علامہ صلاح الدین سلجوقیؔ افغانستان کی مشہور و معروف شخصیت تھے آپ نہ صرف افغانستان کے سیاسی افق کے درخشندہ ستارے تھے بلکہ علمی و ادبی جہاں میں بھی ممتاز حیثیت رکھتے تھے ۔ آپ حضرت علامہ کے معاصر اور ان سے گہرے مراسم رکھنے والے بھی تھے بقولِ ڈاکٹر محمد ریاض مرحوم:
افغانستان کے فضلاکے ساتھ اقبال کے ذاتی مراسم بھی خاصی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ ڈاکٹر صلاح الدین سلجوقیؔ اور سرور خان گویاؔ ان کے خاص احباب میں شامل تھے اور دونوں مرحومین کا سارا افغانستان ارادت مند اور معتقد ہے(۱)
صلاح الدین سلجوقیؔ ۱۳۱۳ ھ ق/ ۱۲۷۶ ھ ش/ ۱۸۹۶کو ہرات کے گذر گاہ میں پیدا ہوئے۔ یہ وہی گازر گاہ ہے جہاں پیر ہرات حضرت خواجہ عبداللہ انصاری محوخواب ابدی ہیں(۲)
آپ کے والد سراج الدین مفتی سلجوقیؔ ہروی کا شمار ہرات کے زعماء میں ہوتا ہے۔ (۳)
سراج الدین سلجوقیؔ فارسی کے زبردست شاعر اور مکتبِ شیرازی کے پیرو تھے (۴)
صلاح الدین سلجوقیؔ نے عربی و فارسی کی ابتدائی کتب اپنے والد محترم سے پڑھیں۔ تحصیلِ علم کے بعد مختلف عہدوں پر فائز رہے۔
۱۲۹۶ھ ش ۱۹۱۴ء محکمہ شرعیہ ہرات میں مفتی (نائب قاضی مقرر ہوئے)۔
۱۲۹۹ ھ ش مکتب حبیبہ کابل میں دینیات کے معلم مقرر ہوئے(۵)
جبکہ بقولِ نعمت حسین آپ اس دوران مکتب حبیبہ میں استاد ادبیات فارسی و عربی مقرر ہوئے۔ (۶ٌ)
۱۳۰۰ھ ش مدیر معارف اور مدیر جریدہ ، فریاد ہرات مقرر ہوئے۔
۱۳۰۲ ھ ش وزارت معارف میں دارالتالیف کے مصحح مقرر ہوئے۔
۱۳۰۴ھ ش / ۱۳۰۵ھ ش کابل میں مکتب استقلال اور مکتب دارالمعلمین میں ادبیات کے استاد بنے۔
۱۳۰۵ھ ش۱۹۲۷ء تا ۱۳۰۷ھ ش شاہی دارالتحریر کے شعبہ سوم میں سرکاتب مقرر ہوئے۔ (۷)
۱۳۰۹ھ ش افغانستان کے کونسلر کی حیثیت سے بمبئی میں خدمات انجام دیتے رہے۔
۱۳۱۲ھ ش دہلی میں افغان کونسلری کے کونسلر جنرل مقرر ہوئے۔
۱۳۱۸ھ ش / ۱۹۳۹ء جب افغانستان میں پہلی بار مطبوعات کی مستقل ریاست وجود میں آئی تو صلاح الدین سلجوقیؔ اس کے پہلے رئیس تھے۔ آپ کے اس شاندار دور میں آپ کے درج ذیل کارہائے نمایاں افغانستان کی تاریخ میں یاد رکھے جائینگے۔
– آریانا دائرۃ المعارف کے ریاست کا آغاز ہوا۔
– ۱۳۲۰ھ ش ریڈیو افغانستان کی نشریات کا افتتاح ہوا۔
– ہفت روزہ’’انیس ‘‘نے روزنامہ کی حیثیت اختیار کی۔
– کابل میں کتب خانہ عمومی وجود میں آیا۔
– مختلف صوبوں میں فاریاب، پکتیا، بدخشان، سیستان (فراہ) اور دیگر صوبوں میں اخبارات اور مطبوعات کااجرا ہوا۔
۱۳۲۷ھ ش پاکستان میں افغان سفارتخانے سے منسلک رہے۔
