پرانی طرز کی یہ مشین انگریزی میں’’واٹر مِل‘‘ (Water Mill)، ہندی میں ’’پن چکی‘‘ اور پشتو میں ’’ژرندہ‘‘ کہلاتی ہے۔ ہمارے علاقے میں جہاں جہاں نہر یا ندی کا پانی ایک ڈھلانی سطح سے گرتا ہے، وہاں پتھر، لکڑی اور گارے کی دو منزلہ کوٹھڑی ضرور ہوتی ہے، جس میں نہر اور پانی کے حجم کے مطابق دو، تین یا پا نچ چکیاں ہوتی ہیں۔ پچھواڑے میں نہر کی بائیں یا دائیں طرف پن چور خانہ ہوتا ہے جو پن چکی بند ہونے کی صورت میں کھلا رہتا ہے، جس میں پن چکی کا مُڑا ہوا پانی رُخ بدل کر دوسری نالی میں گر جاتا ہے۔ اُس وقت پن چوروں سے چکیوں کے ترناؤ بند کیے جاتے ہیں۔ جب چکی کو چلانا ہو، تو پن چورے اٹھانا پڑتے ہیں اور پانی خود بخود ناب دان (پشتو میں ناوہ) میں گر جا تا ہے۔ جو چرخ کے چکر گھومنے کے بعد اگواڑے میں سفید بُلبلے بناتا ہوا آگے چلا جاتا ہے۔ کوٹھڑی کے اندر غلے اور آٹے کی بوریوں کا انبار لگا ہوتا ہے۔ ہر شخص کو اپنی باری کا انتطار کرنا پڑتا ہے۔ باری آنے پر بوری کا غلہ پیمانہ کیا جاتا ہے۔ بیسواں حصہ ایک الگ خانے میں رکھا جاتا ہے، پیمانہ ایک جام نما برتن (ووگے) اور پھکنی کی طرح گول ڈبیاں (چونگ) سے کیا جاتا ہے۔
اس مشنری کا ایک ہی ماہر چکی راہا ’’آہن گر‘‘ ہوتا ہے، جس کے ذمہ چکی کے تکنیکی کاموں کے علاوہ نہر پر بند باندھنا، چکی کے رگڑے ہوئے پاٹوں کی گھسی پٹی سطح کو ہتھوڑوں سے کھردرا کرنا اور چکی کا ایک پل خرید کر لگانا وغیرہ ہوتے ہیں۔ پن چکی کی رکھوالی کرنے کے لیے ایک دہقان بھی ہوتا ہے، جو چکی کی ’’مزد‘‘ گھر میں جمع کرتا ہے، جو پن چکی میں ضرورت کے وقت مختلف کام کرتا ہے اور کبھی کبھار فی بوری کے حساب سے اجرت لے کر دوسروں کا غلہ پیستا ہے۔ مزد کے جمع شدہ غلے کا پانچواں حصہ اس کو ملتا ہے۔ باقی غلہ دو برابر حصوں میں پن چکی کے مالک اور آہن گر میں تقسیم ہوتا ہے۔
پن چکی میں گندم، جو اور چاول، مکئی یا گندم ملا کر (پشتو میں ’’وڑئی‘‘) پیسا جاتا ہے۔ اس طرح مختلف غلوں سے جانوروں کے لیے خوراک بھی یہاں تیار کی جاتی ہے۔ خالص مکئی کے لیے البتہ گرم پن چکی ہوتی ہے، جو عام پن چکی کے مقابلے میں زیادہ پانی، پلوں کی موٹائی اور “ناوے” کی لمبائی کے حساب سے مختلف ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں دونوں پاٹوں کے نیچے کھوکھلی لکڑی جو روئی سے بھری ہوتی ہے، لگائی جاتی ہے۔ اس طرح دونوں پلوں کے بیچ میں خلا بھی رکھا جاتا ہے، جس میں گرمائش سے گیس پیدا ہوتی ہے اور مکئی کے دانے پیسنے سے پہلے پک جاتے ہیں۔ اس عمل سے آٹے کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔
زرعی معاشرے میں پن چکی کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ پرانی زراعت کی یہ اہم ٹیکنالوجی ریاستِ سوات کی زرخیزی میں تقریباً ہر پہاڑی ندی اور میدانی نہر پر قائم تھی۔ کہتے ہیں کہ پرانے سواتی اس فن میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے، جس کا ثبوت یقیناً اُن خاندانی آہن گروں کی مہارت ہے، جن کی اکثریت پرانے سواتی ہیں۔
