دنیا کی دیگر اقوام کے مقابلے میں پختون قوم اس لحاظ سے منفرد اور خوش قسمت واقع ہوئی ہے کہ ان کی قومی تاریخ ایسے بے شمار حریت پسندوں اور تاریخی شخصیات کے عظیم کارناموں سے بھری ہوئی ہے، جس کی مثال شاید کوئی دوسری قوم پیش نہ کرسکے لیکن اتنی درخشاں تاریخ کے باوجود پختون اپنے ماضی اور تاریخ کے بارے میں ہمیشہ بڑے غافل اور لاپروا ثابت ہوئے ہیں۔
ملا پیوندہ، جنہوں نے اپنی ساری عمر برطانوی سامراج سے آزادی کے لیے جنگ لڑی اور اپنی بے مثال بہادری، ذہانت اور قائدانہ صلاحیتوں کے ذریعے فرنگی سامراج کو ہر محاذ پر شکست سے دو چار کر رکھا، بھی ایسی ہی ایک شخصیت ہیں، جن کی زندگی اور جدوجہد سے آج کی نئی نسل بے خبر ہے۔
جنونی وزیرستان کی وادی مکین میں ملا پیوندہ کے مقبرے پر آئے امین شاہ نے بتایا کہ ملا پیوندہ 1863 میں جنوبی وزیرستان کی خوبصورت وادی مکین کے ایک چھوٹے سے گاؤں مروبی میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محی الدین تھا۔ پیوندہ ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنتے تھے، جو پشون قوم کا پرانا کلچر تھا، اس لیے ملا پیوندہ کے نام سے مشہور ہوئے۔
وہ محسود قبیلے کے ذیلی قبیلے شاہ بی خیل کی شاخ سلطانائی سے تعلق رکھتے تھے۔ 12 سال کی عمر میں دینی علوم کے حصول کے لیے وہ بنوں چلے گئے اور وہاں زمانہ طالب علمی سے ہی انہوں نے ایک گروہ بنایا جو رات کو انگریزوں کے خلاف سرگرمیوں میں مصروف ہوتا تھا۔
امین شاہ نے بتایا کہ اس دوران ان کے دو ساتھی گرفتار کیے گئے، جس کے بعد پیوندہ نے جیل کے داروغہ اللہ باد کو رات کے وقت ان کے گھر میں قتل کردیا اور خود کربوغہ شریف میں مولوی انور شاہ کے پاس چلے گئے۔ صبح ایک طرف جب انگریز فوج کے سپاہی انہیں پکڑنے کی عرض سے مدرسے میں آئے اور معلومات کیں تو وہ مدرسے میں چونکہ پیوندہ کے نام سے مشہور تھے اور ان کا اصل نام محی الدین کسی بچے کو یاد نہیں تھا، لہذا سب نے پیوندہ کا نام بتایا۔ ان کے خلاف وارنٹس بھی پیوندہ کے نام سے جاری ہوئے، تب سے وہ ملا پیوندہ کے نام سے مشہور ہوئے۔
ایک دن مولوی کو کسی نے اطلاع دی کہ دوآبہ کے پہاڑ پر انگریز سپاہیوں نے چیک پوسٹ بنائی ہے، جس پر مولوی انور شاہ بہت برہم ہوئے۔ اس دوران ملا پیوندہ، جو ان کے ساتھ ہی موجود تھے، دوسرے دن اپنے استاد سے اجازت مانگ کر سپاہیوں کے پہنچنے سے پہلے ہی پہاڑی مورچے میں جاکر بیٹھ گئے اور جب سپاہی مورچے کے قریب آئے تو انہیں حملہ کرکے دونوں کو ہلاک کردیا اور ان کی بندوقیں اٹھا کر اپنے استاد کے پاس چلے آئے۔ اس پر مولوی انور شاہ نے انہیں دونوں بندوقیں دے کر کہا کہ ’مانگو کیا مانگتے ہو؟‘ ملا پیوندہ نے کہا: ’انگريز سے آزادی اور بادشاہی،‘ جس پر مولوی انور شاہ انہیں وزیرستان ہجرت کرنے کی ہدایت کی۔