۱۳۲۸ھ ش / ۱۹۴۹ء اہالیان ہرات کی جانب سے افغانستان کے شورائی دورۂ ہفتم کیلئے وکیل منتخب ہوئے۔
۱۳۳۲ھ ش دوسری مرتبہ مطبوعات کے مستقل رئیس منتخب ہوئے۔
۱۳۳۳ھ ش/ ۱۹۵۴ء قاہرہ میں جمال عبدالناصر کے دورِ حکومت میں افغانستان کے سفیر مقرر ہوئے۔ اس دوران سوڈان ، لبنان، اور یونان میں بھی افغانستان کے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ یہ سلسلہ ۱۳۴۱ھ ش کے آواخر تک جاری رہا ۔ وہاں سے مستعفی ہوکر عازمِ وطن ہوئے۔ (۸)
سرکاری عہدوں سے سبکدوشی کے بعد تصنیف و تالیف اور مطالعہ میں مصروف رہے۔ کابل کے دارالامان میں ۱۶ جوزا ۱۳۴۹ھ ش بمطابق ۶ جون ۱۹۷۰ء ہفتے کی شب حرکت قلب بند ہونے کی سبب خالق حقیقی سے جاملے اور کابل کے شہدائے صالحین کے قبرستان میں دفن کئے گئے(۹)
علامہ سلجوقیؔ فارسی کے علاوہ عربی و انگریزی سے بھی استفادہ کرسکتے تھے۔ سفارتی زندگی میں مختلف ممالک کی سیاحتیں کیں۔ علامہ سلجوقی ؔکی تالیفات و تصانیف کا تذکرہ نہایت ضروری ہے۔
۱۔تاریخِ فتوحات اسلامیہ:
سید حسن بن سید زین دحلانی کا یہ عربی اثر استاد صلاح الدین سلجوقیؔ ، حاجی عبدالباقی، میر غلام حیدر، ملا تاج محمد اور چند دیگر زعماء نے مشترکہ طور پر ترجمہ کیا۔ جو عبدالرحیم خان نائب سالار کی زیرِ نگرانی ملا فخر الدین سلجوقیؔ کے زیر اہتمام سے مطبع فخریہ سے ۱۳۰۹ھ ش ۵۴۰ صفحات میں شائع ہوئی۔
۲۔مقدمہ علم اخلاق جلد اول:
استاد سلجوقی ؔ کی تالیف و ترجمہ ۱۳۳۱ھ ش میں ۴۰۲صفحات پر مشتمل کابل کے مطبع عمومی سے شائع ہوئی۔ اس کتاب کی جلد دوم بھی اسی سال ۳۵۲ صفحات پر شائع ہوئی۔
۳۔علم اخلاق (نیکو ماکوسی):علم اخلاق سے متعلق یونانی فلسفی ارسطو کا یہ اثر صلاح الدین سلجوقیؔ نے فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔ جو ۱۳۷۱ھ ش میں ۳۳۰ صفحات پر شائع ہوا۔
۴۔تہذیب اخلاق:ابنِ مسکویہ کا یہ اثر بھی استاد سلجوقیؔ نے ترجمہ کیا۔ اور موسسہ نشراتی اصلاح کی جانب سے ۱۳۳۴ھ ش میں ۸۶ صفحات پر مشتمل شائع ہوا۔
۵۔افکارِ شاعر:فارسی ادبیات کے کلاسیک شعراء کے آثار و افکار سے متعلق استادسلجوقیؔ کا یہ اثر اصلاح اخبار کے ادارے کی جانب سے پہلی بار ۱۳۲۶ ھ ش اور بعد میں ۱۳۳۴ ھ ش کابل کے مطبع عمومی کی جانب سے شائع ہوا۔ تعداد صفحات ۷۳ ہیں۔
۶۔جبیرہ:استاد سلجوقیؔ کا یہ اثر کابل کی وزارت مطبوعات کے ریاست نشریات کی جانب سے ۳۲۴ صفحات میں شائع ہوا۔
۷۔نگاہی بہ زیباہی:سلجوقیؔ کی تالیف و ترجمہ کردہ یہ کتاب بھی کابل سے ۱۳۴۲ ھ ش ۱۷۳ صفحات میں شائع ہوئی ۔
