہ سے حبیب اللہ تاریخ میں “بچہ سقہ” یعنی (پانی لانے والے کا بیٹا) کے نام سے بھی جاناجاتا ہے.
بچہ_سقہ_کا_بچپن: بچہ سقہ کے باپ نے اسے پڑھانے کی بہت کوشش کی مگر بچہ سقہ طبعی طور پر اوارگی کو پسند کرتاتھا اور بالکل بھی پڑھائی میں دل نہ لگاتا اور اکثر سکول سے غائب رھتا، اھستہ آھستہ وہ بدمعاش اور اوباش لڑکوں اور لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے لگا جسکی وجہ سے اس میں چوری اور قماربازی کی بری عادتیں پختہ ہونے لگی.
#بچہ_سقہ_کا_دورجوانی: 1926 کے اوائل میں وہ کابل آیا اور شاہی فوج میں بھرتی ہوا، اور ایک عام سپاھی کی حثیت سے کام کرتا رہا ایک دفعہ وہ دس یوم کی رخصتی لیکر گھر جانے کی نیت سے روانہ ہوا تو اپنے ساتھ سرکاری بندوق بھی خفیہ اور غیرقانونی طور پر لے گیا، جب وہ کابل سے آگے احمدکوتل کے مقام پر پہنچا تو اسکا سامنا چند چوروں سے ہوا مقابلہ کرکے ایک چور کو قتل کردیا اسی قتل کو استعمال کرکے خود کو مشہور و مقبول بنانے کی سب سے پہلی کوشش کی مگر رخصتی کی مدت ختم ہونے پر جب وہ واپس کابل آیا تو سرکاری بندوق کو غیرقانونی طور پر اپنے پاس رکھنے اور قتل کے الزام میں مقدمہ کا سامنا کیا اور پانچ ماہ قید کی سزا کاٹی. رہائی کے بعد وہ فوج سے بھاگ کر پشاور آیا اور صدیق نامی ایک چپل فروش کی دکان پر ملازمت اختیار کرلی.
#بچہ_سقہ_ایک_باغی: 1927ء میں اس نے ملازمت چھوڑ کر چاۓ کی دکان کھولی انہی دنوں پشاور پولیس کو افغان حکومت کی طرف سے بچہ سقہ کی وارنٹ گرفتاری بہ وجہ فوج سے بلا عذر بھاگ جانے کی موصول ہوئی لہذا وہ پولیس میں ایک واقف کی اطلاع پر پشاور سے فرار ہوکر خفیہ طور پر افغانستان میں داخل ہوا اور وہاں پہنچ کر ڈاکہ زنی کا پیشہ اختیار کر بیٹھا. آھستہ آھستہ اسکے گرد بدمعاشوں چوروں لٹیروں قماربازوں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کا ایک گروپ جمع ہوا اور یہی وہ دن تھے جب افغانستان کے بادشاہ آمان اللہ خان غازی کے خلاف ایک انگریز کرنل لارنس اور ملا شوربازار (فضل محمود مجددی) اور اسکے حواری دیہی علاقوں کے ملا حکومت برطانیہ کی مدد سے سخت پروبیگنڈہ مہم چلارہےتھے، دوسری طرف بچہ سقہ اپنے کرتوتوں کی وجہ افغان سیاست اور حکومت پر اثرانداز ہورہاتھا لہذا انگریزوں کی خفیہ ایجنسیوں نے افغانستان میں حالات مزید خراب کرنے کے واسطےبچہ سقہ اور اسکے لٹیروں سے سازباز شروع کرتے ہوۓ انہیں اسلحہ اورفنڈنگ دینی شروع کردی اسطرح بچہ سقہ اس قابل بنا کہ اسنے مختلف علاقوں میں سرکاری املاک اور اہلکاروں پرحملے شروع کردئیے حکومتی ملازمین کو زبردستی کام پر جانے سے روکا حتی کہ شمال اور شمال مشرق کی چند اضلاع پر قابض ہوگیا.
