’’میوند‘‘ کا نام پختونوں کی تاریخ میں اس روشن باب کی حیثیت رکھتا ہے، جسے انگریز نے اپنے تاریخی صفحات پر بادلِ نخواستہ جگہ دی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ باب میں پشتونوں کی بہادری کو بڑی شان سے سراہا گیا ہے۔
یہ 27جولائی 1880ء کا دن تھا جب پختون جرنیل ایوب خان مع اپنی فوج دریائے ہلمند عبور کر گیا اور ’’میوند‘‘ گاؤں کے ساتھ انگریز فوج کے سامنے مورچہ زن ہوا۔ ساتھ ہی مذکورہ فوج کو دُھول چٹائی۔ نتیجتاً انگریز فوج پسپا ہوئی اور ہزیمت اٹھانے کے بعد بدلہ لینے پر مجبور ہوئی۔ تین دن بعد یعنی 30 جولائی کوہند کے نئے وائسرائے کو لکھا گیا: ’’اب وقت ہے کہ ایوب خان کو سبق سکھانے کے لیے بھرپور حملہ کیا جائے۔یوں اُس فوج کو آزادی بھی مل جائے گی، جو اِس وقت قندھار میں محصور ہے۔ دوسری بات یہ کہ دشمن کو برطانوی افواج کی طاقت کا اندازہ بھی ہو جائے گا۔‘‘ ایسا ہی ہوا اور وائسرائے نے ایوب خان پر حملے کی منظوری دے دی۔
جب سے انگریز نے پختونخوا پر دستِ تصرف دراز کیا تھا، تو آہستہ آہستہ اس کی نظریں افغانستان پر بھی پڑنے لگیں۔ معاہدۂ گندمک کے ساتھ انگریز نے افغانستان کے عنان سنبھالنے کی غرض سے ہر جائز و ناجائز کوشش جاری رکھی۔ کہانی کا سِرا یہاں سے پکڑ لیتے ہیں کہ جب فرنگی جرنیل ’’رابرٹس‘‘ کو پتا چلا کہ امیرِکابل پر روس کا اس حد تک اثر ہوچکا ہے کہ وہ کپڑے روسی طرز کے پہنتا ہے۔ شہرِ کابل کے بازاروں میں روس کی تیار کی گئی اشیا فروخت ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ اُسے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ افغانستان کے خزانہ میں 13,000 روسی پاؤنڈز بھی پڑے ہیں، تو اُس نے ایک بھی لمحہ ضائع کیے بغیر برطانوی حکومت کو آگاہ کیا اور جن شرائط پر امیر شیر علی خان اور روس کے درمیان تنازعہ حل ہوا تھا، اُس کی تحریری سند بھی حاصل کرلی۔ پھر کیا تھا، برطانوی حکومت نے کابل میں روس کے مقابلہ میں اپنی حکمرانی ضروری سمجھی۔ وائسرائے لارڈ لٹن نے اس موقع پر جنرل رابرٹس کو کہا: ’’کابل پر قبضہ ضروری ہے۔‘‘ یہ کام اس لیے بھی آسان تھا کہ اُس وقت امیرِ کابل، امیر شیر علی کا بیٹا امیر یعقوب تھا، جس کی کابل میں حکمرانی کمزور تھی۔
نتیجتاً اکتوبر 1879ء کو یعقوب خان کی جگہ جنرل رابرٹس نے عنانِ حکومت سنبھالے۔ اس کے ساتھ ہی انگریز فوج میں جنرل رابرٹس کو بلحاظِ عہدہ ترقی بھی دی گئی۔ امیرِ کابل کی حیثیت سے جنرل رابرٹس نے کئی کام ایسے کیے، جو اہلِ کابل کو بُرے لگے۔ اس نے قلعہ بالا حصار کو محض اس لیے نقصان پہنچایا کہ یہ افغان فوج کی قوت کا نشان تھا۔ قلعہ کی عمارتی لکڑی کو یا تو سوختنی لکڑی کا درجہ دیا یا پھر اس سے فرنگی فوجیوں کے لیے بارکیں تعمیر کیں اور تمام سرکاری گوداموں پر قبضہ کیا۔ اس کے علاوہ رابرٹس شکست کے بھرپور بدلے کی آگ میں ہر وقت جلتا رہتا۔ اس بات کا اندازہ باآسانی یوں لگایا جاسکتا ہے کہ جو چھاؤنی افغانیوں نے 1742ء کو فرنگیوں پر یورش کے وقت مسمار کی تھی، اُس کو دوبارہ تعمیر کیا۔ کئی سفید ریش اور بزرگوں کو جھوٹی گواہی کی بنا پر پھانسی دلوائی۔ الزام یہ لگوایا کہ مذکورہ بزرگ تمام کے تمام برطانوی مشن کی تباہی میں ملوث تھے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جھوٹی گواہی دینے والوں کو رابرٹس نے اُس وقت خطیر رقم دی۔
اس کے ساتھ ساتھ قارئین کی توجہ ایک اور نکتہ کی طرف مبذول کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ ایک افغان مصوّر نے 1742ء کے معرکہ کی تصویر کشی کی تھی جس میں اُس وقت کے جنرل ایلفنسٹن، اُس کے پالتو کتے اور جنرل اکبر خان کے خاکے تھے۔ مذکورہ خاکوں میں انگریز جنرل کو حقیر اور اکبر خان کو عراقی گھوڑے پر سوار بڑی شان کے ساتھ پیش کیا گیا تھا۔ مذکورہ شاہکار جنرل رابرٹس کو ایک آنکھ نہ بھایا۔ اس سے جنرل رابرٹس نے ایک سبق ضرور سیکھا اور مصمم ارادہ کیا کہ اپنے آپ کو خاکوں میں دکھائے گئے انگریز جنرل کی طرح نہیں بلکہ افغانی جنرل کی طرح باوقار پیش کرنا ہے، مگر اس کی انتقامی کارروائیاں افغان قوم پر منفی اثر ڈال گئیں۔
اس وقت ’’مشک عالم‘‘ نامی ایک مُلّا، جنرل رابرٹس کے رویے سے سخت بد دل ہوا۔ اس نے گلی گلی کوچہ کوچہ تقاریر شروع کیں۔ وہ مختلف مساجد جاتا اور افغان قوم کو غیرت دِلاتا۔ انہیں آبا و اجداد کی غیرت کی کہانیاں سناتا اور کہتا کہ انگریز کے پنجے سے اپنی زمین کو چھڑانا ہے، اُس کو یہاں سے مار بھگانا ہے، جیسے آپ کے آباو اجداد نے چالیس سال قبل ان فرنگیوں کو اکبر خان کی سرکردگی میں بھگایا تھا۔
مُلّا مشک عالم جتنا پیرانہ سال تھا، اتنا ہی حوصلہ مند تھا۔ وہ افغانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا، کمر باندھ لیں، تلوار اٹھائیں اور اپنے باپ دادا کا بدلہ لیں، اس لیے کہ آپ لوگوں پر جہاد فرض ہوچکا ہے۔
دسمبر 1879ء کو پورا مہینا مُلّا مشک عالم کے ولولہ انگیز خطبات نے افغان قوم کو غازی محمد جان کی کمان میں انگریز کے خلاف طبلِ جنگ بجانے پر تیار کیا۔ دوسری طرف جب فرنگی فوج کو اپنے جاسوسوں کے ذریعے افغان قوم کے عزائم کی بھنک پڑ گئی، تو خود کو کیل کانٹے سے لیس کیا اور افغان قوم پر اس خوف کی وجہ سے ہلّہ بول دیا کہ اگر وہ کابل کے اندر آئے گی، تو اندرونِ کابل آباد قوم اس کی معاونت ضرور کرے گی۔ نتیجتاً گھمسان کا رَن پڑا جو پانچ روز تک جاری رہا۔ اس لڑائی میں افغان فوج کا پلڑا بھاری رہا۔ مجبوراً جنرل رابرٹس نے اپنی فوج کو پیچھے جانے کا حکم دیا اور جلال آباد چھاؤنی کو تازہ دم دستے بھیجنے کی خبر دی۔
