دوسری قسط
اس پروگرام کے مطابق 10مئی1838ء کو میک نیگٹن کو آک لینڈ کے ملٹری سیکرٹری ولیم آسبورن کے ہمراہ لاہور روانہ کر دیا گیا۔ یہ مہا راجا کے لیے فراخدلانہ قیمتی تحائف ساتھ لے کر گئے جن میں ایک اعلیٰ درجے کی تلوار، دو اعلیٰ انگریزی نسل کے گھوڑے، دو عمدہ پستول اور مہاراجا کی بلا نوشی کے مدِنظر شراب سے لدے ہوئے کئی اونٹ شامل تھے۔ راستے میں پنجابی ڈاکوئوں نے شراب کے کچھ ڈبے اور ڈاکٹر کے بیگ سے کچھ اشیا لوٹ لیں۔ انھوں نے معدہ صاف کرنے والے پمپ کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ یہ ڈاکا بقول ایملی، رنجیت سنگھ کے درباریوں کے لیے باعث رحمت ثابت ہوا کیونکہ وہ تمام قسم کے طبی تجربے اپنے درباریوں پر کرتا تھا۔کیسے ان سب کے معدے صاف کیے جانے والے تھے! مہاراجا نے ان کا استقبال اپنے موسمِ گرما کے محل آدی نگر میں کیا۔ وہ سنہرے رنگ کی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے سادہ سفید لباس پہن رکھا تھا۔ کمر کے گرد موتیوں کا ایک ہار اور بازو پر مشہورِ زمانہ کوہِ نور پہن رکھا تھا۔ اس کی واحد آنکھ کی تیز چمک کوہِ نور کی چمک کا مقابلہ کر رہی تھی۔ اس کے مصاحب اس کے اِردگرد فرش پر بیٹھے تھے جبکہ اس کا بیٹا دھیان سنگھ اس کے پیچھے کھڑا تھا۔ اگرچہ رنجیت سنگھ خود خوب صورتی سے محروم تھا لیکن اس نے اپنے دربار میں مردانہ و جاہت اور خوب صورتی کے عمدہ نمونے جمع کر رکھے تھے۔ایسی ملاقاتوں میں مہاراجا مسلسل سوالات کی بوچھاڑ کرتا تھا۔ متفرق، متنوع سوالات مہمانوں کی ذاتی زندگی، عادات، ان کی فوج، ان کی تربیت، اسلحہ اور عورتوں کے بارے میں ہوتے تھے۔کچھ عرصہ پہلے میں اپنے لیے ایک انگریز بیوی حاصل کرنا چاہتا تھا اور میں نے حکومت کو اس بارے میں لکھا تھا لیکن انھوں نے مجھے نہیں بھیجی۔ ولیم آسبورن مہاراجا کے بارے میں اپنے تاثرات ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ ’’بے شک رنجیت سنگھ بدصورت ہے لیکن اس کا چہرہ ہر شخص کو غیرمعمولی شخص کا چہرہ دکھائی دیتا ہے… اتنی ذہانت اور اس کی بے قرار واحد آتشیں آنکھ کی روشنی اتنی دلچسپی پیدا کر دیتی ہے کہ آپ اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اس چہرے کے پیچھے کوئی عام درجے کا دماغ اور ذکاوت نہیں خواہ آپ کو پہلی نظر میں اس کی صورت کتنی ہی عجیب کیوں نہ لگے۔‘‘ رنجیت سنگھ کی مذاکراتی مہارت نے جلد ہی میک نیگٹن کے گرد ایک جال بُن دیا۔ایک رفیق کار کا کہنا تھا ’’بچارے میک نیگٹن کو سیکرٹری کا عہدہ کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔ غالباً اس کے لیے عدالتی فرائض نہایت موزوں ہوتے اور وہ بھی صرف اپیل کورٹ میں جہاں صرف تحریری شہادت پر فیصلہ دینا مقصود ہوتاہے۔‘‘ آک لینڈ نے شروع میں دوست محمد کی معزولی کے لیے برطانوی فوجی دستے بھیجنے کا نہیں سوچا تھا۔ اسے امید تھی کہ یہ کام رنجیت سنگھ اور شاہ شجاع کریں گے جیسے شجاع کی آخری مہم میں انگریزوں نے روپیہ اور سازو سامان کے علاوہ صرف اخلاقی اور سفارتی مدد کی تھی۔لیکن رنجیت سنگھ چونکہ پہلے ہی پشاور کا قبضہ برقرار رکھنے میں کافی پریشانی کا شکار تھا، اسے کابل پر حملے کی دعوت میں کوئی دلچسپی محسوس نہ ہوئی۔ وہ دوست محمد سے چھٹکارا حاصل کرنے کا خواہش مند تھا اور اس عمل میں اسے اپنی دولت میں اضافے کے مواقع بھی نظر آ رہے تھے۔ لیکن وہ افغانستان کی جنگ میں الجھنا نہیں چاہتا تھا اس لیے اس نے کامیاب سفارت کاری سے اپنے آپ کو جنگ میں ملوث ہونے سے بچایا۔ اس نے کہا کہ اگر شکارپور کا مالیاتی مرکز، خیبر اور جلال آباد اسے دے دیے جائیں تو وہ اپنے پرانے افغان دشمن کا قلع قمع کرنے کی اس تعزیری مہم کا ساتھ دے سکتا ہے۔ مگر میک نیگٹن نے انکار کر دیا اور مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے۔درحقیقت رنجیت سنگھ ان مطالبات کو صرف سودا بازی کے لیے استعمال کر رہا تھا۔ بالآخر اس نے کہا کہ اگر پشاور اور کشمیر پر اس کے قبضے کے تسلسل کی توثیق کر دی جائے، برطانوی حکومت اس کو بیس ہزار پائونڈ ادا کرے، ایک بڑی رقم سندھ کے امرا سے نقد ادا کروائی جائے اور شاہ شجاع اس کو سالانہ خراج کی صورت میں پچپن اعلیٰ نسل اور رنگ کے تیز رفتار گھوڑے، شیریں اور لذیذ خربوزوں سے لدے ہوئے اونٹ اور ایک سو ایک ایرانی قالین دینے کا وعدہ کرے تو وہ برطانوی مہم کا ساتھ دے گا۔
میک نیگٹن نے اس پیش کش کو فوراً قبول کر لیا اور وعدہ کیا کہ وہ شجاع اور امرائے سندھ پر معاہدے کی تکمیل کے لیے دبائو ڈالے گا۔ اس کے بدلے میں رنجیت سنگھ نے شاہ شجاع کو افغانستان کے تخت پر بحال کرنے کی برطانوی فوجی کارروائی میں شرکت کرنے کا وعدہ کیا۔ جولائی 1838ء میں میک نیگٹن نے لدھیانہ میں شجاع سے ملاقات کی۔ میک نیگٹن شجاع کی شاہانہ شخصیت، وقار اور لمبی سیاہ ڈاڑھی سے بہت متاثر ہوا۔ شجاع کو اپنے ذرائع سے ساری کارروائی کا علم ہوچکا تھا اور وہ ایک کٹھ پُتلی حکمران کا درجہ دیے جانے پر ناخوش تھا۔ اس کو یہ شکایت تھی کہ اس سارے منصوبے میں اس کے ساتھ کوئی مشورہ کیوں نہیں کیا گیا۔ نیز وہ رنجیت سنگھ کو خراج ادا کرنے پر بھی آمادہ نہ تھا۔ یہ وہ شخص تھا جس نے شجاع اور اس کے بیٹے کو اذیت کا نشانہ بنایا تھا اور اس کی سب سے قیمتی متاع کوہ نور بھی اس سے ہتھیالیا تھی۔میک نیگٹن نے شاہ کو مختصراً منصوبے سے آگاہ کیا۔ وہ سکھوں کی طرح سودابازی کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا اس لیے اس کے پاس قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ میک نیگٹن نے اسے مختصر افغانستان کی حدود بتائیں جس کا حکمران وہ بننے والا تھا۔ اس نے انگریزوں سے کچھ یقین دہانیاں حاصل کیں۔ یہ کہ وہ اس کے خاندان اور ملکی معاملات میں اس کی منظوری کے بغیر دخل اندازی نہیں کریں گے۔ یہ کہ فتح کے بعد اس کو افغانستان کی تعمیر نو اور حکومت کی مضبوطی کے لیے مالی امداد دی جائے گی۔معاہدے میں یہ شق بھی شامل تھی کہ ایک علاقے سے بھاگ کر دوسرے علاقے میں جانے والی لونڈیوں اور خادمائوں کو واپس لوٹایا جائے گا۔ اس کو یہ یقین دہانی بھی کروائی گئی کہ اس کو برطانوی دستوں کے عقب میں چلنے کے بجائے اپنے دستوں کے ساتھ ان کی قیادت کرتے ہوئے افغانستان میں داخل ہونے کا اعزاز دیا جائے گا۔ آخر میں یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ اس کو ماضی کی طرح اپنی فوج کو منظم کرنے اور تربیت دینے کے لیے اضافی رقوم دی جائیں گی۔ اس معاہدے کو ’’اتحادِ ثلاثہ کا نام دیا گیا۔شملہ میں اپنے قیام سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ایملی اپنے خط میں رقمطراز ہے:’’ شملہ کا موسم انتہائی اطمینان بخش ہے۔ ہم مختلف لوگوں کو ڈنر پر بلاتے ہیں اور بعض اوقات ڈانس کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہم نے تفریح کی ایک عمدہ ترکیب بھی ایجاد کرلی ہے۔ یہاں ایک پہاڑی پر ہمارا بینڈ ہفتے میں ایک دن بجایا جاتا ہے اور ہم سامعین کو آئس کریم اور مشروبات بھیجتے ہیں۔ یہ ایک کم خرچ بالانشین اجتماع ہوتا ہے۔‘‘ایملی پریشان ہوتی ہے کہ ان کے خطوط کی انگلستان آمدو رفت بہت سست اور غیر یقینی ہے۔ وہ لکھتی ہے: ’’ہم نے ہر قسم کے منصوبے آزمائے لیکن پہلے مون سون نے ایک سٹیمر کو ناکارہ کر دیا۔ اور دوسرا ہمارے تمام خطوط جن کو ہم سمجھتے تھے کہ انگلستان پہنچ چکے ہیں واپس لے آیا۔ پھر ہم نے ایک عرب جہاز کے ذریعے بھجوائے لیکن میں ہمیشہ محسوس کرتی ہوں کہ عرب جہاز بے لگام ہو کر سفر کرتا ہے اور سیلرز کافی پیتے اور دوسرے جہازوں کو لوٹتے رہتے ہیں۔‘‘اس اثنا میں لارڈ آک لینڈ اس ہمالیائی چوٹی پر افغانستان پر بھرپور برطانوی حملے کے منصوبے کو آخری شکل دے رہا تھا۔ تاہم وہ اپنی کمزور قوتِ فیصلہ ار مخالفین کی تنقید سے پریشان اور گھبراہٹ کا شکار تھا۔ سابق گورنر جنرل چارلس میٹکاف نے آک لینڈ کی افغان پالیسی پر اپنے خدشات کا اِظہار کیا: ’’ہم بلاوجہ اور بلا سوچے سمجھے مشکلات اور پریشانیوں میں گھر چکے ہیں اور اس صورت حال سے ہم اپنے آپ کو شرمناک پسپائی کے سوا باہرنہیں نکال سکتے۔ہمارا بڑا مقصد روس کے اثرونفوذ کو روکنا ہے۔ ہم کامیابی کی صورت میں بھی مستقل سیاسی اور مالیاتی مشکلات اور ذِلتوں کا شکار ہوجائیں گے۔‘‘ افغان امور کے برطانوی ماہر مائونٹ سٹیوارٹ الفنسٹون نے بھی ایسے ہی شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ کمپنی کے مقامی اتحادیوں نے بھی منصوبے کی کامیابی پر تحفظات کا اظہار کیا جن میں نواب آف بہاولپور بھی شامل تھے۔جب بیس جولائی کو برنس کو مشورے کے لیے شملہ بلایا گیا تو میک نیگٹن کے سیکرٹریوں نے برنس سے التجا کی کہ انھوں نے گورنر جنرل کو بڑی مشکل سے اس کارروائی پر آمادہ کیا ہے اس لیے اس کے سامنے کوئی بات منصوبے کے خلاف نہ کی جائے۔ بالآخر میک نیگٹن اور اس کے سخت گیر ساتھیوں کی کوششوں سے آک لینڈ نے اپنی تشویش کے باوجود حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا اور بیس ہزار فوجیوں کو تیاری کا حکم دے دیا۔ یہ چالیس سال قبل سلطان ٹیپو کے خلاف کمپنی کے حملے کے بعد پیش آنے والا پہلا بڑا فوجی تصادم تھا جس میں اتنے وسیع پیمانے پر فوجوں اور سازو سامان کو تیار کیا گیا تھا۔ستمبر1837ء میں آک لینڈ نے اپنے کمانڈران چیف کو رسمی طور پر افغانستان پر حملے کے لیے فوج کو جمع کرنے کا حکم دے دیا۔ الیگزینڈر برنس کو سر کا خطاب دے کر سندھ روانہ کیا گیا تاکہ وہ فوج کے سفر کو محفوظ بنائے۔ اس اعزاز کے حصول پر برنس دوست محمد کے ساتھ مفاہمت اور اتحاد کی اپنی تجاویز کی ناکامی کے باوجود میک نیگٹن کی پالیسی پر عملدرآمد کے لیے تیار ہوگیا۔دراصل اس کو گزشتہ مہینوں میں اپنا منہ بند رکھنے کا ہی یہ انعام دیا گیا تھا۔ اکتوبر میں آک لینڈ نے ’’شملہ منشور‘‘ کا اعلان کر دیا۔ جس کے مطابق برطانیہ کے اس ارادے کا اظہار کیا گیا کہ وہ افغان تخت کے اصل حقدار شاہ شجاع کی فوجی مدد کرے گا تاکہ وہ اپنے تخت کو دوبارہ حاصل کرلے۔ شاہ شجاع کی یہ چوتھی کوشش ہوگی کہ وہ درانی سلطنت کے تاج و تخت پر بحالی کے لیے قسمت آزمائی کرے گا۔ تاریخ نے اس کو پہلی اینگلو افغان جنگ کا نام دے رکھا ہے۔جنگی منصوبے کے مطابق فیروز پور میں فوجوں کی رسمی روانگی کی تقریب ہوگی جس میں اتحادِ ثلاثہ کے تینوں فریقوں کے فوجی دستوں کی شرکت ضروری تھی۔ اس کے بعد فوج دو مختلف راستوں سے افغانستان میں داخل ہو کر کارروائی کرے گی۔ ایک فوج شجاع کے بڑے بیٹے پرنس تیمورکی قیادت میں کرنل ویڈ کی مدد کے ساتھ اور رنجیت سنگھ کے مہیا کردہ پنجابی مسلمانوں کی رجمنٹ کے ہمراہ پشاور سے درہ خیبر کے راستے جلال آباد پہنچے گی۔دوسری نسبتاً بڑی فوج کمپنی کے بنگال اور بمبئی کے فوجی دستوں کے ہمراہ میک نیگٹن کی زیرِ نگرانی اور شاہ شجاع کی قیادت میں درہ بولان سے گزر کر قندھار کے قریب جنوبی افغانستان پر حملہ آور ہوگی۔ بالآخر دونوں فوجیں کابل میں اکٹھی ہوں گی اور بالاحصار میں شجاع کو تخت پر بحال کیا جائے گا۔ ویڈ نے آک لینڈ کو یقین دلایا تھا کہ بہت سے افغان قبائلی سردار شجاع کے ساتھ اتحاد کر لیںگے اور غاصب دوست محمد کو باہر نکال پھینکیں گے۔منصوبہ نہایت عمدہ تھا لیکن اس پر عملدرآمد میں کئی مشکلات تھیں۔ شملہ منشور میں کہا گیا تھا کہ شجاع اپنے فوجی دستوں کی قیادت کرتے ہوئے وطن واپس جائے گا لیکن شجاع کے پاس گھریلو ملازمین کے علاوہ اپنا ایک بھی فوجی نہ تھا۔ اس لیے پہلا کام شجاع کی اپنی نئی فوج کو بھرتی کرنے کا تھا۔ 1838ء کے موسمِ گرما کے دوران لادھیانہ میں فوج کی بھرتی جاری رہی۔