“نوروز” پشتو زبان کی ترکیب ہے۔ “نو” کے معنی نیا، اور “روز” کے معنی دن کے ہیں، یعنی سال کا نیا دن۔
شمسی سال کا پہلا دن “نو روز” کہلاتا ہے۔ عیسوی سال میں یہ دن 21 مارچ کو منایا جاتا ہے۔ پشتو زبان کی لغت “پشتو، پشتو تشریحی قاموس” میں اس کو یوں بیان کیاگیا ہے:
نو روز (NAWROZ) (نر، م)
1۔ د نمریز کال لومڑی ورز، د حمل لومڑی روز.
2۔ د نوروز جشن۔
پرانے زمانہ سے اس جہاں میں ربِ کائنات نے چار موسم رکھے ہیں۔ سال کے بارہ مہینوں میں ہر موسم کے لیے چارہ ماہ مختص ہیں۔ موسموں کی یہ ترتیب کچھ یوں ہے۔ سال کا پہلا موسم “بہار”، دوم “سرما”، سوم “خزاں” اور چہارم موسمِ گرما۔
“نوروز” کے حوالے سے تاریخی کتابوں سے اگر گرد اُڑائی جائے، تو اس کی خبر کچھ یوں ملتی ہے کہ زمانۂ زرتُشت کے اریانہ (موجودہ ایران اور افغانستان) دور سے نوروز منانے کا رواج شروع ہوا ہے۔ تاریخ دان اس کے حوالے سے کچھ یوں رقم طراز ہیں: “جب اریانہ پر موسمِ سرما میں شدید برف باری ہوجایا کرتی تھی، تو اس سے انسانوں کے ساتھ ساتھ حیوانات کی زندگی بھی خطرے میں پڑ جاتی تھی۔ موسمِ سرما کے یہ دن یہاں کے جانداروں کے لیے بڑے کٹھن ہوتے تھے۔ اریانہ کے باسی موسمِ سرما کے لیے اشیائے خور و نوش ذخیرہ کرتے تھے، تاکہ انہیں بوقتِ ضرورت استعمال میں لایا جا سکے۔ موسمِ سرما کے اختتام پر جب بہار کا موسم شروع ہوتا، تو یہ انسانوں کے ساتھ ساتھ حیوانوں کے لیے بھی خوشی کا باعث بنتا تھا۔ اریانہ کے لوگ سردیوں کے گزرنے اور نئے موسم کی آمد پر خوشی مناتے تھے۔ یہ میلے سال کے پہلے دن منعقد کیے جاتے تھے۔ سردی کا موسم گزرنے کے سبب یہ دن اریانہ میں عید کی حیثیت رکھتا تھا۔”
اریانہ میں کھیتی باڑی کا رواج زرتُشت کے دور میں پڑگیا تھا۔ کاشت کاری کی مدد سے اریانہ کے لوگوں نے دولت کمائی اور مال دار ہوئے۔ اس بنا پر پشتون اس کو “کسانوں کے دن” کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔ کسان “نوروز” سے اپنے کھیتوں میں خوشی خوشی فصل بوتے اور کاشت کاری کے کاموں کا آغاز کرتے تھے۔ یوں شمسی سال کا یہ پہلا دن “نوروز” کے نام سے شہرت پا گیا اور آج پوری دنیا میں اسی نام سے جانا جاتا ہے۔ پشتو زبان میں یہ دن “کسانوں کے دن” کے نام سے بھی مشہور ہے۔ مذہبِ اسلام کی آمد کے بعد پشتونوں کے لیے یہ تہوار مذہبی عقیدت کی بنا پر “عیدین” میں تبدیل ہوگیا۔ بعض تنگ نظر مذہب پرستوں نے اس جشن پر مکمل پابندی عائد کی ہے۔ حالاں کہ اس کا ہمارے مقدس مذہب سے کوئی سروکار نہیں۔ اسی بنا پر “نوروز” کے جشن اور میلے اب بہت کم منائے جاتے ہیں۔ بعض علاقوں میں تو اب بالکل ہی ختم ہوگئے ہیں۔
اریانہ میں “جشنِ نوروز” منانے کا اصل مقصد سردیوں کے برفیلے دن گزرنے کے باعث ہوتا تھا۔ آج بھی یہ چین، ایران اور عراق میں “نوروز” کے نام سے 21 مارچ کو منایا جاتا ہے۔ یہ ہر طرح سے افغان پشتونوں کا دن ہے، لیکن آج یہ ان علاقوں اور ملکوں کا مشترکہ جشن ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ “نوروز” ایک پرانا اور تاریخی جشن ہے۔ زرتُشت کے دور میں اس کی تمام کامیابیوں پر جشن منانے کا دن نوروز ہی ہوتا تھا۔ “نوروز” پشتو زبان میں تہذیب و ثقافت کا تعین کرتا ہے۔ بہار کو انسانوں کے ساتھ ساتھ حیوانات اور چرند و پرند چہک چہک کر خوش آمدید کہتے ہیں۔ پشتو زبان کے معروف شاعر رحمانؔ بابا بہار کی آمد کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ:
