نواب آف کالا باغ میں بہت سی خوبیوں کے ساتھ ساتھ جاگیردارنہ رعونت کے مالک تھے ۔ ان کا ایڈمسٹریشن انتا کمال کا تھا کہ اس ریاست کا نظم و نسق ملکہ برطانیہ الزبتھ بھی مانتی تھیں ۔ انہوں نے ایک دفعہ کہا نواب امیر محمد کی ایڈمسٹریشن کا یہ عالم ہے کہ جنگل کے شیر بھی ان کی مانتا ہے ۔ لیکن اب شہر کے باسی اس ایڈمسٹریشن کے باغی ہوچکے ہیں ۔ ان کے جیتے جی کسی نے ان کے گھر سے جنازہ اٹھے ہوئے نہیں دیکھا تھا ۔ کیوں کہ نواب صاحب نے یہ تاثر دے رکھا تھا کہ موت آتے آتے ان کے گھر کی راہ بھول جاتی ہے ۔ نواب صاحب کی والدہ کا انتقال ہوا تو کالا باغ کے شہری نواب سے تعزیت کرنے گئے مگر کسی نے اظہار افسوس کی جرت نہیں کی ۔
ملک عطا محمد کے بعد جب نواب امیر محمد رئیس کالا باغ نامزد ہوئے تو چوری، ڈاکہ، زنا اور دیگر جرائم کے فیصلے بوہڑ والے بنگلے میں ہونے لگے ۔ قصبہ میں سیکڑوں مکان بیک قلم جنبش ملک امیر محمد کی ذاتی جائیداد قرار دے دیئے گئے ۔ تمام دوکاندار نواب کے کرایہ دار بنادیئے گئے ۔ شہر بازار میں کوئی شخص میں ذاتی مکان تعمیر نہیں کرسکتا تھا اور نہ ہی جائیداد کی خرید و فرخت کا مجاز تھا ۔ لوگ لاکھوں روپیہ رکھنے کے باوجود کالا باغ میں سرمایہ کاری نہیں کرسکتے تھے ۔ شادی بیاہ کے معاملات میں خاندانوں اور جانبین کی مرضی کے بجائے ملک امیر محمد کی اطلاع کے بغیر کوئی رشتہ مناکحت انجام نہیں پاسکتا تھا ۔ کالا باغ سے باہر کے لوگ عارضی یا مستقل طور پر مقیم نہیں رہ سکتے تھے ۔ اس کے لیے نواب سے اجازت ضروری تھی اور شہر کا کوئی باسی اپنے کسی رشتہ دار کو نواب کی اجازت کے بغیر مستقل رہائش پزیر نہیں کرسکتا تھا ۔ ۔ کالا باغ کے شہری زرعی اجناس شہر یا شہر کے باہر آزادانہ طور پر فروخت کرسکتے تھے ۔ اس کے لیے یہ اصول تھا پہلے نواب کی ملکیت زرعی اجناس فروخت ہوتی تھی اور اس کے بعد عام آدمیوں کی پیداوار غلہ منڈیوں اور سبزی منڈیوں کی راہ لیتی تھی ۔ کالا باغ کے کسی شہری کو کسی بھی حالت میں نواب کی ملکیت ٹرانسپورٹ کے علاوہ کوئی شہری ذاتی ٹرک یا بس خرید نہیں سکتا تھا ۔ یہاں باقیدہ انٹیلی جنس فورس کام کرتی تھی ۔ نواب آف کالا باغ کی زندگی میں کوئی سیاستدان اس شہر میں قدیم نہ جماسکا ۔ مقامی طور پر سیاسی جماعت سازی یا کسی سیاسی جماعت کی حمایت سنگین جرم تھا ۔ جنہوں نے سیاسی یا احتجاجی آواز بلند کرنے کی کوشش کی اس کی بھاری قیمت ادا کی ۔ جب بھٹو نے زرعی اصلاحات کا اعلان کیا تو ان کا بہت سا علاقہ زرعی اصلاحات کی زرد میں آگیا ۔ اینواں کے ہاریوں نے کہا کہ وہ زمین نہیں مانگتے مگر زمین کی پیداوار میں سے اپنا جائز حصہ مانگتے ہیں ۔ اس گستاخی پر 120 خاندانوں اینواں سے نکال کر ان کے گھروں پر ایک ہی رات میں بلڈوزر چلا دیا گیا ۔ یہ بے سہارا خاندان داؤد خیل کے ریلوے اسٹیشن پر مقیم ہوگئے اور ایک دن ریلوے لائن پر لیٹ کر ریلیں روک لیں ۔ ریاست کے قانون کے مطابق تعلیم ممنوع تھی ۔ ان کے علاقہ میں اسکول منظور ہوجاتا تو یہ فوراً منسوخ کرایتے تھے ۔ لوگ چوری چھپے اپنے بچوں کا تعلیم دیتے تھے ۔ اگر کوئی پکڑا جاتا تو اسے سزا ملتی تھی ۔ قاضی عبداللہ نے جدوجہد شروع کی تو ان کے بیس سالہ بھائی کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا ۔ اس کی پولیس میں رپوٹ تک درج نہیں ہوسکی ۔ نواب آف کالا باغ اگرچہ ایک بڑے جاگیردار تھے مگر دوسرے روایتی جاگیرداروں کی طرح انہیں شکار، پینے پلانے یہاں تک کہ سگریٹ تک نہیں پیتے تھے ۔ وہ ایک نمونہ تھے نوابی ٹھاٹھ بھاٹھ کا مگر ان کی نجی زندگی صاف سھتری تھی ۔ وہ گھوڑے پالتے بھیڑوں کے گلے رکھتے ڈیڑی فارم کے مویشی تھے اور اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کرتے ۔
وہ شلوار قمیض اچکن اور پگڑی استعمال کرتے اور ان کے بیٹے بھی یہی لباس پہنتے تھے ۔ وہ ایک قبیلے کے سرادر کی طرح تھے اور ان کا ہر لفظ ایک قانون تھا ۔ ان کے دور گورنری میں میانوالی میں قتل و غارت کا بازار گرم رہا، انہوں نے سیاسی مخالفین کو ابھر نے نہیں دیا انہیں دبایا جو دبائے جا نہیں سکے انہیں مرات دے کر قابو میں کر لیا ۔ نواب آف کالا باغ جاگیرادری نظام کے حامی تھے اور انہوں نے ہاریوں میں زمین کی تقسیم کی مخالفت کی ۔ جب نواب آف کالا باغ کی بیگمات بازار سے گزرتی تھیں تو یہ حکم جاری ہوتا تھا کہ بازار کی بتیان گل کردی جائیں ۔ اس کے بعد مسلح آدمی آتے اور جو مرد گزرگاہ میں مل جاتا اس کی ہنٹروں سے پٹائی کی جاتی تھی ۔ ان کی زندگی میں یہ شہر ان کی ریاست بنا رہا
نواب امیر محمد خان کالا باغ کبھی اسمبلیوں کی سیاست سے دلچسپی نہیں رہی ۔ انہوں نے 1946ء کے الیکشن میں یونسٹ پارٹی کے مقابلے میں مسلم لیگی امیدوار مولانا عبدالستار خان نیازی کی حمایت کی ۔ انہوں نے مسلم لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا مگر انہیں ڈھرے بندیوں اور جوڑ ٹور میں حصہ نہیں لیا ۔ ان کے پر وقار طریقہ کی وجہ سے انہیں کئی دفعہ گورنری کی پیش کش ہوئی مگر انہوں نے معذرت کرلی ۔ ایوب خان نے جب مارشل لاء نافذ کیا تو انہوں نے چاہا کہ نواب آف کالا باغ کو کابینہ میں شامل کرلیں اور ان سے کئی دفعہ رابطہ کیا مگر نواب کالا باغ نے ہر دفعہ انکار کردیا ۔ جب ایوب خان نے انکار کی وجہ پوچھی تو نواب آف کالا باغ نے جواب دیا کہ کیا میں دو دو ٹکے کے ارکان اسمبلی کا ایوان میں سوالوں کا جواب دوں گا ۔ پھر ایوب خان کی پیش کش قبول کرتے ہوئے گورنر بننا قبول کیا ۔ نواب آف کالا باغ کسی قسم کی بد انتظامی پسند نہیں کرتے تھے ۔ وہ گورنری کے دوران کراچی سے لاہور پہنچے تو ایک افسر نے کہا آپ راستہ بدل لیں تو بہتر ہوگا ۔ راستہ میں طلبا کی ایک ٹولی ہنگامہ کرنے والی ہے ۔ نواب آف کالا باغ نے ایک نظر اسے دیکھا اور دبدے سے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں ۔ اگر طلبا کی ٹولی ہنگامہ کرنے والی ہے تو آپ کا یہاں کیا کام ۔ اگر ڈیوٹی افسر پر متعین افسر اس ہنگامہ کو روک نہیں سکیں تو خود فارغ سمجھیں ۔ نواب کالا باغ اسی راستہ سے گئے ۔ انہوں نے اسی افسر کو وارنگ دیتے ہوئے کہا پولس خود کو عوام کا خادم سمجھے تو حالات بگڑنے کی نوبت نہیں آتی ۔ کشمنر قلات کے گھر چوری ہوئی تو نواب آف کالا باغ غصہ سے لال پیلے ہوگئے اور انہوں نے متعلقہ ڈپٹی کشمنر کو معطل کر دیا ۔ ان کے نزدیک جو دویژن کا حاکم وہ اپنے گھر کی حفاظت نہیں کرسکتا ہے تو وہ عام لوگوں کے گھر کی حفاظت کیسے کرسکتا ہے ۔ وہ سیاست دانوں کو بھی نہیں چھوڑتے تھے ۔ ان کے دور میں شیخ مسعود صادق وزیر تھے ۔ جب وہ راولپنڈی کے دورے پر گئے تو کنونشن مسلم لیگ کے کارکنوں نے مقامی انتظامیہ کے روئیہ کی کی شکایت کی ۔ شیخ مسعود صادق نے نے نوٹس لیا اور متعلقہ افسروں کو ریسٹ ہاؤس طلب کیا انہیں تنبیہ کے ساتھ دانٹا بھی ۔ نواب آف کالا باغ کو اطلاع ملی کے سیاسی کارکنون کا روئیہ غیر مناسب تھا، انہوں نے شیخ مسعود صادق کو ڈانٹتا کہ آپ سرکاری پارٹی کے ممبر ہیں ۔ آپ پارٹی سے زیادہ خدا کے سامنے جوابدہ ہیں اور انہوں نے سرکاری افسروں سے کہا کہ آپ کسی کارکن کا ناجائز کام مت کریں اور نہیں ہیں انہیں اپنے دفتروں میں گھسنے کی اجازت دیں ۔ ان کے دور میں کسی اعلیٰ شخصیت کو اجازت تھی کہ وہ سرکاری رہاہش گاہوں پر شراب، رقص و سرور کی محفل سجائیں ۔ انہوں نے ایک مرکزی وزیر کا سرکاری رہاہش گاہوں میں داخلہ بند کر رکھا تھا ۔ یہ ان کی سیرت کے ایسے رخ ہیں جو ایک دوسرے کے بالکل مخالف ہیں —– جب نواب آف کالا باغ گورنری سے الگ ہوئے تو میانوالی کا نظام اسی طرح قائم رکھا ۔ بعد ازاں جو نواب امیر محمد کو پر اسرار طور پر قتل کردیا گیا تو قتل کے بعد کچھ آدمیوں نے ان کی لاش بیٹوں کی اجازت سے اسپتال پہنچائی اور گنتی کے آدمیوں نے جنازہ پڑھا ۔ اس قتل کا الزام ان کے بیٹے پر لگا جو بعد ازاں بری ہوگئے ۔