۸۔محمد در شیر خوارگی و فرد سائی یا سرگذشت یتیم جاوید:
مصر کے محمد شوکت التوی کی عربی اثر کا فارسی ترجمہ ۱۳۴۲ ھ ش میں شائع ہوا۔
۹۔نقد بیدل:بیدل شناسی کے حوالے سے استاد سلجوقیؔ کا یہ گراں بہا علمی اثر ۵۷۰ صفحات پر کابل سے ۱۳۴۳ھ ش میں شائع ہوا۔
۱۰۔تجلی خدا در آفاق و النفس:دینی و عرفانی مسائل پر مشتمل استاد سلجوقی کا یہ اثر ۱۳۴۴ ھ ش میں ۳۲۳ صفحا ت پر مشتمل کابل کے دولتی مطبع سے شائع ہوا ہے۔ اس کتاب میں مختلف موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ مثلاً فکرت خداجوئی، عقیدہ بوجود خدا، علم و معرفت خدا، فکرت خدای دینی قدیم و جدید، دین و تصوف و فلسفہ، الحاد و اقسام آن، تجلی خدا در آفاق ، تجلی خدا دارالنفس و غیرہ۔
۱۱۔اضواء علی میا دین الفلسفہ و العلم و اللغۃ و فن الادب:
استاد سلجوقیؔ کا یہ عربی اثر ۱۳۸۱ھ ق میں مصر سے شائع ہوا۔
۱۲۔اثر الاسلام فی العلوم و الفنون (عربی):
استادسلجوقیؔ کی یہ کتاب ۱۳۷۵ ھ ق میں مصر سے شائع ہوئی۔
۱۳۔تقویم الانسان:استاد سلجوقیؔ کا یہ اثر ان کی وفات کے بعد ۱۳۵۲ ھ ش میں کابل سے ۳۴۴ صفحات پر شائع ہوا۔
۱۴۔اخلاق:غازی امان اللہ خان کے دورِ حکومت میں رشیدیہ کلاسز کے لئے درسی کتاب
۱۵۔ادبیات:درسی کتاب معارف کے طالب علموں کے لئے غازی امان اللہ خان کے دور میں شائع ہوئی۔
۱۶۔ثروت:یہ بھی امانی دور کی درسی کتاب ہے۔
۱۷۔قواعد عربیہ (تدریس):
استاد صلاح الدین سلجوقیؔ قاری عبداللہ اور ہاشم شائق کی مشترکہ کاوش۔
۱۸۔آئینہ تجلی(رسالہ منظوم):استاد سلجوقی ؔ اور مایل ہروی کی مشترکہ تالیف شائع شدہ ۱۳۴۴ ھ ش ۔ اس رسالے میں بعض امورسے متعلق مائل ہروی کے منظوم سوالات اور سلجوقیؔ کے منظوم جوابات شامل ہیں(۱۰)
جناب خلیل اللہ خلیلی نے آثار ہرات میں استاد صلا ح الدین سلجوقیؔ کو نہایت سپاس و تحسین پیش کی ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب استاد سلجوقیؔ بمبئی میں افغانستان کے کونسلر تھے۔ ایک معاصر نقاد ادیب اور شاعر سے اتنا ز بردست اعتراف ہی استاد سلجوقیؔ ہی کے حصے میں آسکتی ہے۔
:شاعر زبردستی کہ بایک روح شجاع و یک خامہ مقتدر در زمیہ نظم و نثر علم تصرف برافراشتہ بعبارت دیگر فرزند ہاہوشی کہ بہ مزایای علم و فضل و بباز دی یک فطرت زندہ و بیدار نام تاریخی در ادبیات ہرات گذاشتۂ آقائی سلجوقی است؛(۱۱)