پہاڑی پن چکیاں اکثر موسمی ہوتی ہیں جب کہ نہری پن چکیاں پورا سال چلتی ہیں۔ اگلے وقتوں میں بعض پن چکیوں کو پیداواری صلاحیت کی بنا پر بہت اہمیت حاصل ہوتی تھی۔ محمد نذیر اس حوالہ سے کہتے ہیں کہ سرگند خان کی پن چکیوں سے روزانہ دو من ’’مزد‘‘ حاصل کی جاتی تھی۔ تب ہی تو پن چکی ایک روپے دفتری زمین کے برابر تصور کی جاتی تھی۔ اس اہمیت کے پیشِ نظر بعض آہن گر پٹے پر پن چکی مالکوں سے حاصل کرتے تھے، یا وہ کسی مقام پر سخت محنت کے بعد چکی بناتے تھے جس کے عوض میں وہ لمبے عرصے کے لیے متعلقہ پن چکی کی آمدنی لیتے تھے۔
درشخیلہ (سوات) کے حضرت منیر عرف جانان کا اس حوالہ سے کہنا ہے: ’’ہم نے چار پن چکیاں تعمیر کیں اور چالیس سال استعمال کرنے کے بعد دو خریدیں اور دو رہن رکھیں۔‘‘
درشخیلہ ہی کے عبدالرزاق عرف بازدا کہتے ہیں: ’’ایک قسم کی پن چکی پلو (محلہ یا برادری) کی ملکیت ہوتی تھی۔‘‘ کتاب “سوات سماجی جغرافیہ” سے اس بات کی تصدیق ہو تی ہے۔ مثلاً: ’’پن چکی کی ایک قسم ’’ٹل‘‘ کی مشترکہ پن چکی تھی جو ایک مخصوص کمیونٹی کی ملکیت ہوتی تھی، جہاں پن چکی چلانے والا گھر گھر سے غلہ اِکھٹا کرتا اور اُس کی خدمت کے عوض دیا جاتا۔‘‘
کوچی تقسیم اور ما بعد کے زمانے میں کسی گاؤں کی اہمیت دیگر کئی خوبیوں کے ساتھ ساتھ وہاں موجود پن چکیوں کی سہولت پر منحصر تھی جیسے دریا کے کنارے والے گاؤں، اس حوالے سے درشخیلہ اس کا گڑھ تھا جہاں فقط دریا کے کنارے پچاس سے زیادہ پن چکیاں تھیں۔ میاں جلندر، شمعون، عبدالودود، عبدالاحد، فضل رحیم، سید محمود، شاہ جان، جہان زیب، حسام الدین، زیارت گل، سید خان، محمد عالم خان، عبد الحکیم عرف سور حکیم، سینپوڑے میاگان، عبدالجبار وغیرہ پن چکیوں کے مالک تھے۔ جب کہ انظر گل ، شیرین، تانئی صاحب، نصیب جان، انظر ملنگ، وزیر گل، محمد گل وغیرہ آہن گر تھے۔ دہقانوں کی تعداد بھی کسی حوالے سے کم نہ تھی۔ دیہاتی زندگی میں اس مؤثر ثقافتی جز کا زبان و ادب پر اثر انداز ہونا لازم تھا۔ اس سے متعلق پشتو زبان میں کہاوتیں مشہور ہیں مثلاً ’’ژرندہ کہ دپلار دہ خو پہ وار دہ‘‘، ’’سہ ژرندہ پسہ او سہ دانی لمدے وے‘‘، ’’چی سہ رنگ ژرندہ وی اغہ رنگ ئے دوڑہ وی‘‘ وغیرہ۔
پن چکی کی اِفادیت میں کمی آج کل کے بدلے ہوئے حالات اور جدید سہولیات کی وجہ سے آئی۔ رہی سہی کسر 2010ء سیلاب نے پوری کی۔ اس حوالہ سے جانا ن کہتے ہیں: ’’ مجھے یاد ہے 35 پن چکیاں ایک سیلاب کی نذر ہوئیں۔‘‘ جب کہ تقریباً 20 کی تباہی کا نظارہ تو راقم بذاتِ خود کر چکا ہے۔ اب تو پورے گاؤں (درشخیلہ) میں چھے پن چکیاں رہ گئی ہیں۔ یہ بھی اگر سیلابوں سے بچ جائیں، تو زمانے کی رفتار کا مقابلہ نہیں کر پا ئیں گی۔ اس لیے چند سال کے مہمان معلوم ہوتی ہیں۔ کیوں کہ لوگ تیار آٹا کھانے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ان کے پاس اتنا وقت کہاں ہے؟ لیکن پن چکی کی تاریخی اہمیت سے آج بھی انکار ممکن نہیں۔