ملا پاوندہ جو افغان انگریز لڑائیوں کی قیادت خود کیا کرتے تھے علاقے میں انھیں ایک بزرگاور ولی اللہ جیسا تقدس اس کو حاصل تھا انہوں نے اپنے نام کی مہر پر ملا پاوندہ کندہ کرایا تھا
دنیا کے دیگر اقوام کے مقابلے میں
پختون کو اس لحاظ سے منفرد اور خوش قسمت واقع ہوئی ہے کہ ان کی قومی تاریخ ایسے بے شمار حریت پسندوں اور تاریخی شخصیات کے اعظیم کارناموں سے بھری ہوئی ہے جس کی مثال شائد کوئی دوسری قوم پیش نہیں کرسکے لیکن اتنی درخشاں تاریخ کے ملک پختون اپنے ماضی اور تاریخ کے بارے میں ہمیشہ بڑے غافل اور لاپروا ثابت ہوئے ہے یہی وجہ ہے کہ آج اتنی بڑی قوم میں کسی کو بھی اپنا ایک اعظیم مجاہد حریت پسند اور جنگ آزادی کا نامور سپورت ملا پاوندہ کا 103 ویں برسی یاد نہیں اور یہاں تک کہ اپنے علاقے وزیرستان اور اپنے قبیلے محسود کو بھی یاد نہیں ہوگا۔کہ 2 نو مبر 1913 اس مٹی کے ایسے فرزند نے داغ اجل لبیک کہا تھا جنہوں نے اپنی ساری عمر برطانوی سام راج کے اپنی قوم اور مٹی کی آزدای کے خلاف جنگ لڑی تھی اور اپنی بے مثال بہاری ذہانت اور قائدانہ صلاحیتوں کے ذرئعے فرنگی سام راج کو ہر محاذ پر عبرت ناک شکست سے دو چار کر رکھا۔
لیکن افسوس کہ آج خطے کے سیاسی مذہبی اور پختون قوم پرست جماعتوں اپنے اس عظیم محسن کے نام اور کارناموں پر منوں مٹی ڈال رکھی ہے ان کی زندگی اور جدوجہد سے آج کی نئی نسل بے خبر رکھاگیا ہے ویسے بھی ہمارے ملک میں جنگ آزادی کی تاریخ صرف ایک خاض دائرے میں قید ہوکر لکھی جاتی ہے جس میں ان کا اصل کرداروں کو اندر داخل نہیں ہونے دیا جاتا ہے ۔
ملا پاوندہ کی زندگی اور اصل کہانی سے واقف ہونے کے لیے ہر پختون اور تاریخی طلب عالم کو پشتون زبان کا معروف شاعر و ادیب اور مورخ لائق شاہ درپہ خیل کا لکھی ہوئی کتاب وزیرستان کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے جس سے استفادہ کیے بغیر ملا پاوندہ کی زندگی اور کارناموں سے واقفیت حاصل کرنا ناممکن ہے وزیرستان کی سنگلاخ پہاڑوں اور پتھریلی زمین سے پیدا ہونے والے عظیم حریت پسند ملاپاوندہ کا تعلق استونئی شاخ شاہ خیل علیزئی محسود سے تھا 1863ء کو بمقام مروبی میں پیدا ہونے والا شاہ وزیرستان کا اصل نام محی دین عرف ملاپیوندہ تھا اس نے اپنی ساری عمر خط و کتابت میں اور اس کے ساتھ جو مہر بنائی تھی اس پر ملا پیوندہ کا نام درج کرتا رہا ۔ وہ ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوۓ آٹھ سال کی عمر میں مذہبی تعلیم حاصل کیا یہ وہ زمانہ تھا کہ پورے برصیغر میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی تحریکیں زوروں پر تھیں جن کی بازگشت وزیرستان میں بھی سنائی دی جاتی تھی ملا پاوندہ جو پیدائشی طور پر حق گواور وطن پرستی کے مجسم پیکر تھے ان تحریکوں سےمتاثر ہوکر فرنگی سام راج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوۓ ۔1888ء میں وہ علاقہ داوڑ کے گاؤں عید کو آۓ ۔اور یہاں آباد ہوۓ گاؤں عید سے وزیروں اور داوڑوں کے لشکر تیار کرتے اور بنوں کے فوجی کیمپ پر حملے کرتے رہے انہی دونوں بنوں کی سنٹرل جیل کے ایک سپرمنٹنڈنٹ کو بھی قتل کیا گیا کچھ عرصے کے بعد وہ علاقہ محسود چلے گئے یہاں اپنے لیے ہجرہ اور مسجد اور اپنی طرف سے لنگر دینا بھی شروع کردیا 1893ء کو جب مولانا گلاب دین عرف وزیرملا “ فوت ہوۓ تو ملا پاوندہ دوبارہ علاقہ داوڑ آۓ اس دوران افغان حکمرران امیر عبدالرحمان اور انگریزوں کے درمیان ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ ہوا تو ملا پیوندہ نے اس معاہدے کی سخت مخلفت کی اور انگریزوں کے خلاف جہاد کا اعلان کردیا ۔اس غرض کے لیے لوگوں کو جنگ کی تربیت دیتے رہے اپنے مرکز شکائی اور مروبی میں بیٹھ کر مجاہدین وزیرستان کے دستے تیارکرتے رہے تاکہ اپنے ملک اور قوم کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلاسکے علاقہ وزیرستان میں اکتوبر 1893 ء تا نو مبر 1913 ء ان کی وفات تک جتنی بھی افغان انگریزوں لڑائیاں لڑی گئیں ہیں ان تمام لڑائیوں قیادت ملاپیوندہ خود کرتے رہے انہوں نے جگہ جگہ مجاہدین کے مزاکز قائم کیے اس لیے انگریزوں نے ان حملوں کی روک تھام کے لیے وانا میں فوجی کے لیے ایک مستقل چھاونی قائم کرنے کا بندونست شروع کردیا اور جس وقت کمشنر مسٹر بروس کو بریگیڈ ئیر جنرل اے ایچ ٹرنر کی زیر کمان وانا میں فوجی کیمپ قائم کرنے کے لیے فوج کی ایک بڑی تعداد دی گئ اور مسٹر بروس 13 نو مبر 1894 ء کو ڈیرہ اسماعیل خان سے وانا کی طرف روانہ ہوۓ تو راستے میں کرب کوٹ کے مقام پر اسے ملاپاوندہ کا ایک خط دیا گیا جس میں ملاپیوندہ نے واضح الفاظ میں لکھا تھا کہ اگر آپ اپنی جان کی خیرمانگتے ہو اور چاہتے ہوں کہ آپ کی فوج بھی موت کے منہ سے بچ جاۓ تو کان کھول کرسن لیں کہ وزیرستان پر قبضہ جمانے کا خیال اپنے دل سے نکال دیں ۔اور میرے جو پانچ مجاہدین آپ کی قید میں ہیں انہیں فی الفور رہا کردے جسے محسود قبیلہ کے نمبرداروں نے آپ حوالہ کیے ہیں لیکن مسٹر بروس اپنی فوجی طاقت کے نشے میں اس قدر بدمست ہوچکے تھے کہ انہوں نے ملا پیوندہ کے انتقام کی آگ پر جلتی پر تیل کا کام کیا اور جب 27 اکتوبر کو مسٹر بروس اور مسٹرگرانٹ اپنی فوج سمیت وانا پہنچے تو وہاں ایک بڑا فوجی کیمپ قائم کیا۔ تو ملا پاوندہ نے بھی حفظ ماتقدم کے طور پر پہلے حریت پسندوں کا ایک لشکر منظم کرکے تیار کر رکھا تھا جس میں وزیر محسود اور بنوچی اور بیٹنی داوڑ قبائل کے نوجوان شامل تھے ملاپاوندہ کا لشکر تین ہزار غازیوں پر مشتمل تھا 3 نومبر 1894 ء کو صبح کا ذب کے وقت غازیوں کا لشکر ڈول کی تھاپ پر اپنے قائدین ملاپاوندہ کی سربرہی میں ملاحمزاللہ اور ملا جگڑ غازی شیر علی خان موسی خان کی سربراہی میں چاروں طرف سے انگریزوں پر حملہ آور ہوا نعرہ تکبیر اور اللہ اکبر کہہ کر فوجی کیمپ پر ٹوٹ پڑا وزیروں کے دیوقامت نوجوان جوش آزادی سے سرشار دونوں ہاتھوں سے تلوار چلاتے رہے بندقیں چلتی رہیں اوردست بدست خونریز لڑائی لڑی گئ
۔لشکر میں تمام غازیوں نے ایسی جواں مردی دکھائی کہ انگریز سپاہیوں کے پاؤں لڑ کھڑا گۓ مجاہدین نے ہزاروں کی تعداد میں بندوقیں 150 گھوڑے اور خوراک کا ذخیرہ اپنے قبضے میں لیا ۔وانا کی اس جنگ میں 1763 انگریز سپاہی اور 23 منصب دار قتل ہوۓ ۔جس میں مشہور لیفٹیننٹ میکالے اور انجلو بھی قتل ہوۓ ۔جبکہ سرجن میجر ہیگ کپتان لانگ لیفٹیننٹ ہربرٹ لیفٹیننٹ ہارون بئی اور لیفٹیننٹ تامسین شدید زخمی ہوۓ ۔مسٹر بروس کے بقول ملاپیوندہ کے لشکر کے 205 افراد شہید اور 250 زخمی ہوۓ ان زخمیوں میں ملاپاوندہ کا دست راست مجاہد رہنماء ملا جگڑ بھی شامل تھا۔
وانا کی لڑ ائی کے بعد ملاپیوندہ نے غازیوں کا مرکز اپنے استاذ ملا حمزاللہ کے گاؤں شکائی مقرر کیا ۔جہاں سے دونوں حریت پسندرہنماؤں کی قیادت میں انگریزوں کے فوجی کیمپوں پر حملے کۓ جاتے تھے وانا کی لڑائی کے بعد مکین کی جنگ میں بھی ملا پیوندہ کی قیادت میں مجاہدین نے جوہر مردانگی دکھاتے ہوۓ 1087انگریزفوجی اور 16 منصب دار قتل کیے جب حریت پسندوں میں سے 435 نوجوان شہید ہوۓ ۔ملاپاوندہ کی جہادی سرگرمیوں اور ان کی پر کشش شخصیت کے بارے میں قیدیاغستان کے مصنف محمد اکرام لکھتے ہیں ۔کہ محسود قبیلہ میں ایک ملا پیوندہ نامی شخص نے بہت زیادہ اثر رسوخ پیدا کیا ہے ہزار لوگ ان کے معمولی اشارے پر اپنی جان دینے کو تیاررہتے ہیں ۔وہ کئ لڑائیاں لڑ چکے ہیں علاقہ میں انہیں ایک بزرگ اور والی اللہ جیسا تقدس حاصل ہے اور ان کے ہر حکم کی تعمیل کی جاتی ہے علاقے کے تمام لوگ جو مسلمان ہیں ملاپاوندہ کے آگے اپنا سر تسلیم خم کیے ہوۓ ہیں ان دونوں یہ خبرگرم ہوئی تھی ۔کہ ملا پاوندہ خوست میں تشریف لاۓ ہوۓ ہیں ۔