استاد سلجوقیؔ کی فکری بلندی، علمی بصیرت اوراستدلال کی وسعت ہی ان کے فن میں جھلکتی رہتی۔حضرت علامہ سے اتنے گہرے ذاتی مراسم پر جب بھی میں سوچتا ہوں تودونوں شخصیات میں گہرے فکری تعلق کے سوا کئی دوسرے عوامل کا بھی دخل ہے۔ مثلاً اقبال بھی فلسفی اور سلجوقی ؔ بھی فلسفی ، اقبال بھی شاعر اور سلجوقیؔ بھی شاعر، اقبال بھی عالمگیراسلامی وحدت کے شیدائی اور سلجوقی ؔ بھی اس ارمان کا شیدائی۔ چنانچہ یہ آئندہ کے مؤرخ و محقق کا کام ہے کہ وہ ان دونوں ہستیوں کی فکری مماثلتوں سے پردہ اٹھائے
ہم جب علامہ صلاح الدین سلجوقیؔ اور علامہ اقبال کے دیرینہ تعلقات اور گہرے مراسم کے آغاز پر تحقیق کرتے ہیں تو مولوی محمد علی قصوریؔ ہی ان تعلقات کا سبب معلوم ہوتے ہیں۔ ممکن ہے کہ حضرت علامہ کے فن و شخصیت سے علامہ سلجوقیؔ کو پہلے سے آگاہی حاصل ہوئی ہولیکن باقاعدہ مراسم کے آغاز سے متعلق ڈاکٹر عبداللہ چغتائی کی تحریر ہمیں مدد دیتی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں
:مولوی محمدعلی قصوریؔ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ۱۹۰۹ء سے لے کر ۱۹۱۱ء تک گورنمنٹ کالج لاہور علامہ اقبال سے پڑھاتھا جب وہ فلسفے کے پروفیسر تھے۔ انہوں نے کئی انگریزی نظمیں بھی علامہ اقبال سے پڑھی تھیں ان کا بیان ہے کہ علامہ اقبال دوران لیکچر اکثر مطالب سمجھانے کے لئے فارسی اشعار بطورِ مثال پیش کرکے انگریزی اشعار کا مفہوم واضح کیا کرتے تھے۔ انہوں نے بیان کیا تھا کہ ہم نے ملٹن کی نظم Paradise Lost اور ورڈز ورتھ کی نظم Ode to Immortaliaty علامہ ہی سے پڑھی تھی۔ آپ نے ان کو اس خوش اسلوبی سے سمجھایا کہ آج تک یاد ہے میں نے اپنی یادداشتوں کو ایک مرتبہ علامہ صلاح الدین سلجوقیؔ افغان کے سامنے بیان کیا جو اِ ن دنوں بمبئی میں افغان گورنمنٹ کے کونسلر تھے۔ تو ان کو بھی علامہ سے ملنے کا شوق پیدا ہوا۔ علامہ صلاح الدین سلجوقیؔ مرحوم اسلامی رنگ کی خاص شان کے مالک تھے؛(۱۲)
مولانا محمد علی قصوریؔ ایم اے اقبال کے مشہور معاصر تھے ،ان دنو ں کینٹب بمبئی میں کاروبار کرتے تھے۔ وہاں افغان کونسل خانے میں علامہ اقبال اور علامہ سلجوقیؔ کے محفلوں کے حوالے سے روایت کرتے ہیں:
:جب میں نے بمبئی میں کاروبار شروع کیا تو افغانستان کی طرف سے علامہ صلاح الدین سلجوقیؔ بمبئی میں کونسلر افغانستان مقرر ہوئے۔ علامہ موصوف بعد میں کونسلر جنرل ہوگئے تھے۔ پاکستان بن جانے کے بعد سفیرِ مختار افغانستان کے مشیرِ خصوصی بن کرآئے تھے۔ آج کل کابل میں ہیں اور افغان پارلیمنٹ کے ممبر ہیں۔ انہیں ڈاکٹر اقبال سے بڑی محبت تھی۔ ڈاکٹرصاحب ولایت جاتے ہوئے اور واپس آتے ہوئے انہی کے پاس ٹھہرا کرتے تھے۔ میرے بھی علامہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے۔ ڈاکٹر صاحب ان کے پاس ٹھہرتے تو مجھے ضرور بلایا جاتا میں نے بھی ان کے اعزاز میں ایک پارٹی دی تھی؛(۱۳)
