جب شیر شاہ سوری نے کلمہ طیبہ والا روپے کا سکہ متعارف کروایا

سنہ 1540 میں فرید خان المعروف شیر شاہ سوری نے مغلیہ سلطنت کے دوسرے حکمران نصیر الدین محمد ہمایوں کو شکست دے کر دلی کے تخت پر براجمان ہوتے ہی ہندوستان کو تعمیر و ترقی کے ایک سنہرے دور میں داخل کر دیا، نیز ملک میں زرعی، مالی اور انتظامی اصلاحات نافذ کرنا شروع کر دیں۔

حکومتی امور چلانے کے دوران شیر شاہ سوری کو علم ہوا کہ ملک کی کرنسی کا موجودہ نظام خامیوں کا شکار ہے جس کی وجہ سے تجارت اور لین دین میں مشکلیں آ رہی ہیں تو انہوں نے متعلقین کو ایک ہیئت بتا کر نئے سکے ڈھالنے کا حکم دیا۔

سنہ 1542 میں جب 11.4 گرام (ایک تولہ) وزنی چاندی کا ایک سکہ شیر شاہ کو مشاہدہ کے لیے پیش کیا گیا تو انہوں نے اس کے دونوں رخ بغور دیکھنے کے بعد کہہ ڈالا ’یہ روپیہ ہے۔‘ روپیہ ویسے تو سنسکرت لفظ ہے جس کا مطلب ہے خام چاندی۔ تاہم ہندوستان میں کوئی یکساں سکہ موجود نہیں تھا جو ہر جگہ استعمال ہوتا ہو۔

شیر شاہ سوری نے اس قدیم لفظ کا دوبارہ احیا کر کے چاندی کے سکے کو 479 سال قبل ایک ایسا نام دیا جو آج بھارت، پاکستان، سری لنکا، نیپال، انڈونیشیا، مالدیپ، ماریشس اور سیشلز میں کرنسی کا نام ہے۔

شیر شاہ سوری کے حکم پر ہندوستان کے مختلف صوبوں میں بڑے پیمانے پر ’روپیہ‘ کے علاوہ سونے اور تانبے کے بالترتیب ’مہر‘ اور ’پیسہ‘ نام کے سکے ڈھالے گئے جن کی بدولت تجارت اور لین دین میں آسانی پیدا ہوئی اور معیشت کو ایک نیا رخ مل گیا۔

کرنسی کا معیاری نظام متعارف کرنے کے ساتھ ہی شیر شاہ سوری نے مخلوط دھات سے بنے ہوئے ٹکے کے سکوں کو کالعدم قرار دیا۔ ٹکے کے ان سکوں کو غالباً دلی کے سلطان محمد بن تغلق نے سنہ 1329 میں متعارف کروایا تھا۔

بھارتی معاشی مورخ سشی شیو رام کرشنا اپنے ایک مضمون بعنوان ’ٹیلز آف دا روپی‘ میں لکھتے ہیں: ’روپیہ کو سنہ 1542 میں نسلاً پشتون سلطان شیر شاہ سوری نے معیاری رقم کے طور پر متعارف کروایا۔ اس روپیہ کا ایک مخصوص مقداری معنی تھا، یہ چاندی کا ایک ایسا سکہ تھا جس کا وزن 11 اعشاریہ 4 گرام تھا۔

روپیہ کے سکے کی مالیت اس کے وزن اور خالص پن کے مطابق مقرر کی گئی تھی۔‘

شیر شاہ سوری کے متعارف کردہ روپیہ کے سکوں کو مغلیہ سلطنت اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے معمولی تبدیلی کے ساتھ جاری رکھا اور یہ سکے بھارت اور پاکستان سمیت آٹھ ممالک کی کرنسی کی بنیاد کا سبب بنے ہیں۔

دوست محمد خان اپنے ایک بلاگ بعنوان ’سکوں کی کہانی اور ہمارے محاورے‘ میں لکھتے ہیں: ’آج کل ایک روپیے کا جو سکہ چلن میں ہے، وہ کئی مرحلوں سے گزر کر اس مقام تک پہنچا ہے۔ روپیے کا سکہ سب سے پہلے شیر شاہ سوری نے اپنے دور حکومت میں 1540 اور 1545 کے بیچ جاری کیا۔ چاندی کے اس سکے کا وزن تقریباً ساڑھے 11 گرام تھا۔