فروری 1880ء کو حالات نے پلٹا کھایا۔ ایک طرف پرانے امیر عبدالرحمان کے حوالہ سے جنرل رابرٹس کو خبر ملی کہ وہ روسی ترکستان سے اپنی جلاوطنی کا دور ختم کرکے واپس کابل آئے ہیں۔ اس کے ساتھ ایک اور واقعہ رونما ہوا۔ وہ یہ کہ عبدالرحمان کی ماں نے قندھار میں انگریز گورنر ڈونلڈ سٹیورٹ کے ساتھ ملاقات کی اور یعقوب کے بھائی ’’ایوب خان‘‘ کے متعلق اُسے کہا: ’’ایوب خان نے عبدالرحمان کو کہا ہے کہ انگریز کے خلاف لڑنے کے لیے کمر بستہ ہوجاؤ۔‘‘ سٹیورٹ نے جواباً خاتون کو کہا کہ عبدالرحمان ہمارا دوست ہے۔ اگر وہ چاہے، تو ہم اس کی ہر ممکن مدد کرسکتے ہیں۔
مذکورہ ملاقات کے بعد عبدالرحمان نے برطانوی حکومت کی گود میں بیٹھنے کی کوششیں شروع کر دیں اور جنرل رابرٹس کے ساتھ ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ دوسری طرف برطانیہ کے حکمران روس کے خلاف افغانستان میں ایک طاقتور امیر کی ضرورت محسوس کر رہے تھے۔ یوں عبدالرحمان کو ملاقات کی دعوت دی گئی۔ سیر حاصل گفتگو کے بعد جون 1880ء کو اُسے برطانوی حکومت کی طرف سے تحریری طور پر امیر مانا گیا، ساتھ ہی اس شرط کے ساتھ اُسے قندھار کا صوبہ حوالہ کیا گیا کہ وہ خارجہ پالیسی میں ٹانگ نہیں اڑائے گا۔
اس وقت برطانیہ میں حکومت ڈزرائیلی (Disraeli) سے منتقل ہوکر گلیڈسٹون (Gladstone) کو ملی۔ نئی حکومت چاہتی تھی کہ انگریز فوج افغانستان چھوڑ کر واپس ہو مگر روسی فوج بھی وہاں ٹکنے نہ پائے۔ یہی وجہ تھی کہ قندھار بھی ان کے زیرِ تصرف رہا اور عبدالرحمان کو بھی گود میں لے لیا۔
عبدالرحمان کو امیر ماننے کے بعد جنرل رابرٹس کو اپنی فوج واپس ہندوستان لے جانے کا حکم ہوا۔ وہ واپس جانے کی غرض سے تیاریوں میں مصروف تھا کہ برطانوی فوج پر ایوب خان کے حملے کی خبر اُسے پہنچی۔ ایوب خان نے دریائے ہلمند کے کنارے آباد ’’میوند‘‘ گاؤں میں ڈھائی ہزار سپاہیوں پر مشتمل برطانوی فوج پر ہلہ بول دیا تھا۔ اُس وقت یہ خبر بھی پہنچی کہ ایوب خان نے قندھار کے برطانوی فوج کے گیریزن (Garrison) کا محاصرہ بھی کر رکھا ہے۔
جب قندھار کے محاصرے کی خبر جنرل رابرٹس تک پہنچی، تو جنرل بروز (Burrows) کی سرکردگی میں ایک بریگیڈ فوج قندھار سے باہر ایوب خان کے مقابلے کے لیے روانہ ہوئی۔ اسی اثنا میں برطانوی فوج کے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ وہ یوں کہ قندھار میں فرنگیوں نے افغانوں پر مشتمل ایک “Reverse Force” اس مقصد کے حصول کے لیے بھرتی کی تھی کہ بوقتِ ضرورت برطانوی فوج کی لڑنے میں مدد کرے گی۔ مذکورہ فورس کو جب ایوب خان کے خلاف لڑنے کا حکم دیا گیا، تو فورس میں شامل تمام فوجیوں نے علمِ بغاوت بلند کیا اور مع اسلحہ ایوب خان کی فوج کا حصہ بن گئے۔ ایوب خان کی فوج تازہ شامل ہونے والی فوج کے ساتھ اور بھی طاقتور ہوگئی۔ ایوب خان کا لشکر 7,500 فوجیوں پر مشتمل تھا جب کہ 10 رجمنٹ میں تقسیم تھا۔ اس کے علاوہ ان کے پاس 10 توپیں بھی تھیں، جنہیں روسی توپچی چلایا کرتے تھے۔ ایوب خان اس معرکہ میں جس بھی شہر یا گاؤں سے گزرتے، وہاں قیام ضرور کرتے، عام لوگوں کو تقریر کے ذریعے اتفاق و اتحاد کا درس دیتے اور انہیں انگریز فوج کو اپنی زمین سے مار بھگانے کی ترغیب دیتے۔ آہستہ آہستہ لوگ ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔ نتیجتاً 17,500 غازی مزید ایوب کے لشکر کا حصہ بن گئے، یوں غازیوں کی کُل تعداد 25,000 تک جا پہنچی۔
جب برطانوی فوج ’’میوند‘‘ گاؤں تک پہنچ گئی، تو افغان فوج کو اونچائی پر مورچہ زن پایا۔ طبلِ جنگ بج گیا۔ ایوب خان کی فوج بے جگری سے لڑی اور برطانوی فوج پر آدھے گھنٹے تک توپ کے گولے برسائے۔ برطانوی فوج شکست کھا گئی۔ ایوب خان کی فوج نے اسے پیچھے دھکیل دیا۔ یوں 1842ء کی ایلفنسٹن کی یاد تازہ کر دی۔ ’’میوند‘‘ کی اس لڑائی میں برطانوی فوج کے 1100 تربیت یافتہ فوجی موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے۔ جو فوجی قندھار بھاگ گئے تھے، ایوب خان کے وہاں پہنچتے ہی انہیں بھی محصور کیا گیا۔ اپنے محصور فوجیوں کو رہائی دلانے کی خاطر برطانوی کمان کی طرف سے ایک اور جنگ کا فیصلہ ہوا جس کی کمان جنرل رابرٹس کو خود لینے کا حکم دیا گیا۔ جنرل رابرٹس نے حکم کی تعمیل کی خاطر ایک ہفتہ تک تیاری جاری رکھی، جس کی تفصیل کالم کی تنگ دامنی کی وجہ سے یہاں نہیں دی جاسکتی۔
میوند کی لڑائی میں اگر ایک طرف افغان فوج نے دشمن کو نقصان پہنچانے کا مصمم ارادہ کیا ہوا تھا، تو دوسری طرف پختون دوشیزائیں بھی اپنی فوج کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑی رہیں اور جوانوں کو بہادری سے لڑنے کی غرض سے ٹپے گاتی رہیں۔ان دوشیزاؤں میں ایک نام ’’ملالہ‘‘ کا ہے، جو والد اور اپنے منگیتر کے ساتھ میدانِ جنگ میں ڈٹی رہی۔ ملالہ اول تو زخمیوں کی مرہم پٹی پر مامور تھی، لیکن جیسے ہی تلوار چلانے کا موقع ہاتھ آیا، تو بے جگری سے لڑی اور بالآخر جامِ شہادت نوش کرکے ہی دم لیا۔ اس حوالہ سے یہ تاریخی ٹپہ مقبولِ عام کی سند رکھتا ہے:
کہ پہ میوند کی شہید نہ شوے
خدائیگو لالیہ بے ننگئی لہ دی ساتینہ
یہاں دو باتوں کا ذکر از حد ضروری ہے۔ پہلی، میوند میں شکست کھانے کے بعد برطانوی فوج کا غرور خاک میں مل گیا۔ دوسری یہ کہ اگر نئے منتخب ہونے والا امیر عبدالرحمان، ایوب خان کی مدد کرتا اور اقتدار کے لالچ میں نہ پڑتا، تو برطانوی فوج ضرور افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہوجاتی۔ لیکن افسوس کہ دونوں متحد نہیں ہوئے اور یومِ استقلال منانے کے لیے افغان قوم کو تیس چالیس سال مزید انتظار کرنا پڑا۔ (شعبۂ تاریخ پشاور یونیورسٹی کے اسفندیار درانی کے پشتو تحقیقی مقالہ شائع شدہ مجلہ ’’پختون‘‘ جولائی 2018ء کا ترجمہ، راقم)