مولوی محمد علی قصوریؔ ،علامہ سلجوقیؔ اور علامہ اقبال کی ملاقاتوں میں مترجم کا کام بھی سرانجام دیتے تھے ۔ اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
:میں ایک خصوصیت بیان کردوں کہ ڈاکٹر صاحب اگرچہ متعدد فارسی نظم کی کتابوں کے مصنف تھے اور ان نظموں کی وجہ سے ان کے کلام کو تمام اسلامی ممالک میں ہمہ گیر شہرت حاصل تھی لیکن وہ فارسی میں گفتگو نہیں کرتے تھے انگریزی بولتے تھے یااردو۔ علامہ صلاح الدین سلجوقیؔ اس زمانے میں انگریزی سمجھ لیتے تھے لیکن بولتے نہیں تھے اس وجہ سے ان کی بات چیت میں مترجم کی خدمات مجھے سرانجام دینا پڑتی تھیں ؛(۱۴)
مکاتیب اقبال کے مطالعے سے اقبال کے کئی ایسے مکتوبات ملتے ہیں جو یا تو صلاح الدین سلجوقیؔ کے نام ہیں اور یا ان مکاتیب میں علامہ سلجوقیؔ کا تذکرہ شامل ہے ۔ ملاحظہ ہو ایسے چند مکتوبات:
اقبال کا پہلا مکتوب جس میں صلاح الدین سلجوقیؔ (کونسلر افغانستان مقیم بمبئی) کی دعوت کا ذکر ملتا ہے یہ خط اقبال نے ۲۱ ستمبر ۱۹۳۱ء کو ملوجا جہاز میں ساحلِ فرانس پر پہنچنے سے پہلے بحرِ روم سے گزرتے ہوئے منشی طاہرالدین کے نام لکھا ہے:
؛بمبئی پہنچتے ہی سردار صلاح الدین سلجوقیؔ کونسلر افغانستان مقیم بمبئی نے دعوت دی ان کے ہاں پرلطف صحبت رہی اسی شام عطیہ بیگم صاحبہ کے ہاں سماع کی صحبت رہی۔ ۲۱ ستمبر کو ایک بجے کے قریب بمبئی سے روانہ ہوئے۔ ۱۶ کی شام کو عدن پہنچے؛۔ (۱۵)
۱۹۳۲ء میں جب علامہ نے تیسری گول میز کانفرنس میں ہندوستان کےسیاسی مستقبل پر غور و خوض کے سلسلے میں انگلستان کا سفر کیا سید امجد علی شاہ اس سفر میں آپ کےہم رکاب تھا۔ لاہور سے سفر شروع کیا جب بمبئی پہنچے تو افغان کونسل خانے کے سربراہ مسٹر سلجوقیؔ نے آپ کا استقبال کیا۔۔۔(۱۶)
حضرت علامہ نے سفرِ افغانستان کے دوران ’’التجا ئے مسافر‘‘ اور’’پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق‘‘ لکھی ۔ مثنوی مسافر بھی اس سلسلے کی ایک کڑی تھی ۔ سفرِ افغانستان کے منظومات کا سبب بنا اور اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ سفرِ افغانستان کا سبب اگر ایک طرف خود علامہ کے جنرل نادر خان کے ساتھ مراسم تھے تو دوسری طرف علامہ سلجوقیؔ کی کاوشوں کا نتیجہ بھی تھا کیوں کہ ’’دورانِ سفرِ کابل علامہ سلجوقیؔ بھی حضرت علامہ کے ہمراہ تھے(۱۷)