’اس کے علاوہ شیر شاہ سوری نے سونے کے سکے بھی جاری کیے جنہیں ’مہر‘ کہتے تھے اور تانبے کے سکے بھی چلائے جنہیں ’پیسہ‘ کہا جاتا تھا۔ مغل شہنشاہ اکبر نے بھی اپنے دور حکومت کے آغاز میں شیر شاہ سوری کے ہی مالیاتی نظام کو اپنایا جس کے تحت (سونے کی) ایک مہر میں (چاندی کے) نو روپیے ہوتے تھے اور (چاندی کے) ایک روپیے میں (تانبے کے) 40 پیسے ہوتے تھے جنہیں اکبر کے زمانے میں ’دام‘ کہا جاتا تھا۔‘

بھارتی مورخ ڈاکٹر آر پی ترپاٹھی اپنی کتاب ’رائز اینڈ فال آف دا مغل ایمپائر‘ میں رقم طراز ہیں: ’شیر شاہ نے ملک کے سکے کی قیمت بڑھائی جو ترک اور افغانوں کے دور حکومت کے اواخر میں بہت گر گئی تھی۔ پرانے، معمولی اور مخلوط دھات کے بنے ہوئے سکوں کی جگہ عمدہ قسم کے سونے، چاندی اور تانبے کے معیاری سکے رائج کیے۔

‘شیر شاہ کا چاندی کا روپیہ اتنا کھرا تھا کہ کئی صدیوں تک معیاری مانا جاتا رہا۔ روپیہ کے مختلف اجزا کے سکوں کے علاوہ تانبے کے سکے بھی ڈھالے جن کو دام کہتے تھے اور اس کے نصف، چوتھائی، آٹھویں اور سولہویں حصے کے سکے بھی ہوتے تھے۔‘

نامور بھارتی مورخ ایشوری پرساد اپنی کتاب ’اے شارٹ ہسٹری آف مسلم رول ان انڈیا‘ میں لکھتے ہیں: ’یہ شیر شاہ سوری ہی تھے جنہوں نے قرون وسطی کے کرنسی نظام کو کالعدم کر کے چاندی سے بنے روپیہ کے سکے کو متعارف کروایا۔ اس روپیہ کا وزن قریب ساڑھے 11 گرام ہوا کرتا تھا۔‘

کلمہ طیبہ اور خلفائے راشدین کے نام کندہ

بھارت اور پاکستان کے مرکزی بینکوں ’ریزرو بینک آف انڈیا‘ اور ’سٹیٹ بینک آف پاکستان‘ کے عجائب گھروں میں شیر شاہ سوری کے متعارف کردہ روپیہ کے سکے نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔

ان چاندی کے سکوں کے ایک رخ پر بیچ والے حصے میں کلمہ طیبہ اور کناروں پر خلفائے راشدین کے نام اور دوسرے رخ پر بیچ والے حصے میں عربی رسم الخط میں اور کناروں پر دیوناگری میں حکمران کا نام کندہ ہے۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان کے میوزیم کی ویب سائٹ پر شیر شاہ سوری کے روپیہ کے سکے کی تصویر کے عنوان کے تحت لکھا ہے: ’شیر شاہ کا چاندی کا سکہ، جو روپیہ کہلاتا تھا، کا وزن 178 گرینز (قریب ساڑھے 11 گرام) ہوتا تھا۔ شیر شاہ کے چاندی کے سکے کے ایک رخ پر کلمہ اور خلفائے راشدین کے نام اور دوسرے رخ پر “خلد اللہ ملکه” (ترجمہ: خدا نے اس کی بادشاہی کو دوام بخشا ہے)، سکہ ڈھالنے والی جگہ کا نام و تاریخ اور عربی و دیوناگری میں حکمران کا نام کندہ ہوتا تھا۔‘