لیکن کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا کے مصداق میلے کچیلے، غیر منظم افراد کا یہ ہجوم عوام کے سامنے فوجی پریڈ کرنے کے قابل بھی نہیں تھا۔ اور یہ بدنامِ زمانہ حقیقت چھپائی نہیں جاسکتی تھی کہ ان میں ایک بھی افغان نہیں تھا۔ اس لیے شجاع کو اپنے دستے کے ساتھ باقی فوج سے پہلے ہی خاموشی سے شکار پور کے لیے روانہ کر دیا گیا۔انھوں نے سندھ پہنچ کر لاڑکانہ شہر کو لوٹ لیا۔ اس حرکت نے شجاع کی گزشتہ مہم کے دوران سندھیوں کے ساتھ ظلم و تشدد اور زیادتی کی یادوں کو تازہ کر دیا۔ سندھ کے امرا غضب ناک ہوگئے اور انھوں نے ہر قسم کی مدد اور تعاون سے ہاتھ کھینچ لیا۔ ایک اور المیہ یہ ہوا کہ جب کمپنی کے فوجی دستے بمبئی سے کراچی پہنچے تو سندھ کے اتحادی امرا کی طرف سے توپوں کی سلامی کو حملہ سمجھ بیٹھے اور جواباً ساحلی قلعے کو مسمار کر دیا۔ایک اور بدشگونی یہ ہوئی کہ کو طویل جلاوطنی اور مصائب نے شجاع کی نیک فطرتی اور خوش مزاجی میں بگاڑ پیدا کر دیا تھا۔ چناں چہ اس نے اپنی بدمزاجی اور غرور کی وجہ سے تمام برطانوی افسروں سے لڑائی جھگڑا کیا۔ اور اصرار کیا اس کی موجودگی میں سب لوگ تعظیماً کھڑے رہیں۔ مزید برآن اس نے اپنے متوقع افغان عوام کو ’’کتوں کا غول‘‘ قرار دے دیا۔ اس پر میک نیگٹن نے کہا کہ ہم اس کو سمجھانے کی کوشش کریں گے کہ وہ آئندہ معقول رویہ اختیار کرے۔ اس اثنا میں لدھیانہ میں پرنس تیمور نے بالکل کوئی تیاری نہ کی۔شجاع نے شکارپور سے ویڈ کو لکھا کہ پرنس اتنا احمق ہے کہ اس نے اپنی جگہ سے ذرا بھی حرکت نہیں کی۔ چناںچہ فیروزپور سے انگریز اور ہندوستانی فوج کو رخصت کرنے کے لیے شاہ شجاع کے بجائے مون سون کے بارشی موسم میں آک لینڈ کو شملہ سے وہاں آنا پڑا۔ فینی نے خط میں تحریر کیا ’’کل ہم نے میجر ویڈ کے ہاں شاندار ڈِنر کیا۔ شہر کو برقی قمقموں کی طویل قطاروں سے سجایا گیا تھا۔ میک نیگٹن جو شائستہ آداب کا اتنا خیال رکھتا ہے اپنا پلیٹوں اور کٹلری کا سیٹ کہیں راستے میں گم کر بیٹھا تھا اس وجہ سے کیمپ پر دہشت کی فضا طاری تھی۔ شاہ شجاع جو انگلیوں سے کھانا کھاتا ہے کیا سوچے گا اگر وہ میک نیگٹن کو بھی اسی طرح کھاتے ہوئے دیکھے؟‘‘مون سون کی بارشوں اور کیچڑ میں بمبئی سے روانہ ہونے والی ایک رجمنٹ کی قیادت ولیم ناٹ کر رہا تھا جو ویلز کے ایک معمولی کسان کا بیٹھا تھا۔ وہ چالیس سال قبل ہندوستان آیا تھا اور آہستہ آہستہ ترقی کرتا ہوا کمپنی کے ایک سینئر جرنیل کے عہدے تک پہنچا تھا۔ وہ اور اس کے سپاہی دہلی کے فوجی اڈے سے روانہ ہوئے جہاں اس نے بیس سال تک اپنی محبوب بیوی لیٹیشیا کو ابھی دفن کیا ہی تھا۔ سڑک پر فوجی دستے، توپیں، گاڑیاں، گولہ بارود اور خزانہ عازم سفر تھے۔راستے میں چوروں ڈاکوئوں سے بچ کر جنگی ساز و سامان کو منزل تک لے جانے میں آدمیوں اور گھوڑوں کو بہت حوصلے اور صبر سے کام لینا پڑتا ہے۔ جہاں جوان اُمید کر رہے تھے کہ جنگ ان کے لیے شان و شوکت، ترقی اور مالِ غنیمت لائے گی، ناٹ صرف اُمید کر رہا تھا کہ یہ اس کو بھول جانے میں مدد دے گی۔ اس نے لندن میں اپنی بیٹیوں کے نام خط میں لکھا ’’میں نے ان دنوں کے بارے میں سوچتے ہوئے ایک اذیت ناک رات گزاری جن سے میں محبت کرتا ہوں۔ عجیب بات ہے لیکن جنگ نے کسی حدتک مجھے سکون دیا ہے۔‘‘ پھر اس نے صفحے کے کنارے پر لکھا ’’انسان اپنے ساتھی انسانوں کو تباہ کرنا کب بند کرے گا؟‘‘دوسری رجمنٹس اپنی بیرکس(Barracks) سے نکل کر ساحل سمندر پر کھڑے جہازوں کی طرف جا رہی تھیں جو طوفانی سمندر میں سفر کرکے ان کو کراچی، ٹھٹھہ اور دریائے سندھ کے دہانے پر دوسرے مقامات تک لے جانے کے لیے تیار تھے۔ اونٹ سوار اپنے خود سر اونٹوں پر تجرباتی توپوں، گولوں اور راکٹوں کو لادنے کی جدوجہد کر رہے تھے۔ ہانسی میںکرنل جیمز سِکنر ہریانہ کے سیلاب زدہ علاقوں سے فاصل فوجی جوانوں کو حاضر کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میرٹھ اور رُڑکی کی چھاونیاں کیچڑ میں لت پت تھیں۔جب کمپنی کے سپاہیوں اور افسروں نے اپنے بوریا بستر سمیت کرنال اور فیروزپور جانے والی جی ٹی روڈ پر سفر شروع کیا تو ان کی بیویاں اور محبوبائیں ان کے پیچھے پیچھے دلدلی کیچڑ میں رواں دواں تھیں۔ جب انڈس آرمی نومبر کے شروع میں فیروزپور کے میدانوں میں جمع ہونی شروع ہوئی تو بارشیں رُک چکی تھیں۔ ہر کوئی خوش تھا رنجیت سنگھ نے کیمپ کی آرائش کے لیے چھے سو باغبان بھیجے تاکہ وہ گملوں میں اُگائے ہوئے گلابوں سے افسروں کے خیموں کو گلستانی ماحول فراہم کریں۔فوجوں کے اجتماع اور جنگی تیاریوں کے شور میں آک لینڈ کے لیے صورتِ حال پریشان کن ہوگئی جب برطانوی بحری بیڑے کی خلیج فارس میں آمد اور کھارگ کے جزیرے پر قبضے کے بعد خوفزدہ ایرانی ہرات کا محاصرہ ترک کرکے مشہد تک پسپا ہوگئے۔ اِدھر برطانوی وزیر اعظم نے روسی حکومت پر دبائو ڈالا جس کے نتیجے میں ایران اور کابل میں روسی سفیروں کو واپس بلا لیا گیا۔ روس اور ایران افغانستان کی حمایت سے اعلانیہ طور پر دستکش ہوگئے۔ آک لینڈ کے لیے افغانستان پر فوری حملے کا باعث بننے والے دونوں خطرات ختم ہوگئے تھے۔ یہ ایک عمدہ لمحہ تھا جب دوست محمد سے مذاکرات کی تجدید کرکے کوئی گولی چلائے بغیر تمام برطانوی مقاصد حاصل کیے جاسکتے تھے۔لیکن کسی نے بھی اس طرف کوئی توجہ نہ دی۔ اس کے بجائے ان کو یہ اطمینان حاصل ہوگیا کہ انھیں افغانستان میں روسی یا ایرانی فوج کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ آک لینڈ نے اعلان کیا کہ وہ اپنے موجودہ منصوبے پر پوری طاقت کے ساتھ عمل کرے گا۔ اور اتحادِ ثلاثہ کے معاہدے کے مطابق افغانستان کے جائز حکمران کو اس کے آبائواجداد کے تخت پر بحال کیا جائے گا۔