سفرِ افغانستان کے سلسلے میں افغان کونسل خانہ بمبئی کا تذکرہ اقبال کے مکتوبات میں تواتر کے ساتھ پایا جاتا ہے جو اقبال اور ان کے ہم رکابوں کے درمیان واقع ہوا ہے
مکتوب بنا م سید سلیمان ندویؔ محررہ ۱۴ / اکتوبر ۱۹۳۳:
اگر آپ کو پاسپورٹ ۱۷ کو مل جائے تو کونسلر جنرل کو بذریعہ تار مطلع کردیں اور لاہور ۱۹ کی شام کو پہنچ جائیں(۱۸)
اسی طرح اگلے روز یعنی ۱۵/ اکتوبر ۱۹۳۳ء کو حضرت علامہ نے پھر سید سلیمان ندویؔ کو لکھاکہ:
دعوت نامہ جو کونسلر صاحب کی طرف سے مجھے موصول ہوا ہے ارسال خدمت ہے۔ آپ پاسپورٹ کے لئے درخواست دیں(۱۹)
ان دنوں ہندوستان میں افغان کونسلر جنرل سردار سلجوقیؔ تھے اور اس کے علاوہ دیگر سٹاف کی تفصیل درج ذیل ہے:
جنرل کونسل ع۔ ص۔ صلاح الدین خان
سرکاتب س۔ صالح محمد خان
کاتب عبدالخالق خان
کاتب صالح محمد خان(۲۰)
نذیر نیازی کے نام بھوپال سے ۲۷ فروی ۱۹۳۵ء کو دہلی میں قیام کے دورا ن سردار صلاح الدین سلجوقیؔ کے ساتھ ٹھہرنے کے لئے نیازی صاحب کو اطلاع کی تاکید کرتے ہیں
میں ۷ یا ۸ مارچ کی شام یہاں سے چلوں گا اور ۸ یا ۹ کو ساڑھے نو بجے دہلی پہنچوں گا وہاں ایک دو روز قیام کروں گا۔ آپ سردار صلاح الدین سلجوقیؔ کو بھی مطلع کردیں(۲۱)
سردار صلاح الدین سلجوقیؔ سے تعلقات اس حد تک بڑھے کہ حضرت علامہ باوجودلا محدود تعلقات کے دہلی میں قیام کے دوران صلاح الدین سلجوقیؔ کے ساتھ افغان کونسل خانے میں قیام فرماتے تھے۔ سیدنذیر نیازی کے نام ۳۰جنوری ۱۹۳۵ء کو لکھے جانے والے مکتوب میں حضرت علامہ تحریر فرماتے ہیں
“بھوپال کے متعلق مفصل اطلاع دوں گا مگر ایک دو روز میں لیکچر کی صدارت ممکن ہوئی تو اس سے بھی انکار نہیں۔ دہلی ٹھہر سکا تو افغان کونسل خانے میں ہی ٹھہروں گا۔ مشرق کی روحانیت اور مغرب کی مادیت کے متعلق جو خیالات انھوں نے (خالدہ ادیب خانم نے) ظاہر کئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نظریت محدود ہے انھوں نے اپنے خیالات کا اعادہ کیا ہے۔ جن کو یورپ کے سطحی نظر رکھنے والے مفکرین دہراتے ہیں”(۲۲)
بھوپال سے ۴مارچ ۱۹۳۵ء کو سید نیازی کے نام ایک دوسرے مکتوب میں لکھتے ہیں:
“میں ۷کی شام کو یہاں سے چلوں گا ۸ کی صبح کو دہلی پہنچ جائوں گا ۔ ۸ کا دن دہلی ٹھہروں گا اور ۹ کی شام کو لاہور روانہ ہوجاءوں گا۔ آپ سردار صلاح الدین سلجوقیؔ صاحب کو مطلع کردیں حکیم صاحب سے بھی۹ کی صبح کا وقت مقرر کردیں۔ ان سے ملے بغیر لاہور جانا ٹھیک نہیں ہاںراغب احسن صاحب کو بھی مطلع کردیں”(۲۳)