امین شاہ کے مطابق یہاں آکر انہوں نے تحریک شروع کی اور انگریز سامراج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ 1888 میں وہ علاقہ داوڑ کے گاؤں عیدک آئے اور یہاں آباد ہوگئے۔ گاؤں عیدک سے وہ وزیروں اور داوڑوں کے لشکر تیار کرتے اور بنوں کے فوجی کیمپ پر حملے کرتے رہے۔ کچھ عرصے کے بعد وہ علاقہ محسود چلے گئے اور یہاں اپنے لیے ہجرہ قائم کیا اور مسجد اور اپنی طرف سے لنگر دینا بھی شروع کردیا۔ 1893 میں جب مولانا گلاب دین عرف وزیر ملا فوت ہوئے تو ملا پیوندہ دوبارہ علاقہ داوڑ آئے۔ اس دوران افغان حکمران امیر عبدالرحمٰن اور انگریزوں کے درمیان ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ ہوا تو ملا پیوندہ نے اس معاہدے کی سخت مخالفت کی اور انگریزوں کے خلاف جہاد کا اعلان کردیا۔
اس غرض کے لیے وہ لوگوں کو جنگ کی تربیت دیتے رہےاور اپنے مرکز شکائی اور مروبی میں بیٹھ کر مجاہدینِ وزیرستان کے دستے تیار کرتے رہے تاکہ اپنے ملک اور قوم کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلاسکیں۔ وزیرستان میں اکتوبر 1893 تا نومبر 1913 میں ان کی وفات تک انگریزوں کے خلاف جتنی بھی لڑائیاں لڑی گئیں، ان تمام کی قیادت ملاپیوندہ خود کرتے رہے۔ انہوں نے جگہ جگہ مجاہدین کے مراکز قائم کیے اور بطور وصیت نامہ ایک خط تحریر کیا، جو ان کی موت کے بعد ان کی قبر پر حاضر تمام چھوٹے بڑوں کے سامنے پڑھا گیا۔ اس خط میں ملا پیوندہ نے اپنی قوم کو وصیت کی تھی کہ اپنی قومیت اور شناخت ہر حال میں برقرار رکھیں اور انگریزوں کو کسی بھی صورت میں اپنی سر زمین پر قدم رکھنے کا موقع نہ دیں۔ آپس کے اختلافات کو ختم کر ڈالیں اور ایک دوسرے کے خلاف اندرونی سازشوں سے باز رہیں تاکہ انگریزوں کو آپ کی سرزمین پر پنچے گاڑنے کا موقع نہ ملے۔
ملا پیوندہ کے تیسرے جانشین شہزادہ وجہہ الدین نے قبائلی اضلاع خاص کر وزیرستان کی خواتین کے حقوق کے لیے بھی بہت اچھے اقدامات کیے تھے۔ وزیرستان میں اس وقت خواتین کے ساتھ ان کے حقوق کے حوالے سے زیادتی ہوتی تو شہزادہ وجہہ الدین کے پاس وہ خواتین آتیں اور مدد طلب کرتیں۔ شہزادہ وجہہ الدین نے ایسی خواتین کے لیے ایک الگ دارالامان بنایا تھا جہاں ایسی خواتین کو پناہ دی جاتی تھی، جو گھر کے ظلم وستم سے تنگ ہوکر یہاں کا رخ کرتی تھیں۔ یہاں پر ان خواتین کے سسرال اور میکے دونوں طرف سے مذاکرات کیے جاتے اور مسئلے کا حل نکالا جاتا تھا اور اگر مذاکرات کامیاب نہ ہوتے یا خاتون گھر جانے سے کتراتیں تو ایسی خواتین بھی تھیں جن کی ساری زندگی اسی دارالامان میں گزر جاتی تھی۔