کالکارنجن قانون گو نے اپنی کتاب ’شیر شاہ — اے کریٹیکل سٹیڈی بیسڈ آن آریجنل سورسز‘ میں لکھتے ہیں: ’شیر شاہ کے سکوں پر دو زبانوں (عربی اور دیوناگری) میں تحریریں کندہ ملتی ہیں۔ حاکم کا نام دونوں زبانوں میں لکھا ہے۔ سکوں پر چار خلفا حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت عثمان کے نام کندہ کرانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیر شاہ عقیدتاً سنی مسلمان تھے۔

’شریف آباد میں ڈھالے گئے گول شکل کے سکوں میں حضرت ابوبکر کا نام اوپر، حضرت عثمان کا نیچے، حضرت عمر کا دائیں طرف اور حضرت علی کا بائیں طرف کندہ ہے۔‘

کالکارنجن قانون گو اپنی دوسری کتاب ’شیر شاہ اینڈ ہز ٹائمز‘ میں لکھتے ہیں: ’شیر خان کو اول و آخر یہ امتیاز حاصل ہوا کہ وہ عربی اور ہندی (دیوناگری) میں اپنے نام کے سکے جاری کرے۔ انہوں نے سکے پر اپنا نام “سری سر ساہی” کندہ کروایا تھا۔‘

منشی سید احمد مرتضیٰ اپنی مرتب کردہ کتاب ’صولت شیر شاہی‘ میں لکھتے ہیں کہ شیر شاہ سوری نے اپنے نام کا جو سکہ جاری کیا تھا وہ بھی اُن کے غیر متعصب ہونے کا ایک زندہ ثبوت ہے۔

شیر شاہ سوری کے کارناموں میں سے ایک جرنیلی سڑک کی تعمیر شامل ہے (پبلک ڈومین)

 

’اس روپیہ کے سکے کے ایک رخ پر کلمہ طیبہ، ابوبکر، عمر، عثمان اور علی اور دوسرے رخ پر بخط عربی و دیوناگری: ’سلطان شیر شاہ سور خلد اللہ ملکه، السلطان حفظ الدنیا و الدین، سری سر ساہی‘ کندہ تھا۔‘

بھارتی سکوں کے جامع آن لائن کیٹلاگ کی ویب سائٹ ‘کوائن انڈیا ڈاٹ کام’ پر شیر شاہ سوری کے گوالیار، شیرگڑھ، جہاں پناہ اور ست گاؤں میں ڈھالے گئے روپیہ کے سکوں کی تصویریں موجود ہیں جن پر کلمہ طیبہ، خلفائے راشدین کے نام اور شیر شاہ کا عربی اور دیوناگری رسم الخط میں نام کندہ ہے۔

تصویروں کے ساتھ لکھے گئے کیپشنز کے مطابق چاندی کے ان روپیہ سکوں کا وزن قریب ساڑھے گیارہ گرام اور ان کا قطر (ڈایامیٹر) 25 تا 29 ایم ایم ہوتا تھا۔

’انڈین کوائنز ڈاٹ کام‘ نامی ویب سائٹ پر شیر شاہ سوری کے بنگال میں ڈھالے گئے کلمہ طیبہ اور خلفائے راشدین کے نام والے چاندی کے روپیہ سکہ فروخت کے لیے دستیاب ہیں۔

ویب سائٹ نے ایک سکے کی قیمت بھارتی 3200 روپے (تقریباً پاکستانی 6677 روپے اور امریکی 43 ڈالرز) مقرر کر رکھی ہے اور سکے کے سو فیصد کھرا ہونے کی ضمانت دے رہی ہے۔

اگر شیر شاہ مزید کچھ عرصے تک زندہ رہتے تو  ان کی سلطنت بے مثال ہوتی اور ’گریٹ مغلز‘ تاریخ کے سٹیج پر نمودار نہ ہوتے: تاریخ دان آرتھر سمتھ

حکمرانی اکبر کی اور نظام شیر شاہ کا

22 مئی 1545 کو شیر شاہ سوری کی بارود خانے میں آگ لگنے کی وجہ سے موت کے تقریباً ایک دہائی بعد دلی میں نصیر الدین محمد ہمایوں کی واپسی ہوئی۔