اور حاکم خوست سے جہاد کے متعلق عہدو پیماں ہورہے ہیں اچانک عین نصف شب کے وقت مئ 1910 ء کی بائیسویں تاریخ کو ملا پاوندہ کا ایک نامہ بر پہنچا اور ملا صاحب کی طرف سے فراریوں کو پیغام دیا کہ وہ اس وقت تیار ہو کر ان پاس چھاؤنی پہنچ جائیں سواۓ لالہ سندرلال کے تمام لوگ اٹھ کھٹرے ہوۓ اور جانے کی تیاری کرنے لگے عورتیں اٹھ بیٹھیں اور ان کے لمبے لمبے بالوں پر گھی لگادیا گیا چپلیاں جو کہ دھاڑا مارنے کے واسطے اکٹھی بنائی جاتی تھیں تو زیادہ کارتوس رکھنے والے نے اپنے دوسرے ساتھی کو دے دیۓ کمر دستار کے بندوں پر خوب کس بی گئیں آنکھوں میں سرمہ لگایا گیا تاکہ کہ دردوبینوں کا مقابلہ اتنی آنکھوں سے کرسکیں ۔
خنجر تیز کر لئے گۓ رائفلیں صاف کی گئیں اور ہر ہر لشکر اپنے اپنے رہنماء کے پیچھے گاؤں سے باہر نکال کر جمع ہوگۓ اور پروانوں کی طرح جنگ کی سلگتی ہوئی آگ میں کودگۓ اس کے علاوہ ملاپاوندہ اپنے ساتھیوں سمیت اس وقت کے افغان حکم ران امیر حبیب اللہ خان سے بھی ملے تھے اور ان سے بھی انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ میں مدد کر نے کا مطالبہ کیا تھا الغرض ملاپاوندہ حقیقی معنوں میں ایک قوم پرست اور وطن دوست مذہبی اور ایک بہت بڑے رہنماء تھے وہ ایک مثال مضبوط ارادے اور پر کشش شخصیت کے ملک بہت بڑے حریت پسند اور پختونوں کے قائد ہونے کے علاوہ وزیرستان کے باشندے انہیں اپنا ایک روحانی پیشوا بھی مانتے تھے وہ انگریزوں کے سخت ترین مخالفوں میں شمار ہوتے رہے اپنی موت 2 نو مبر 1913 سے چنددن پہلے انہوں نے بطور وصیت نامہ ایک خط لکھا تھا جو ان کی موت کے بعد ان کی قبر پر حاضر تمام چھوٹے بڑوں کے سامنے پڑھا گیا اور اس خط میں ملاپاوندہ نے اپنی قوم کو وصیت کی تھی کہ اپنی قومیت اور شناخت ہر حال میں برقرار رکھیں اور انگریزوں کو کسی بھی صورت میں اپنی سر زمین پر قدم رکھنے کا موقع نہ دیں اور آپس کے ختلافات کو ختم کرڈالیں اور ایک دوسرے کے خلاف اندرونی سازشوں سے باز رہیں تاکہ انگریزوں کو آپ کے سرزمین پر پیچے سے گاڑنے کا موقع نہ ملے کاش کہ آج ہمارے ملک کے حکم ران سیاسی و مذہبی جماعتوں کے جملہ قائدین ہماری فوج اور ایجنسیاں پختونوں کے اس حریت پسند اور انگریز مخالف قائد ملاپاوندہ کی وصیت کا پیش منظر کا ادراک کرتے ہوۓ وزیرستان یا دیگر قبائلی علاقوں کا معاشی تعلیمی پس مندگی ختم کرتے اور یہاں کے باشندوں کے مسائل حال کرنے کے لیے فی الفور سنجیدہ کوشش کریں متعلقہ علاقوں کے باشندوں کی اپنی روایات نفسیات ساخت اور اجتماعی مزاج مدنظر رکھانہ بولے
ورنہ
اب کا پانی کا جو ریلہ آۓ گا تم دیکھنا
سنگریزے چھوڑ
دے گا سپیاں لے جاۓ گا..