27نومبر کو سکھ اور کمپنی کی افواج فیروزپور کے میدانوں میں جمع ہوگئیں۔ یہ ایک بہت بڑا فوجی اجتماع تھا۔ گورنر جنرل کی پندرہ ہزار سپاہیوں کی حفاظت میں شاہانہموجودگی پنجاب کے مہاراجا سے کسی طرح کم ہیبت ناک نہیں تھی۔ ایملی اس پُرشکوہ منظر سے مکمل طور پر مرعوب ہوجاتی ہے۔ وہ رقمطراز ہے ’’ہمارے عقب میں ہمارے کیمپ کے ہاتھی بہت بڑے دائرے میں کھڑے تھے۔ ان کے سامنے رنجیت سنگھ کے ہزاروں پیروکار موجود تھے جو زرد اور سرخ سائن میں ملبوس تھے اور ان کے ساتھ بے شمار سجے سجائے گھوڑے تھے۔ میں نے حقیقتاً اتنا روشن اور خیرہ کر دینے والا منظر کبھی نہیں دیکھا تھا۔تین چار سکھ سرکس کے کردار معلوم ہوتے تھے۔ لیکن ان کا یہ بڑا ہجوم مضحکہ خیز ثابت نہیں ہوا اور انھوں نے اپنی شان و شوکت کو برقرار رکھا۔ افغان جنگ کے مؤرخ سرجان کے مطابق ’’آک لینڈ اور رنجیت سنگھ کی پہلی ملاقات ناقابلِ بیان شور و شغب اور ہنگامے کے درمیان ہوئی۔ ہاتھیوں کی دو قطاروں کی چنگھاڑوں اور دونوں راہنمائوں کے تعاقب میں دربار شامیانہ تک بھاگ دوڑ نے عجب افراتفری پیدا کر دی۔بہت سے سکھ فوجیوں کو شک پیدا ہوگیا کہ کہیں یہ ان کے راہنما کو قتل کرنے کی سازش تو نہیں اور انھوں نے وحشیانہ بداعتمادی کی کیفیت میں اپنے ہتھیار سیدھے کر لیے۔ رنجیت سنگھ کی استقبالیہ تقریر کے جواب میں لارڈ آک لینڈ نے خوش آمدیدی دھوم دھام سے خوش ہو کر پرجوش خطاب کیا اور دونوں کی متحدہ افواج کو دنیا کا فاتح قرار دیا۔‘‘ فینی نے انگلستان میں اپنی بہن کو خط میں لکھا ’’تم وہ منظر دیکھ کر ہکّا بکّا رہ جاتیں جب وہ دونوں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چل رہے تھے۔‘‘اس رات کے کھانے پر فیعنی رنجیت سنگھ کے ساتھ بیٹھی تھی اور وہ اپنے ساتھی کی سحرانگیز شخصیت سے بہت متاثر ہوئی۔ وہ سفید کُرتا پاجامہ کے جوڑے میں ملبوس تھا۔ اس کے بازو پر واحد کوہِ نور ہیرا جگمگا رہا تھا۔ شاید یہ اس موقع کے لیے اتنا موزوں نہیں تھا کیونکہ یہ سب جانتے تھے کہ اس نے اسے کیسے حاصل کیا تھا۔ سکھ مہاراجا نے اس شام زیادہ وقت فینی کو اپنی دیسی کشیدکردہ شراب پلانے میں صرف کیا۔ ’’وہ جس مشروب کو شراب کہتا ہے وہ جلتی ہوئی آگ جیسی ہے اور برانڈی سے زیادہ تیز ہے۔‘‘ فینی نے بعد میں تحریر کیا۔ ’’شروع میں تو وہ جارج اور سر ڈبلیو کاٹن کو پلا کر ہی مطمئن تھا۔ پھر اس نے سونے کے کپ بھر بھر کے مجھے پلانے شروع کر دئیے۔ کچھ دیر میں برداشت کرتی رہی یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ میں پی رہی ہوں اور اس کے خدمت گار کو کپ پکڑا رہی ہوں۔لیکن اس کو شک ہوگیا۔ اس نے کپ اپنی ایک آنکھ کے قریب کیا، اس کے اندر اچھی طرح دیکھا، سر نفی میں ہلایا اور کپ دوبارہ مجھے واپس دے دیا۔ اگلی دفعہ اس نے کپ کے اندر انگلی ڈال کر دیکھا کہ کتنا پیا گیا ہے۔ میں نے میجر ویڈ کے ذریعے وضاحت کروائی کہ انگلستان میں خواتین زیادہ شراب نوشی نہیں کرتیں۔ اس پر اس نے انتظار کیا جونہی جارج نے سر دوسری طرف موڑا اس نے اپنے بازو کے نیچے سے ایک کپ مجھے پکڑا دیا یہ سمجھتے ہوئے کہ جارج ایک مطلق العنان ظالم ہے اور وہ مجھے زیادہ پینے نہیں دیتا۔‘‘اس اثنا میں جارج اپنے نئے ساتھی کے متواتر سوالات کو ٹالنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس نے ابھی تک ایک بیوی بھی کیوں حاصل نہیں کی ہے۔ جارج نے کہا کہ انگلستان میں صرف ایک کی اجازت ہے اور اگر وہ بُری بیوی ثابت ہو تو اس سے نجات حاصل کرنا آسان نہیں۔ رنجیت نے کہا کہ یہ ایک بُرا رواج ہے۔ اور یہ کہ ایک سکھ کو پچیس بیویوں کی اجازت ہے اور وہ نافرمانی کی جرأت نہیں کرسکتیںکیونکہ اگر وہ ایسا کریں تو وہ ان کو مار پیٹ کر سکتا ہے۔جارج نے جواب دیا کہ یہ بہت عمدہ رواج ہے اور جب وہ واپس وطن پہنچے گا تو وہاں اس کا تعارف کروائے گا۔ اگلے دن سکھوں نے اپنی ڈرل کا مظاہرہ کیا اور اپنے نظم و ضبط اور توپوں کے صحیح نشانوں سے اپنے اتحادیوں کو متاثر کیا۔ اب برطانوی فوجیوں کی باری تھی۔ برطانوی جرنیل نے مکمل مہارت کے ساتھ ایک تصوراتی ہدف پر حملہ کیا اور اتنی ہی بہادری سے دشمن کو شکست دی۔ اس نے میدانی علاقے میں ایک بڑی جنگ لڑی اس کو اپنے مقابل صرف ایک فوج کی ضرورت تھی تاکہ وہ اپنی فتح کو مکمل کرسکے۔‘‘اگلے دو دنوں میں فوجی طاقت کے کئی مظاہروں، بہت سی مزید تقاریر اور دعوتوں کے بعد فوج بالآخر جنگ کے لیے روانہ ہوگئی۔ سرخ وردیوں اور پَروں والی مخروطی ٹوپیوں میں ملبوس نیزہ بردار سواروں کی قیادت میں پیادہ اور گھڑ سوار دستے قطاروں میں دریا کے ساتھ ساتھ شکارپور کے لیے روانہ ہوگئے۔ جہاں انھوں نے بمبئی کے اور شاہ شجاع کے فوجی دستوں کے ساتھ مل جانا تھا۔ اس دوران سکھ لاہور جانے کے لیے شمال کی طرف چل پڑے۔ انڈس آرمی جیسا کہ اس فوج کو نام دیا گیا تھا اب ایک ہزار یورپی سپاہیوں، چودہ ہزار ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساہیوں پر مشتمل تھی۔ اس میں شجاع کی فوج کے بے قاعدہ کرائے کے چھے ہزار آدمی شامل نہیں تھے۔فوج کے ہمراہ اڑتیس ہزار غیر فوجی ہندوستانی خدمت گار تھے۔ فوجیوں کا سازو سامان تیس ہزار اونٹوں پر لے جایا جاتا تھا جن کو اس مقصد کے لیے دور دراز بیکانیر، جیسلمیر اور ہریانہ میں حصار کے مقام پر کمپنی کے اونٹ فارم سے اکٹھا کیا گیا تھا۔ کوئی بھی ہلکے پھلکے سامان کے ساتھ سفر کرنے کا اِرادہ نہیں رکھتا تھا۔ ایک بریگیڈئیر نے مطالبہ کیا کہ اسے اپنے سازو سامان کے لیے پچاس اونٹوں کی ضرورت ہے جبکہ جنرل کاٹن نے اس مقصد کے لیے دو سو اونٹ لیے۔تین سو اونٹ فوجیوں کے لیے شراب کا ذخیرہ لے جانے کے لیے مخصوص کیے گئے تھے۔