بلبلان پسی نعری وہی رحمانہؔ
د بہار گلونہ نوی دی کہ نہ دی
جغرافیائی طور پر افغانستان کا شمار سرد علاقوں میں ہوتا ہے۔ یہاں پر موسمِ سرما میں سخت برف باری پڑتی ہے، جس سے معمولاتِ زندگی رُک جاتے ہیں۔ موسمِ سرما میں برف باری کے سبب افغانستان کے باسی ہجرت کرنے پر مجبور ہو کر اپنا مسکن پشاور کو بنا لیتے تھے، جب کہ موسمِ گرما میں واپس افغانستان لوٹ آتے تھے۔
پشتو زبان کے ڈھیر سارے شعرا نے موسمِ بہار کو اپنے کلام کا حصہ بنایا ہے، مگر میں یہاں پر خوشحال بابا کی ایک نظم قارئین کی نذر کرنا چاہوں گا۔
(دہ پسرلی نندارہ)
د نو روز منت پہ باغ دی پہ صحرا ہم
نورانی ئی شی لہ فیضہ ھغہ، دا ہم
چی پہ باغ کی رنگا رنگ گلونہ واشی
غنیمت دہ د گلونہ تماشا ھم
لخلخی د نوبہار پہ ہرمشام زی
گلدستی ئی سنڈوی پیر و برنا ھم
(نظم کافی طویل ہے، یہاں چند مصرعے دیے جاتے ہیں)
آج اگر ہم زرتُشت کے زیرِ محکوم علاقوں کی حالت دیکھیں، تو یہ دور تاریخ کا سیاہ دور کہلائے گا۔ موجودہ عالمی طاقتیں اپنے فائدے کے لیے ان علاقوں میں جو مہلک ہتھیار استعمال کر رہی ہیں، اس کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ پشتو مثل کے مصداق “ہاتھیوں کی اس جنگ میں نقصان فصل کا ہی ہو رہا ہے”، یعنی اس میں معصوم انسانوں کا خون بے دریغ بہایا جا رہا ہے۔ یہ سب قتلِ عام زرتُشت کے اُس پُرامن سرزمین پر ہو رہا ہے، جہاں پر امن و استحکام کی آب یاری کی ابتدا کی گئی تھی۔ اب بیسویں صدی عیسوی میں فخرِ افغان “باچاخان بابا” اور ان کے ساتھیوں نے کی ہے اور کرتے آ رہے ہیں، مگر ابھی تک یہ علاقے ظلم کے اندھیروں میں پڑے ہوئے ہیں۔ تاریخ کے سیاہ دور سے گزرنے والے ان علاقوں کے شعرا آج بھی بہار یعنی “نوروز” کے نغمے لکھتے اور گنگناتے دکھائی دیتے ہیں۔ جدید شعرا میں سعود بنگشؔ “نوروز” کو نظم کی لڑی میں کچھ یوں پروتے ہیں کہ:
(نو روز تہ)
ستڑی مہ شہ توغندیو کی نو روزہ
خدائی دی راولہ مرمیوہ کی نوروزہ
خو زختونہ نساگانی کڑہ راجوڑی
دَ ربابو پہ زونڈیو کی نوروزہ!
بلبلان زان سرہ راوڑہ گلستان شہ!
د بارودو پہ لوگیو کی نوروزہ!
دا پیریان او دا دیوان لہ منزہ یو سہ!
پہ گودر د خاپیریو کی نوروزہ!
بیا سرشار مست خمارونہ راژندی کڑہ
د تیراہ بنگو پٹیو کی نوروزہ!
د بمونو پر زائے کیگدہ سرہ گلونہ
د خوشحال ابدال پگڑیو کی نوروزہ
جاتے جاتے استاد غفور لیوالؔ کے “نوروز” کے حوالہ سے یہ اشعار نذرِ قارئین ہیں:
لہ بامی بلخہ راپاسہ، د نوروز د بہار بادہ
پسرلی د عشق راجوڑ کڑہ، لہ زڑاہ اُم البلادہ
د ھیلمند مستہ سپہ شہ، پر لرغونی سیستان واوڑہ
دہ کابل ارغوان شکل کڑہ، دہ باگرام ہوا کڑہ خادہ
(پشتو مجلہ “پختون” مارچ 2019ء سے “محمد صادق ژڑک” کے تحقیقی مضمون کا ترجمہ)