۵: #بچہ_سقہ_بطور_امیر_المومنی
#بچہ_سقہ_کا_زوال: بچہ سقہ کو انگریزوں نے محض آمان اللہ خان کی حکومت ختم کرانے؛ افغانستان کی سیاست، معاشرت اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے آمان اللہ خان کی سوچ و فکر کے خاتمے اور اس سوچ پر پروان چڑھے مختلف شعبوں میں سرگرم افراد کو ملک بدر یا قتل کر دینے کے لیے استعمال کیا تھا تاکہ افغانستان واپس برٹش انڈیا کے زیر اثر آۓ جسکو آمان اللہ خان نے 1919میں انگریزوں کیساتھ خونریز جنگ میں آزادی دلائی تھی. انگریز خوب جانتے تھے کہ بچہ سقہ کاتعلق نہ تو شاہی خاندان سے ہے نہ پشتون اکثریتی آبادی سے ہے اور نا ہی بچہ سقہ اور اسکے لٹیرے گروپ میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ حکومتی امور چلا سکیں لہذا بچہ سقہ کی حکومت ہرگز دیرپا ثابت نہیں ہوسکتی جبکہ انگریزوں کو افغانستان میں ایک ماتحت مگر مضبوط حکومت چاہیے تھی تاکہ وہ برٹش انڈیا اور سوویت روس کے درمیان ایک مضبوط دیوار کاکام دے سکیں لہذا ظاہر ہے کہ بچہ سقہ جیسا نااہل انسان اس دوڑ کا گھوڑا تھا ہی نہیں محض انگریز اسکو استعمال کرانا چاہتے تھے اور اب وہ استعمال ہوچکا تھا.
آمانی ریاست و ذھنیت کا افغانستان سے یکسر خاتمہ ہوچکا تھا افغان عوام کو سقوی ڈاکووں کے ذریعے خوب خوب ذد و کوب کروایا گیا اب تمام عوام ملک کے اندر امن و امان اور شہری وقار اور حقوق کے قیام کا طلبگار تھی. ایک ایسی فضا بنائی گئی تھی کہ مجب الوطن اور انگریز مخالف طبقہ بھی آہ و بکا میں مبتلا تھا کہ افغانستان کی خارجہ پالیسی چاہے جسطرح بھی ہو انگریز ماتحت ہی بے شک ہو مگر داخلی طور پر سقوی ڈاکووں سے نجات حاصل کرنا ضروری ھے گویا انگریزوں نے افغانستان کے تعلیم یافتہ اور حکمران و مراعات یافتہ طبقہ کو ایک قسم کا پیغام دیا کہ جب تک خارجہ پالیسی ہمارے ماتحتی میں نہ دو گے بچہ سقہ کے لٹیرے اندرونی طور پر ملک کو نوچتے رہینگے. آخرکار افغان عوام کی جان و مال اور عزت کی حفاظت کی خاطر افغانستان کے تعلیم یافتہ طبقے نے انگریزوں کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے انگریزوں کیساتھ انگریزی شرائط پر مزاکرات کرنے کا فیصلہ کرلیا. یہ رابطے جنرل نادر خان فاتح ٹھل اور تیسری افغان برطانیہ جنگ ۱۹۱۹ میں افغان فوج کے سپہ سالار نے فرانس میں جہاں وہ پہلے سفارتکاری کے واسطے مقیم تھے شروع کیے، اسکے بعد نادر خان اپنے دو بھائیوں ہاشم خان اور شاہ ولی سمیت انگریزوں کی دعوت پر ہندوستان آئے جہاں اس شرط پر کہ آئندہ افغان خارجہ پالیسی انگریز ماتحت ہوگی انگریزوں نے نادرشاہ کو اسلحہ اور فنڈنگ دیکر بچہ سقہ کے خلاف روانہ کردیا اور ساتھ ہی وزیرستان کے محسود اور وزیر قبایل میں یہ مشہور کرایا گیا کہ جنرل نادر امان اللہ خان کی حکومت دوبارہ بحال کرینگے لہذا یہ دو قبایل جو آمان اللہ حان کے دوست اور سخت حامی قبایل تھے ان قبایل نے بہت سارے جنگی رضاکار جنرل نادر کو پیش کیے اور جنرل نادر انگریزوں کا اسلحہ و پیسہ لیکر اپنے ہی ملک پر حملہ اور ہوا انگریز نے ایک ایسی چال چلی جسکے تحت ہر افغان مجبور تھا کہ یا تو خود مرے یا دوسرے بھائی کو مارے نیز کل کا مجاہد اور امیر المومنین جناب بچہ سقہ صاحب آج انگریز کی نظر میں دہشتگرد تھا کل بچہ سقہ کے ہاتھ میں انگریزی اسلحہ تھا اور انگریزوں کی مفادات کے لیے اسلام کے نام پر لڑ رہا تھا جبکہ آج اس سے کئی جدید اسلحہ جنرل نادر کو اس لیے دیا گيا تھا کہ وہ بچہ سقہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دے. افغان ، افغان کو قتل کر رہا تھا اور انگریز تماش بین بنا تها. الغرض جنرل نادر خان نے اکتوبر 1929 میں کابل فتح کرلیا بچہ سقہ صرف چند ماہ کی حکومت کرنے کے بعد اس جنگ میں گرفتار ہوا اور اسکا سرقلم کرکے جنرل نادر خان نے اپنی حکومت کا اعلان کردیا.