27 جنوری 1556 کو ہمایوں کی حادثاتی موت کے بعد ان کے بیٹے جلال الدین اکبر کی تاج پوشی کی گئی جنہوں نے مغلیہ سلطنت کو بام عروج تک پہنچا دیا۔

باوجود اس کے کہ شیر شاہ نے ہمایوں کو شکست دے کر دلی کا تخت حاصل کیا تھا شہنشاہ اکبر نے شیر شاہ کے کارناموں اور اصلاحات کو نہ صرف سراہا بلکہ کرنسی کے نظام سمیت کئی اصلاحات کو اپنایا۔

جلال الدین اکبر کے درباری مورخ ابو الفضل ابن مبارک اپنی تصنیف ’آئین اکبری‘ میں اعتراف کرتے ہیں کہ ’روپیہ‘ شیر شاہ سوری کی دین ہے۔

انجم سلطان شہباز اپنی کتاب ’شیر شاہ سوری‘ میں لکھتے ہیں: ’یہ کتاب (آئین اکبری) ابو الفضل کی تصنیف ہے جو سنہ 1597 میں لکھی گئی۔ اس میں اکبر کی زرعی اصلاحات اور نظام مالگذاری کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ اکبر نے یہ نظام شیر شاہ سوری سے اختیار کیا تھا۔‘

منشی سید احمد مرتضیٰ نے ’صولت شیر شاہی‘ میں صحافی اور مورخ جان کلارک مارش مین کے حوالے سے لکھا ہے: ’کوئی شبہ نہیں کہ شیر شاہ نہایت درجہ نیک طبیعت، ذکی و فہیم، مدبر اور قابل ترین انسان تھے۔ جس طرح کہ وہ جنگی مہمات میں مشہور تھے اسی طرح ملکی انتظام میں بھی قابل تھے۔

’باوجود یکہ شیر شاہ کو میدان جنگ سے مہلت نہیں ملی، تاہم انتظامی سطح پر انہوں نے سلطنت کے ہر شعبے کو مکمل طور سے ترمیم کر کے صورت نما بنا دیا تھا اور ان کی وفات کے بعد وہی قوانین و قواعد اُن کے خاندان میں جاری رہے، یہاں تک کہ اکبر کے واسطے ان کے نظامیہ اصول و آئین نمونہ بن گئے، جو بعد میں آئین اکبری کے نام سے مشہور ہوئے۔‘

ڈاکٹر آر پی ترپاٹھی لکھتے ہیں کہ کوئی بھی مورخ شیر شاہ کے اس حق سے انکار نہیں کر سکتا کہ وہ جلال الدین اکبر سے پہلے کے سارے مسلمان حکمرانوں میں سب سے زیادہ معروف، روشن خیال اور بہادر تھے۔

‘شیر شاہ کا شمار بلا شک و شبہ دلی کے زبردست مدبر و سیاست داں سلاطین میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اکبر کی کامیاب طرز حکومت کے لیے راستہ ہموار کر دیا اور صحیح معنوں میں ان (اکبر کا) کا پیشرو کہلانے کا مستحق ہے۔

‘ولیم کروک نے یہ کہہ کر شیر شاہ پر کوئی احسان نہیں کیا ہے کہ انہوں نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت کے مختصر عرصے میں جو وسیع اصلاحات کیں وہ ان کی انتظامی لیاقت کا حیرت ناک ثبوت ہیں۔’

آئرش مورخ ونسنٹ آرتھر اسمتھ اپنی تصنیف ‘دا آکسفورڈ ہسٹری آف انڈیا’ میں لکھتے ہیں: ‘شیر شاہ نے سکوں کے نظام میں اصلاح لائی، کثرت سے چاندی کے سکے جاری کیے جو موزونیت اور عمل درآمد کے لحاظ سے عمدہ تھے۔ یہ پانچ سالہ حیرت انگیز دور حکومت کا ایک اچھا ریکارڈ ہے۔

‘اگر شیر شاہ مزید کچھ عرصے تک زندہ رہتے تو ان کی سلطنت بے مثال ہوتی اور ’گریٹ مغلز‘ تاریخ کے سٹیج پر نمودار نہ ہوتے۔‘

شیر شاہ سوری
نظريات (0)
نظر اضافه کول