جونیئر افسر بھی باورچیوں، بھنگیوں، بیروں اور ماشکیوں پر مشتمل چالیس چالیس نوکروں کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ میجر جنرل ناٹ کے بقول جس نے ساری پیشہ ورانہ زندگی میں تعلق، سرپرستی یا روپے کے بغیر سخت محنت سے بتدریج ترقی کی تھی اور جو ملکۂ برطانیہ کی فوج کے امیر جوان افسروں کو حاسدانہ نظروں سے دیکھتا تھا، یہ بالکل واضح تھا کہ فوجی انتظامیہ کفایت شعاری کا مناسب نفاذ نہیں کر رہی تھی۔بہت سے جونیئر افسر جنگ کو ایک شکاری مہم کے طور پر ہلکے پھلکے انداز میں لے رہے تھے۔ درحقیقت ایک رجمنٹ واقعی اپنے ساتھ شکاری کتے محاذ پر لے آئی تھی۔ بہت سے نوجوان افسروں کے لیے قیمتی سوٹوں، اعلیٰ صابن اور پرفیوم کے بغیر سفر کرنا ایسا ہی تھا جیسے وہ پستولوں اور تلواروں کے بغیر مارچ کریں۔ ایک رجمنٹ کے دو اونٹوں پر بہترین منیلا سگار لدے ہوئے تھے جبکہ دوسرے اونٹوں پر مربہ، اچار، سگار، ڈبا بند مچھلی اور گوشت، پلیٹیں، گلاس، برتن، موم بتیاں میز پوش وغیرہ لدے ہوئے تھے۔ایک لڑاکا فوج کی اہلیت کے لیے یہ کوئی اچھا شگون نہیں تھا۔ انڈس آرمی کے مختلف حصوں کے درمیان رابطے کی بھی کمی تھی۔ توقع یہ کی جا رہی تھی کہ اس وقت تک برنس نے سندھ کے اُمراء کے ساتھ مذاکرات کے بعد ان کے علاقے سے فوجوں کے محفوظ سفر کی اجازت حاصل کر لی ہوگی۔ لیکن کراچی کے ساحلی قلعے پر حملے اور لاڑکانہ کی لوٹ مار نے سندھی اُمرا اور برطانوی حکومت کے درمیان دشمنی کو چنگاری لگا دی تھی اور وہ اپنے علاقوں سے انگریز فوجوں کے سفر اور بمبئی کے فوجی دستوں کے لیے نقل و حمل کی سہولیات فراہم کرنے سے انکاری تھے۔ میک نیگٹن سکھ راہنما کے ساتھ لاہور گیا جہاں فینی اور ایملی رنجیت سنگھ کی منتخب بیگمات کے ساتھ ملاقات کرنے کے لیے ٹھہری ہوئی تھی۔واپسی پر میک نیگٹن یہ سن کر دہشت زدہ ہوگیا کہ جنرل کاٹن حکام بالا کے احکام کے بغیر ہی راستہ تبدیل کرکے سندھ کے دارالحکومت حیدرآباد پر غیرقانونی حملہ کرنے والا تھا۔ میک نیگٹن نے شملہ میں گورنر جنرل کو مراسلہ بھیجا اور تیز رفتار اونٹ سوار قاصد کو جنرل کاٹن کے پاس روانہ کیا کہ وہ حملے کرنے سے باز رہے۔ لیکن افغان مؤرخ مرزا عطا کے مطابق جنرل کی فوج راستہ بھٹک کر جنگل میں گم ہوگئی اور معجزانہ طور پر ایک خضر صورت بزرگ کی راہنمائی سے دریا کے کنارے اپنے کیمپ تک پہنچی۔جنرل کاٹن کو حملہ شروع کرنے کے چند گھنٹے پہلے مراسلہ ملا اور اس نے فوج کی پیش قدمی کو بادل ناخواستہ روک دیا لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا کہ جب سندھ کے امیروں نے برطانوی فوج کے دستوں کو خشکی اور سمندر دونوں طرف سے سمندر کی لہروں اور طوفانی بادلوں کی طرح بڑھتے ہوئے دیکھا تو وہ خوفزدہ ہوگئے۔ انھوں نے مزاحمت ترک کرکے مکمل اطاعت اختیار کرلی۔ تاہم جنرل کو اپنے فوجی دستوں کے سامنے ندامت ہوئی جو دولت مند حیدرآباد شہر میں لوٹ مار کرنے کی توقع کر رہے تھے۔میک نیگٹن نے جنرل کاٹن کی فوج کے ایک کمانڈر کالوِن سے شکایت کی ’’جنرل مجھے اور شاہِ انگلستان کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ وہ کمانڈر اِن چیف سرجان کے ای کے علاوہ کسی کو اپنے سے برتر تصور نہیں کرتا اور کسی کی مداخلت کو برداشت نہیں کرتا۔ میری مؤدبانہ گزارشات کو غیر دوستانہ انداز میں لیا گیا۔ مجھے واضح طور پر کہا گیا کہ میں فوج کی کمان اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہوں۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ میں نے شاہ شجاع اور اس کی فوج کے لیے ایک ہزار اونٹ بھیجنے کی درخواست کی تھی کیونکہ شاہ کے نصف اونٹ ایک زہریلا سندھی پودا کھانے کی وجہ سے مر گئے تھے اور ان کے سازو سامان کے نقل و حمل کا بحران پیدا ہوچکا تھا۔‘‘شاہ شجاع کے ساتھ میک نیگٹن کے تعلقات کا آغاز کچھ زیادہ خوشگوار نہیں ہوا۔ اس نے مراسلہ بھیجا ’’مجھے افسوس ہے کہ شاہ کی گفتگو احمقانہ ہوتی ہے جب بھی وہ اس موضوع پر بات کرتا ہے کہ افغانستان میں اس کے علاقہ جات کی حدود کیا ہوں گی اور اکثر کہتا ہے کہ اس کے لیے لدھیانہ میں قیام بہت بہتر ہوتا۔ اگلی بار جب وہ بات کرے گا تو میں اس کی توجہ سعدی کے اس شعر کی طرف مبذول کروائوں گا، اگر ایک بادشاہ سات سلطنتیں فتح کر لیتا ہے تو پھر بھی وہ ایک اور کا خواہش مند ہوتا ہے۔‘میں نہیں سمجھتا کہ پچاس ہزار روپے ماہوار شاہ کے اخراجات کے لیے کافی ہوں گے۔‘‘ برنس کے ساتھ میک نیگٹن کے تعلقات میں بھی تنائو موجود تھا۔ برنس اس کام کا خواہش مند تھا جو میک نیگٹن کو دیا گیا تھا جبکہ مغرور میک نیگٹن کے لیے سر کا خطاب زیادہ مناسبت رکھتا تھا جو برنس کو دیا گیا تھا۔ اس لیے دونوں ایک دوسرے کے رول سے خوش اور مطمئن نہیں تھے۔ اس طرح یہ غیر متحد اور غیر مطمئن فوج تھی جو باقاعدہ حملے سے تین ماہ پہلے فروری1939ء میں شکارپور کے مقام پر اکٹھی ہوگئی۔صرف افغانستان کے عوام انڈس آرمی کی زبردست تعداد اور بے پناہ طاقت کے بارے میں مبالغہ آرا کہانیوں سے مرعوب ہو رہے تھے کیونکہ وہ اس کے تمام شعبوں کے درمیان رابطوں، نظم و ضبط اور پیشگی منصوبہ بندی کی کمی اور کمانڈروں کے درمیان فضول جھگڑوں سے بے خبر تھے۔ روسی سفیر وِکی وِچ کی واپسی اور فوجی امداد کے وعدوں کے خاتمے کی وجہ سے قندھار میں دوست محمد کے سوتیلے بھائیوں کو احساس تھا کہ وہ ایک جدید، تربیت یافتہ اور اسلحہ سے لیس نوآبادیاتی فوج کے مقابلہ کرنے کے قابل بالکل نہیں تھے۔فروری کے آخر تک بمبئی کی فوج اور تمام ہتھیار بھی شکارپورپہنچ گئے تھے۔اب فوج کے لیے دریا کو عبور کرنے کا مرحلہ درپیش تھا۔ پُل کی تعمیر کے ذمہ دار جیمز براڈفٹ کا کہنا ہے۔ ’’اس مقام پر دریا ایک ہزار گَز سے زیادہ چوڑا تھا۔ فوج کے پاس صرف آٹھ کشتیاں تھیں۔ بڑی تگ و دو کے بعد ہم نے قرب و جوار کے ملاحوں کی ایک سو بیس کشتیاں زبردستی پکڑیں۔ بے شمار بڑے بڑے درختوں کو کاٹ کر شہتیر بنائے گئے۔ فوج کے پاس کوئی رسے نہ تھے۔ ہم نے وہاں سے سو میل دور اُگنے والی ایک خاص گھاس سے پانچ سو رسے تیار کیے۔چھوٹے درختوں کو جوڑ کر اور ان پر ایک ایک ٹن پتھر لاد کر لنگر بنائے گئے۔ موقع پر کِیل کانٹے تیار کیے گئے پھر کشتیوں کو لنگر باندھ کر دریا کے اندر قطار میں اس طرح کھڑا کیا گیا کہ ہر دوکے درمیان بارہ فٹ کا فاصلہ تھا۔ کشتیوں کے اوپر شہتیر رکھے گئے اور ان کے اوپر کِیلوں سے تختے جوڑ کر ایک سڑک بنا لی گئی۔ یہ سب سے بڑا فوجی پُل تھا جو کبھی بنایا گیا۔ اور آپ تصور کرسکتے ہیں کہ ہم نے کتنی افرادی محنت سے اس کو گیارہ دنوں میں تیار کیا۔‘‘مرزا عطا لکھتا ہے ’’جس حیران کُن مہارت سے برطانوی فوج نے دریائے سندھ کو عبور کیا وہ افلاطون اور ارسطو کے بس میں بھی نہیں تھی۔ جس کسی نے بھی پُل کو دیکھا حیرت زدہ رہ گیا۔ فروری 1839ء کے آخری دن انڈس آرمی نے دریائے سندھ عبور کیا اور شکارپور سے درہ بولان تک پھیلے ہوئے تھور زدہ بنجر صحرا میں 150میل طویل سفر شروع کیا۔ راستہ ناقابل اعتماد اتحادیوں میں گھرا ہوا، موسم گرما خشک، سطح زمین اجنبی اور ناساز گار تھی۔ ذرائع مواصلات تقریباً مفقود اور غیر یقینی تھے۔ گرما کا موسم قریب تھا اور بے آب و گیاہ صحرا تیزی سے تپنا شروع ہو گیا تھا۔ اس لیے سفر رات کے وقت کرنا پڑتا تھا۔ پانی اور خوراک کی سپلائی غیر یقینی ہوتی تھی۔اتنی گرمی اور تپش برداشت کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں تھا۔ ایک پیادہ فوجی تھا مس سیٹن لکھتا ہے ’’ہم غروب آفتاب کے وقت سفر شروع کرتے تھے۔ صحرا میں تندو تیز ہوا چلتی تھی جس کے ساتھ باریک ریت کے گرم ذرات ہر چیز میں گھس جاتے تھے اور ناقابلِ برداشت پیاس پیدا کر دیتے تھے۔ ہر سپاہی اپنی بھاری بندوق، ساٹھ رائونڈ کارتوسوں، کپڑوں، پانی کی بوتل اور متفرق سازوسامان کے تھیلے کے بوجھ تلے بری طرح دبا ہوا تھا جو اس سفر کے لیے مناسب نہیں تھا اور ان کی تنگ اونی وردیوں کی گھٹن کو دُگنا کر رہا تھا۔ایسے حالات میں آدمیوں کی حالت قابل رحم تھی اور ہر لمحے ان کی اذیت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ سب کی بوتلوں میں پانی ختم ہو چکا تھا۔ آدھی رات کے وقت وہ پیاس سے مضمحل ہو چکے تھے۔ انھوں نے بڑبڑانا شروع کر دیا اور پھر پانی پانی کی اجتماعی پکار سنی گئی۔ ان میں سے بہت سے ہذیان کی کیفیت میں تھے۔ جب میں نے ایک سپاہی سے بات کی تو اس کی زبان منہ کے اندر لڑکھڑانے لگی اور اس کا چہرہ اذیت سے بدوضع ہو گیا۔صرف سپاہی اس اذیت کا شکار نہیں تھے۔ غیر فوجی ملازمین بھی بری طرح سامان سے لدے ہوئے تھے۔ کچھ نے شیرخوار بچوں کو بھی اٹھا رکھا تھا۔ بچوں کی چیخیں دل کو چیر دینے والی تھیں۔ مضبوط آدمی بوجھ سے بے دم ہو کر زمین پر گر رہے تھے اور آہ و زاری کرتے ہوئے اپنے سینوں کو پیٹ رہے تھے۔ کیمپ میں ایک مقامی افسر کی چھے سالہ پیاری سی بیٹی تھی جس کی ماں کا انتقال ہو چکا تھا ۔وہ چھوٹے چھوٹے کاموں میں باپ کی مدد کرتی تھی۔اس کو دیکھنا اور اس کی باتوں کو سننا پُرمسرت منظر ہوتا تھا۔ صبح دس بجے وہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھی۔ سہ پہر تین بجے وہ مرچکی تھی اوراس کی میت تدفین کے لیے تیار تھی۔ ایک پہاڑی گھاٹی کے دامن میں بتیس کنویں کھودے گئے جن میں سے صرف چھے میں پانی موجود تھا۔ ایک میں ایک جانور گر گیا جس سے پانی زہریلا ہو گیا۔ دوسروں کا پانی اتنا کڑوا اور کھارا تھا کہ سپاہیوں نے بتایا کہ ان کی پانی کی بوتلوں کا رنگ سیاہ ہو گیا۔‘‘فوجی قافلے پر بلوچی ڈاکوئوں کے بڑھتے ہوئے حملے بھی پریشان کن تھے۔ ناکافی سفارتکاری اور مقامی سرداروں سے رابطے کی کمی کے سبب علاقائی قبائل برطانوی فوجوں کو آسان شکار سمجھتے تھے۔ عموماً مسلح سپاہیوں کو چھوڑ دیا جاتا تھا۔ لیکن غیر محفوظ ملازمین کو روزانہ لوٹا اور قتل کیا جاتا تھا۔ شکارپور سے روانگی کے ایک ہفتہ بعد ایک کنویں کے پاس ایک عورت کو مردہ پایا گیا۔ اس کے لمبے سیاہ بال پانی کی لہروں میں تیر رہے تھے۔ اس کا گلا دونوں کانوں تک کاٹا گیا تھا۔مقتول افراد کو سڑک کے کنارے پر گلنے سڑنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ رات کی چاندنی میں ایک بھی درخت، جھاڑی یا گھاس کی پتی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ ہر طرف ریت ہی ریت تھی۔ اس خطے میں کوئی پرندہ بھی موجود نہیں تھا۔ حتیٰ کہ کوئی گیدڑ تک نہیں تھا۔ ہم اکثر اونٹوں کی گلتی سڑتی لاشوں کے قریب سے گزرتے تھے اور اگر وہاں گیدڑ ہوتے تو وہاں ضرور پہنچتے۔ ہمارے اونٹوں کو کئی دنوں تک کھانے کو کچھ نہیں ملا اور طویل سفر اور بھوک کی وجہ سے ایک ہی رات میں پینتالیس اونٹ مر گئے۔ان گرم چاندنی راتوں کے سفر کے دوران اکثر سپاہیوں نے اس شخص کی پہلی جھلک دیکھی جس کی خاطر وہ اپنی جانیں خطرے میں ڈال رہے تھے۔ ایک نوجوان گھڑسوار فوجی افسر نیول چیمبرلین نے اس کے بارے میں لکھا ’’شاہ شجاع ایک ساٹھ سالہ بوڑھا آدمی ہے۔ اس کی سفید ڈاڑھی کمر تک لمبی ہے جس کو وہ رنگ کرتا ہے تا کہ وہ کم عمر نظر آئے۔ وہ ایک لمبا کھلا جبّہ پہنتا ہے جس کو بارہ آدمی اٹھا کر ساتھ چلتے ہیں۔ اس کی معیت میں پیادہ، نوکر، گھڑسوار، ہاتھی، گھوڑے اور ایک سو سپاہی ہوتے ہیں۔شجاع نے سفر میں بنیادی ضروریات کی کمی کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا لیکن دوسروں کی طرح وہ بھی منصوبہ بندی کی کمی، بلوچوں، راہزنوں اور بار برداری والے اونٹوں کی اموات پر پریشان تھا۔ اس کو اپنے مستقبل کے عوام کی طرف سے سردمہری کا بھی گِلہ تھا جو وہ اس کے خطوط کے جواب میں دکھا رہے تھے۔ جب سے میک نیگٹن نے اس کو تخت پر بحالی کے منصوبے سے آگاہ کیا تھا وہ بڑی گرمجوشی سے مختلف افغان قبائلی سرداروں سے خط کتابت میں مصروف تھا اور ان پر زور دے رہا تھا کہ وہ اس کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں اور اپنی وفاداری اور حمایت کی پیش کش کریں جس کے بدلے میں ان کے قدیم حقوق اور زمینیں مستقل طور پر بحال کردی جائیں گی۔لیکن جواب میں مکمل خاموشی تھی سوائے چند غلزئی اور خیبر سرداروں کے جنھوں نے جواب میں اس سے روپیہ طلب کیا۔ علاوہ ازیں خان آف قلات مہراب خان جس کے علاقے میں اب یہ قافلہ داخل ہونے والا تھا، نے بھی اس مہم جوئی کی مخالفت کر دی تھی۔ مہراب خان‘ شجاع کا وفادار ساتھی تھا اور اس نے قندھار کی شکست کے بعد شجاع کو پناہ بھی دی تھی۔ لیکن جب برنس نے اس سے اخلاقی اور مادی مدد کی درخواست کی تو اس نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ غیرملکی فوج کو افغانستان میں لے جانا شاہ شجاع کی بڑی غلطی ہے جس کی وجہ سے وہ افغان قوم کے دل نہیں جیت سکتا۔ آخر میں اس نے جو الفاظ کہے وہ ضرب المثال کی طرح مشہور ہو چکے ہیں۔ ’’آپ ایک فوج کو افغانستان کے اندر تو لا سکتے ہیں لیکن اسے نکال کر کیسے لے جائیں گے؟‘‘قافلہ دادڑ کے گرم تھور زدہ سفید دلدلی علاقے سے گزر کر جنوبی افغانستان کے چمکتے ہوئے عظیم پہاڑوں کے دامن میں چھوٹی پہاڑیوں کے قریب پہنچ چکا تھا۔ علاقہ ابھی تک گرم، خشک اور بنجر تھا۔ چڑھائی آہستہ آہستہ عمودی اور تکلیف دہ ہوتی گئی حتیٰ کہ اچانک درہ بولان کا سیاہ قیف نما دہانہ فوجی دستوں کے سامنے آ گیا۔ ستر میل طویل درے کے پہلے چار میل کا راستہ اتنا تنگ تھا کہ ایک وقت میں صرف ایک اونٹ ہی گزر سکتا تھا۔اب جب دریا کی خشک گزرگاہ میں گرنے والے پتھروں کے اوپر سے گھڑسوار دستے رکاوٹوں کو عبورکرتے ہوئے گزرنے لگے تو کمانڈروں کی غلطیاں بے تحاشا حادثات اور اموات کا باعث بننے لگیں۔ پیادہ فوج کی سرما کی وردیاں اتنی گرم تھیں کہ وہ جھلسا دینے والی حدت میں عمودی چڑھائی کے لیے ہرگز موزوں نہ تھیں۔ گرم چٹانیں تندور کی طرح آگ کی شعاعیں چہروں پر پھینک رہی تھیں۔ دن کے وقت خیموں کے اندر درجہ حرارت 119درجے تھا۔سڑکوں کی حالت اتنی خراب تھی کہ ان پر توپ خانے کی گاڑیاں نہیں گزر سکتی تھیں۔ شروع میں ہر توپ گاڑی کے آگے آٹھ گھوڑوں کو جوتا گیا اور رسے کھینچنے والے سپاہیوں کی قطاریں بنائی گئیں۔ جب سڑک مزید پتھریلی اور عمودی ہو گئی تو توپوں کو گاڑیوں سے اتار کر ہر توپ اور ہر گاڑی کو ہاتھوں کی طاقت سے دوسری طرف پہنچایا گیا۔ میجر ولیم ہائو لکھتا ہے: ’’چڑھائی اتنی عمودی تھی کہ کچھ اونٹ اور گھڑسوار سواری کرنے سے گھبراتے تھے۔ چند اونٹ گر پڑے جس سے راستہ بند ہو گیا۔بلوچی راہزنوں نے سازوسامان پر حملہ کردیا اور انچاس اونٹوں پر لدی ہوئی گندم چرا کر لے گئے۔ عقبی محافظ دستے نے دیکھا کہ بہت سے غیر فوجی ملازمین کی مسخ شدہ لاشیں سڑک پر پڑی تھیں۔ رات کے وقت فضا اونٹوں کی بلبلاہٹ اور نوکروں کی ماتمی آہ و زاری سے معمور ہوتی تھی۔ بہت سے سپاہی گرم خشک ہوا میں سانس لیتے ہوئے اور پانی مانگتے ہوئے گر گئے اور جاں بحق ہو گئے۔‘‘سیٹن لکھتا ہے: ’’مردہ اونٹوں کی بدبو ناقابل برداشت تھی۔ حرارت، گرد، صحرائی ہوا اور بے شمار مکھیوں کے ہاتھوں پیش آنے والے مصائب کو نہیں بیان کیا جا سکتا۔ پورا کیمپ مردار خانے کی بدبو میں ڈوبا ہوا تھا۔ کوئی شخص کیمپ میں مردہ یا مرتے ہوئے انسان یا حیوان کو دیکھے بغیر تین قدم بھی نہیں چل سکتا تھا۔‘‘خوراک کی قلت کا مطلب تھا نصف راشن اور اب اس کو چوتھائی کر دیا گیا۔ غیر فوجی ملازمین کو کھانے کے لیے بھیڑ کی بھنی ہوئی کھال اور جانوروں کا جما ہوا خون دیا جاتا تھا یا پودوں کی جڑیں جو وہاں دستیاب تھیں۔ وحشیانہ تشدد کے اِکا دُکا واقعات ہر کسی کو بے حوصلہ کرنے کے لیے جاری رہتے تھے۔ ولیم ہائو لکھتا ہے: ’’توپ خانے کے دو سارجنٹوں کو پکڑ لیا گیا اور ان کے چہرے کو مسخ کر دیا گیا۔ بڑی تعداد میں کمزور گھوڑوں کو ہلاک کرنا پڑا جب کہ بیشتر سامان کو پھینک دیا گیا یا جلا دیا گیا تاکہ وہ بلوچوں کے ہاتھ نہ لگ سکے۔‘‘ سپاہی سیتارام یاد کرتے ہوئے کہتا ہے ’’یہ جہنم کا دہانہ تھا۔ بہت ہی تھوڑے کنوئوں میں پانی تھااور وہ کڑوا تھا۔ہر چیز حتیٰ کہ جلانے کی لکڑی بھی اونٹوں پر لانی پڑتی تھی۔ بلوچیوں نے ہمیں خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا تھا۔ وہ شب خون مارتے تھے اور اونٹوں کی لمبی قطاروں کو ہانک کر لے جاتے تھے۔ گرمی اتنی زیادہ تھی کہ بہت سے سپاہی مر گئے۔ ایک دن میں پینتیس افراد موت کا شکار ہوئے۔ کمپنی کی فوج کے سپاہی ہندوستان واپس جانے کا عزم کر چکے تھے اورکئی رجمنٹوں میں بغاوت کے آثار نمایاں تھے۔ تاہم جزوی طور پر شاہ شجاع کے پرکشش وعدوں اور جزوی طور پر بلوچوں کے خوف سے فوجیں آگے بڑھتی گئیں۔ بہت سے افراد قبائلیوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ انھیں جب بھی موقع ملتا وہ ہر کسی کو قتل کر دیتے اور پہاڑوں کی ڈھلوانوں سے ہمارے اوپر بڑے بڑے پتھر لڑھکا دیتے تھے۔مرزا عطا نے لکھا ہے: ’’شاہ شجاع کا قافلہ خوش قسمت تھا کہ وہ بلوچ بندوق برداروں کی گولیوں کو دھوکا دے کر اور پہاڑوں کی آڑ لے کر زندہ و سلامت درے میں سے گزر گئے۔ درے سے گزرنا انتہائی مشکل کام تھا۔ فوجی اور دوسرا سازوسامان رسوں سے کھینچ کر اوپر چڑھایا جاتا تھا۔ اس عمل میں بڑی تعداد میں اونٹوں، گھوڑوں، بیلوں اور سپاہیوں سے ہاتھ دھونا پڑے جو پانی اور خوراک کی کمی سے مارے گئے۔ انھوں نے اس بے آب جہنمی درے میں تین دن رات گزارے۔خوراک کی اتنی قلت تھی کہ سونے کے ایک دینار کے عوض آدھ سیر آٹا دستیاب نہ تھا۔‘‘ شجاع نے درے سے ویڈ کو لکھ بھیجا کہ وہ ان قبائلیوں کو کسی مناسب وقت پر سزا دے گا۔ نیز اس نے اپنی تشویش کا اظہار کیا کہ کابل کے غاصب حکمران‘ لوگوں کو اس کے خلاف کرنے کے لیے علما کو استعمال کر رہے ہیں۔ اس کی تشویش بجا تھی کیونکہ قابل نفرت فرنگی کافروں کے ساتھ اس کی وابستگی اس کا کمزور پہلو تھا۔ اس کے بارک زئی حریفوں کے حربی سازوسامان میں نسلی اور مذہبی منافرت اور خوف طاقتور ترین ہتھیار تھے۔درہ بولان سے آگے کوئٹہ تھا جو اس وقت صرف پانچ سو گھروں کا خستہ حال گائوں تھا۔ اس سے آگے ایک اور مشکل درہ کھوجک کا تھا جو بولان سے چھوٹا اور کم عمودی تھا لیکن اس سے بھی زیادہ خشک اور بنجر! مرزا عطا تحریر کرتا ہے ’’انھوں نے رات پانی کے بغیر گزاری۔ جو پانی دستیاب تھا وہ گندا اور مردہ جانوروں کی ہڈیوں وغیرہ سے بھرا ہوا تھا جس کسی نے اس کو پیا وہ پیٹ کے مروڑ اور اسہال میں مبتلا ہو گیا۔ وہ پانی کی اس قدر شدید قلت کا شکار تھے کہ دو دن تک تمام انسان اور حیوان سرکنڈوں کی طرح لرزتے رہے۔‘‘ایک افسر نے لکھا ’’اس وقت تک کیمپ کے ملازمین کے لیے خوراک بالکل ختم ہو گئی تھی۔ ان میں سے کچھ کو جانوروںکے گوبر سے اناج کے دانے چنتے اور مردار گوشت کھاتے ہوئے دیکھا گیا۔ ایک دن میں نے سڑک کنارے ایک آدمی کی لاش دیکھی جو مردہ بیل کا گوشت کھانے کی کوشش میں چل بسا تھا۔‘‘ کسی افغان سے جنگ لڑنے سے قبل ہی فوج تباہی کے دہانے پر تھی۔ لیکن کھوجک سے آگے فوج نے اپنے آپ کو چھوٹے چھوٹے درختوں اور سرسبز گھاس کے میدان میں پایا۔ خانہ بدوش کُوچی قبائل کے بکریوں اور دنبوں کے ریوڑ نظر آرہے تھے جن کی نگرانی سفید پگڑیوں اور سرخ لباس والے طویل القامت آدمی کر رہے تھے جن کے ہمراہ بڑے بڑے کتے بھی تھے۔موسم ابھی تک گرم اور خشک تھا لیکن جہاں کہیں پانی تھا وہاں پاپلر کے درختوں کی باڑھ کے پیچھے سایہ بھی موجود تھا۔ کچھ درختوں کے ساتھ انگور کی بیلیں بھی لپٹی ہوئی تھیں۔ فوج اب ایک غیر محسوس بلوچ سرحد کو پار کر کے پشتون علاقے میں داخل ہو چکی تھی۔ دھوکے باز بلوچی راہزنوں کے برعکس اچکزئی قبیلے کے گھڑسوار بڑے فخر سے برطانوی کیمپ میں آتے اور مستقبل کے غیر ملکی حاکموں سے سوالات کرتے تھے۔ جنرل ناٹ ان کی وجاہت، تہذیب اور بے خوفی سے متاثر ہوا۔جب ایک افغان نے اس سے پوچھا کہ انگریز وہاں کیوں آئے ہیں تو ناٹ نے جواب دیا کہ شاہ شجاع اپنا ورثہ واپس لینے کے لیے آیا ہے اور یہ کہ دوست محمد اس کا حقدار نہیں۔ افغان نے جواب دیا۔ ’’جس طرح تم دہلی اور بنارس پر حق رکھتے ہو اسی طرح ہمارا دوست محمد کابل پر حق رکھتا ہے اور وہ اس کو قائم رکھے گا۔‘‘ اس ٹاکرے کے بعد اس کے شک و شبے میں اضافہ ہو گیا کہ شجاع کو کس قسم کے استقبال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ’’میں حکومت اور دوسروں سے اختلاف کرتا ہوںاور واقعی یقین رکھتا ہوںکہ افغانستان کے لوگ لڑے بغیر اپنا ملک نہیں چھوڑیں گے۔ میں جانتا ہوں کہ میں بھی نہ چھوڑتا اگر میں ان کی جگہ ہوتا،‘‘ س نے کہا۔دوسرے افسروں کے ساتھ بھی ایسی ہی گفتگو ہوئی۔ ایک افسر کے ہندوستانی اردلی سے پوچھا گیا: ’’کیا تم ان فرنگیوں کو واقعی صاحب اور سر کہتے ہو؟‘‘ پوچھنے والے نے ایسے انداز میں پوچھا جیسے اس کے خیال میں ’’کافرکتا‘‘ زیادہ موزوں خطاب ہوتا۔ ایک خوش پوش افغان گھڑسوار نے ایک انگریز افسر کو نفرت بھرے انداز میں کہا ’’میں نے تمھارے فوجیوں اور کیمپ کو دیکھا ہے۔ تمھاری فوج خیموں اور اونٹوں کی فوج ہے۔ہماری فوج گھوڑوں اور آدمیوں پر مشتمل ہے۔ آپ کو کس چیز نے ترغیب دی کہ آپ کروڑوں روپے خرچ کر کے ایک غریب پہاڑی ملک میں آئیں جہاں نہ لکڑی ہے نہ پانی اور یہ سب کچھ ایک کمبخت کو ہمارے اوپر مسلط کرنے کی خاطر کریں؟ جونہی آپ لوگ جائیں گے ہمارا اپنا بادشاہ دوست محمد اس کو مزہ چکھا دے گا۔‘‘ وقت کے ساتھ گھڑسوار کی پیش گوئی درست ثابت ہو گی اور جب بغاوت پھوٹے گی تو اس خطے کے اچکزئی ہر اول دستے میں ہوں گے۔عین اس وقت فوج کے نظم و ضبط سے متعلق ایک اہم واقعہ پیش آیا۔ کمانڈر ان چیف سرجان کین کیمپ میں تشریف لائے اور انھوں نے شاہی فوج کے ایک جونیئر افسر جنرل ولشائر کو ترقی دے کرسینئیر اور تجربہ کار جنرل ناٹ کے اوپر کمپنی کی بمبئی فوج کا کمانڈر مقرر کر دیا۔ جنرل ناٹ غضب ناک ہو گیا اس نے کمانڈر ان چیف سے کہا’’مجھے قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے کیونکہ میں شاہی فوج کے افسروں سے سینئیر ہوں۔‘‘’’یہ تاثر غلط ہے۔‘‘ کین نے جواب دیا۔ ’’تم نے میرے اختیارات کی توہین کی ہے۔ جب تک میں زندہ ہوں میں تمھیں معاف نہیں کروں گا۔‘‘’’جناب والا! اگر معاملہ ایسا ہے تو میں آپ کو شام کا سلام عرض کرتا ہوں۔‘‘اس گستاخ گفتگو کا ناٹ کو یہ نقصان ہوا کہ انڈس آرمی میں سب سے زیادہ سینئیر، تجربہ کار، قابل اور ہر دلعزیز جرنیل ہونے کے باوجود اس کو نظر انداز کیا جاتا رہا اور ایسے افراد کی تقرریاں کی گئیں جو قابض فوج کے لیے تباہ کن ثابت ہوئیں۔ اب انڈس آرمی قندھار کے قریب تھی اور پہلا سنجیدہ تصادم متوقع تھا۔ بیس اپریل کی صبح انڈس آرمی کو ایک اچھی خبر ملی۔ سراغ رسانوں نے برنس کے چیف سراغرساں موہن لال کشمیری کو اطلاع دی کہ کیمپ سے تھوڑا آگے دوست محمد کا قریبی سردار حاجی خان کاکڑ اپنے دو سو ساتھیوں کے ہمراہ شاہ شجاع کے ساتھ عہد وفاداری باندھنے کے لیے تیارتھا۔ شجاع کے خطوط بارآور ہونا شروع ہو گئے تھے۔حاجی خان کاکڑ انیسویں صدی کی افغان سیاست کے حوالے سے ایک حریص، بے ضمیر اور ناقابل اعتماد شخص تھا۔ اس کے آبائو اجداد بھی عرصے سے خطے میں بادشاہ گری کا کام کرتے تھے۔ دوست محمد نے اسے پہلے بامیان کا گورنر اور پھر بہترین گھڑسوار فوج کا کمانڈر مقرر کیا۔ لیکن وہ اس سے پیشتر بھی بے وفائی کا مرتکب ہو چکا تھا۔ ۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