متذکرہ بالا مکتوبات سے اقبال کے صلاح الدین سلجوقیؔ سے گہرے مراسم کا عندیہ ملتا ہے۔ بھوپال سے لاہور جاتے ہوئے راستے میں صلاح الدین سلجوقیؔ کو سید نذیر نیازی کے ذریعے اطلاع دینا کہ وہ ملنے کا اہتمام کرے تعلقات کے پختہ تر ہونے کی دلیل ہے۔
حضرت علامہ کے رفیقہ حیات کی رحلت پر تعزیت کے لئے صلاح الدین سلجوقیؔ نہ صرف خود اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے بلکہ شاہ افغانستان ظاہر شاہ کا پیغام بھی پہنچایا تھا۔ ملاحظہ ہو اقبال کا مکتوب بنام سید راس مسعود محررہ ۱۵ جون ۱۹۳۵ء از لاہور میں اس ملاقات کا تذکرہ:
“مجھے اس خط کا انتظار ہے جس کا ذکر میں نے اپنے گذشتہ خط میں کیا تھا۔ کل اعلیٰحضرت ظاہر شاہ کا تار اور تعزیتی خط آیا تھا۔ اور آج سردار صلاح الدین سلجوقیؔ اعلیٰحضرت کا زبانی پیغام لائے تھے۔ بہت حوصلہ افزا اور دل خوش کن پیغام تھا۔ لارڈلودین کا خط بھی لند ن سے آیا تھا وہ پوچھتے ہیں کہ’’اہوڈل لیکچر‘‘ کے لئے کب آوگے؟ اب بچوں کو چھوڑ کر کہاں جاسکتا ہوں”(۲۴)
افغان کونسل خانہ میں قیام اقبال افغانوں سے عقیدت اور اقبال سے صلاح الدین سلجوقیؔ کی انتہائی محبت ہی کے باعث ممکن تھا۔ سلجوقیؔ کا اصرار اقبال سے ان کی بے تکلفی کی غمازی کرتا ہے۔
ملاحظہ ہو مکتوبِ اقبال بنام سید نذیر نیازی محررہ ۱۹ فروری ۱۹۳۶ء از مقام لاہور:
۲۸ فروری یا یکم مارچ کو بھوپال کا قصد رکھتا ہوں جاتی دفعہ دہلی نہ ٹھہروں گا۔ انشاء اللہ واپسی پر کونسل خانے میں ایک آدھ روز قیام رہے گا کہ سردار صلاح الدین سلجوقیؔ اصرار کرتے ہیں(۲۵)
سر راس مسعود اور اقبال دیگر مراسم کے علاوہ سفرِ افغانستان کے دوان ہمرکاب بھی رہے تھے۔ موصوف کی وفات کے بعد سردار صلاح الدین سلجوقی ؔ کونسل جنرل افغانستان کی حیثیت سے شملہ میں تعینات تھے ۔ لیڈی مسعود کے نام تعزیتی تار سلجوقیؔ نے اقبال ہی کے ذریعے بھجوایا تھااقبال ۳۱ جولائی ۱۹۳۷ء کو لاہور سے ممنون حسن خان کے نام لکھتے ہیں
:صبح میں آپ کو لکھ چکا ہوں آج صبح سے دوپہر تک مرحوم کے جاننے والوں اور ان کے غائبانہ معترف تعزیت کے لئے آتے رہے راس مسعود کا رنج عالمگیر ہے یہ تار جو اس خط کے ساتھ بھیج رہاں ہوں سردارصلاح الدین سلجوقیؔ کونسل جنرل افغانستان مقیم شملہ کا ہے ۔ آپ یہ تار لیڈی مسعود اور مرحوم کی والدہ کو دکھادیں؛(۲۶)
اسی طرح یکم اگست ۱۹۳۷ء کو لیڈی مسعود کے نام مکتوب میں پھر اس تعزیتی تار کا تذکرہ کرتے ہیں:
:اس کے بعد ہزایکسلنسی سردار صلاح الدین سلجوقیؔ کونسل جنرل افغانستان مقیم شملہ کا تعزیتی تار بھی میرے نام آیا جس میں انہوں نے خواہش کی تھی کہ ان کا پیغامِ ہمدردی مرحوم کے اعزاء تک پہنچادیا جائے یہ تار بھی میں نے بھوپال ہی بھیج دیا تھا امید ہے کہ آپ تک پہنچ جائے گا(۲۷)
یہاں یہ اضافہ بھی کر دوں کہ سرراس مسعود کی وفات پر مجلہ کابل نے ان کے تصویر کے ساتھ ان کی ایک تعزیتی رپورٹ بھی شائع کی ہے جس میں حضرت علامہ کے ساتھ ان کے سفرِ افغانستان کا خصوصی ذکر کیا گیا ہے(۲۸)
حضرت علامہ کے فکر وفن سے متعلق مجھے سردار صلاح الدین سلجوقیؔ کی کوئی تحریر نہیں ملی۔ البتہ سید عبدالواحد علامہ سلجوقیؔ اور علامہ اقبال کے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے ایک نیا انکشاف کرتے ہیں کہ سردار صلاح الدین سلجوقیؔ نے علامہ اقبال کی شاعری اور پیغام پر کئی مقالات لکھے تھے۔ اور انہیں کتابی شکل دی تھی۔
سردار صلاح الدین جو پہلے دہلی اور بعد میں کراچی میں کئی برسوں تک افغانستان کے کونسل جنرل رہے ۔ علامہ اقبال کے بڑے گہرے دوست تھے۔علامہ جب کبھی بھی دہلی جاتے سردار صلاح الدین سلجوقیؔ کے ہاں قیام پذیر ہوتے۔ صلاح الدین نے علامہ کی شاعری اور پیغام پر کئی توضیحی مقالات سپردِقلم کئے جو اب کتابی روپ اختیار کرچکے ہیں۔ (۳۲)
مأخذات
(۱) اقبال ممدوح عالم ، ص۔ ۲۸۴۔
(۲) علامہ صلاح الدین سلجوقیؔ، ص۔ ۸۔
(۳) د افغانستان د ژور نالیزم مخ کشان، ص۔ ۲۱۹۔
(۴) آثار ہرات،جلد ۳، ص۔ ۱۴۴۔
(۵) مجلہ ’’کابل‘‘، فروری ۱۹۴۰ء ، ص۔ ۲۷۔
(۶) سیما ھا و آوارھا، ص۔ ۳۸۴۔
(۷) د افغانستان د ژور نالیزم مخکشان ص۔ ۲۲۰۔
(۸) ایضاً، ص۔ ۲۲۱۔
(۹) آریانا دائرۃ المعارف، جلد ۶، ص۔ ۴۶۸ تا ۴۶۹۔
(۱۰) دا فغانستان د ژور نالیزم مخکشان ص۔ ۲۲۲ تا ۲۲۶۔
(۱۱) آثار ہرات، جلد ۳، ص۔ ۱۴۹۔
(۱۲) اقبال کی صحبت میں، ص۔ ۳۲۔
(۱۳) روایات اقبال، ص۔ ۱۷۱۔
(۱۴) ایضاً، ص۔ ۱۷۱۔
(۱۵) خطوط اقبال، ص۔ ۲۰۴۔
(۱۶) اقبال کی صحبت میں، ص۔ ۲۶۷۔
(۱۷) اقبال کی صحبت میں، ص۔ ۳۷۷۔
(۱۸) اقبال کی صحبت میں ، ص۔ ۱۷۵۔
(۱۹) ایضاً، ص۔ ۱۷۰۔
(۲۰) سالنامہ کابل۱۳۱۳ھ ش ، ص۔ ۴۴۔
(۲۱) روح مکاتیب اقبال، ص۔ ۵۵۰۔
(۲۲) ایضاً، ص۔ ۵۴۶۔
(۲۳) ایضاً، ص۔ ۵۵۱۔
(۲۴) اقبال نامہ، جلد ۱، ص۔ ۳۶۴ تا ۳۶۵۔
(۲۵) روح مکاتیب اقبال، ص۔ ۵۹۶۔
(۲۶) اقبال نامہ،جلد ۱، ص۔ ۳۲۷ تا ۳۲۸۔
(۲۷) اقبال اور بھوپال، ص۔ ۶۴۳۔
(۲۸) مجلہ’’ کابل ‘‘، اگست ستمبر ۱۹۳۷ء ، ص۔ ۸۹ تا ۹۰۔
(۲۹) اقبال ممدوح عالم، ص۔ ۳۱۔