پہلے اور دوسرے افغان جنگ کا مختصر تاریخ و واقعہ۔۔، آخری قسط ۔۔۔

اخلاق خان اچکزی

امین اللہ خاں اس کا نائب اور عبداللہ خان اچکزئی کمانڈر ان چیف مقرر ہوئے۔ باغیوں کی طرف سے اعلان کیا گیا: ’’لطف و کرم میں اپنے زمانے کے پھول اور مذہبی عقیدت میں اپنے عہد کے کامل رہنما غازی محمد زمان خان بارک زئی کو تمام قبائل نے امیر المومنین اور جہادی جنگجوئوں کا امام منتخب کر لیا ہے۔‘‘ اس کے فوراً بعد شہر کی گلیوں سے ملّا اور ملنگ ڈھول بجاتے ہوئے باہر نکل آئے اور انھوں نے باقاعدہ جہاد کا اعلان کر دیا۔بالاحصار میں براجمان شاہ شجاع سمجھتا تھا کہ بغاوت کے زور پکڑنے سے پہلے فوری اقدام کرنا بے حد ضروری ہے۔ وہ میک نیگٹن کی طرف سے جوابی حملہ کرنے میں ناکامی پر دل گرفتہ تھا۔ یہ بات صرف میک نیگٹن کی شکست خوردگی ظاہر کرتی تھی۔ چھائونی میں برطانوی قیادت عجیب انداز میں خاموشی اختیار کیے ہوئے تھی جیسے خوف سے منجمد ہو گئی ہو۔ آخرکار بادشاہ نے اپنے چیف سیکرٹری کو یہ پیغام دے کر میک نیگٹن کے پاس بھیجا: ’’یہ وقت تساہل اور تاخیر کا نہیں، شہر کو بچانے کے لیے فوراً دستے بھیجو۔ فساد کو قابو سے باہر ہونے سے پہلے کچل دو۔ باغی راہنمائوں کو منظم ہونے سے پہلے گرفتار کرو۔ یہ کام اب بھی کیا جا سکتا ہے۔‘‘میک نیگٹنکاخیال تھا کہ بادشاہ ضرورت سے زیادہ گھبراہٹ کا شکار ہے۔ اس نے صرف سپاہیوں کی ایک پلاٹون کچھ توپ خانے کے ساتھ بالاحصار بھیج دی تاکہ بادشاہ پر سکون ہو جائے۔ بادشاہ نے ایک مرتبہ پھر پیغام بھیجا کہ شہرمیں امن و امان بحال کرنے کی فوری ضرورت ہے ورنہ سرکش افغان قابو میں نہیںآئیں گے۔ میک نیگٹن نے جواب دیا کہ اس جلد بازی کی کیا ضرورت ہے؟ افسوس! اس نے شاہ کے مشورے پر عمل نہ کیا اور شہر میں امن بحال کرنے کے لیے کوئی قدم نہ اٹھایا۔میک نیگٹن نے برنس کے اندوہناک قتل کے باوجود صورت حال کی سنگینی کا ادراک نہیں کیا اور بغاوت کو کوئی خاص اہمیت نہ دی۔ لیکن تلخ سچائی جلد ہی سامنے آ گئی اور میک نیگٹن نے سول ہیڈ کوارٹر چھوڑ کر پسپا ہوتے ہوئے چھائونی میں پناہ لی۔ اس اثنا میں جنرل الفنسٹن نے چھائونی کی چاردیواری کے حفاظتی دستے کو دُگنا کر دیا۔ اس سے آگے برطانوی کمانڈروں نے کچھ نہ کیا اگرچہ ان کے پاس پانچ ہزار مسلح فوجی‘ گھڑسوار‘ توپ خانہ اور ایک سال تک کا گولہ بارود موجود تھا۔ اس دوران بریگیڈئیر شیلٹن نے اپنے دستوں کے ساتھ شہر کے گرد مارچ کیا۔ لیکن شہر میں داخل ہونے اور باغیوں کا سامنا کرنے سے گریز کیا۔ ایسا لگتا تھا چھائونی میں برطانوی قیادت مکمل طور پر مفلوج ہو چکی تھی۔تین نومبر کی صبح ایلڈرڈ پاٹنگر صرف ایک سو فوجیوں کے ساتھ چھوٹے سے قلعہ نما احاطے میں موجود تھا۔ یہ قلعہ کابل کے شمال میں ساٹھ میل کے فاصلے پر ایک پہاڑی چوٹی پر واقع تھا۔ اس نے دیکھا کہ بڑی تعداد میں مسلح کوہستانی برج گھر کے اردگرد جمع ہو رہے ہیں۔ جلد ہی ان کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا۔ پاٹنگر کا نائب لیفٹیننٹ چارلس رترے ایک افغان فوجی دستے کا کمانڈر تھا۔ وہ نئے بھرتی کیے ہوئے افغان سپاہیوں کا معائنہ کرنے باہر نکلا۔ نئے رنگروٹوں نے اسے گھیرا اور گولی مار دی۔ اگلی رات پاٹنگر اور اس کا حفاظتی دستہ گولہ بارود کی کمی ہونے پر باہرنکلے اور لڑتے ہوئے وادی میں برطانوی بیرکس تک پہنچ گئے۔ بیرکس کی تعمیر نامکمل تھی اور وہ بغیر دروازے کے تھیں۔ وہاں سات سو پچاس گورکھا سپاہی اور دو سو عورتیں اور بچے مقیم تھے۔ اب ایک نئے مسئلے نے سر اٹھا لیا۔ان محصور فوجیوں کے پاس پانی ختم ہو گیا۔ جو بھی نہر یا چشمے سے پانی لینے باہر جاتا، باغی اسے گولی ماریتے ۔ چاردیواری کے اندر پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا اور آدمی پیاس سے نڈھال ہو رہے تھے۔ اڑتالیس گھنٹوں کے اندر بیس ہزار تاجک باغیوں نے پاٹنگر اور گورکھا فوجیوں کو محصور کر لیا۔ ایسا لگتا تھا کہ ملک کی ساری مردانہ آبادی وہاں اکٹھی ہو چکی ہے۔ اگلے دن محاصرین نے قریبی قلعے پر قبضہ کر لیا اور وہاں سے توپوں کے گولے احاطے کے اندر گرنے لگے۔جلد ہی ایک گولی پاٹنگر کی ران میں لگی اور وہ بری طرح زخمی ہو گیا۔ اس کا فوجی کمانڈر کیپٹن کرسٹوفر چھاتی میں گولی کھا کر مہلک طور پر زخمی ہوا۔ آئندہ دنوں میں آدھا کپ پانی صرف لڑنے والے سپاہیوں کو دیا جاتا تھا اور اس کا بھی زیادہ حصہ کیچڑ پر مشتمل ہوتا۔ لڑنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے لیکن پانی کے بغیر لڑنا تقریباً ناممکن ہے۔ اختتام ہفتہ پر سارے محصورین نفسیاتی مریض بن چکے تھے۔ شمالی افغانستان میں راتوں رات ہر گائوں انگریزوں کا دشمن بن گیا۔درۂ خیبر میں برطانوی چوکی پش بلاک پر حملہ کیا گیا اور فوجیوں کو مجبوراً پشاور تک پسپا ہونا پڑا۔ کابل کے جنوب میں کیپٹن کرافورڈ کی قیادت میں سپاہیوں کی ایک پارٹی قندھار سے باغی افغان سرداروں کے ایک گروہ کو غزنی لے جا رہی تھی۔ وہ ساری رات چلتے رہے اور صبح موشکی پہنچے۔ آٹھ بجے کے قریب موشکی میں تلواروں اور بندوقوں سے مسلح پانچ سو آدمیوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ کئی مارے گئے۔ باقی بھاگ کر دوسرے قلعوں میں جا چھپے۔جلد ہی غلزئی قبیلے کی ایک بڑی فوج نے غزنی کا محاصرہ کر لیا۔ صرف قندھار پرامن رہا کیونکہ وہاں جنرل ناٹ اپنی عقابی نظروں کے ساتھ موجود تھا۔ جنرل ناٹ لکھتا ہے ’’مجھے دشمن سوتا ہوا نہیں پائے گا جس طرح میرے کابل کے دوست پائے گئے۔‘‘اُدھر کابل میں اب صرف قلعہ نشان خان باقی بچا جہاں خوراک اوررسد کافی مقدار میں موجود تھی۔ اس قلعے کا کمانڈر کولن میکنزئی لکھتا ہے: ’’صورت حال اتنی خراب تھی کہ افغان حملہ آور ہمارے محافظوں کو گولیوں کا نشانہ بنانے لگے۔ انھوں نے ہمارے دروازے نذر آتش کرنے کی خاطردیواروں کے نیچے لکڑیوں کا ڈھیرلگا دیا۔ ہمارے گھڑسوار نیم باغیانہ انداز میں بھاگ نکلنے کو تیار ہوئے لیکن میری شدید وارننگ پر اس اقدام سے باز رہے۔ لگتا تھا کہ ہمیں ہمارے ہی ہم وطنوں نے چھوڑ دیا۔’’جب گولہ بارود تقریباً ختم ہو گیا تو افغان دستے کا کمانڈر حسن خان میرے پاس آیا اور کہا ’’میرا خیال ہے ہم اپنا فرض ادا کر چکے۔ اگر تم ضروری سمجھتے ہو کہ ہم یہاں مر جائیں تو ہم مر جائیں گے لیکن ہم اپنی پوری کوشش کر چکے ہیں۔‘‘ میں نے اس کے ساتھ اتفاق کیا اور پسپائی کے انتظامات کرنے لگا۔ ہم نے منصوبہ بنایا کہ غروب آفتاب کے فوراً بعد نکل جائیں گے جب محاصرین اپنے افطار کھانے میں مصروف ہوں گے کیونکہ یہ رمضان کا مہینا تھا۔فیصلہ ہوا کہ تمام سامان اور خوراک وہیں چھوڑ دیں اور دیہات سے بچتے ہوئے نہر کے ساتھ ساتھ چھائونی تک پہنچیں۔’’مگر میرے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کئی غریب عورتوں نے اپنا سامان اپنے کندھوں اور سروں پراٹھا لیا اور بچوں کو پیدل چلایا جن کی چیخوں سے ہمارا فرار ظاہر ہو گیا۔ ’’میکنزئی رقمطراز ہے: ’’رات کے وقت پسپائی عموماً تباہ کن ہوتی ہے۔ ہم ابھی نصف میل دور گئے تھے کہ فائرنگ شروع ہو گئی۔ میں دو سواروں اور ایک چپراسی کے ساتھ افغان دستے سے الگ ہو گیا۔ میں چیختی چلاتی ہوئی عورتوں اور بچوں کے درمیان فائرنگ کی زد میں کھڑا تھا۔ جلد ہی باغیوں نے مجھے گھیر لیا اور ’’یہ فرنگی ہے‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے تلواروں سے مجھ پر حملہ کیا۔’’میں نے گھوڑے کو ایڑ لگائی، دائیں سے بائیں چکر کھاتے ہوئے ان کے حملوں کا جواب دیا اور سب سے دلیر حملہ آور کا بازو کاٹ دیا۔ لیکن اس کے فوراً بعد میرے سر کے پچھلے حصے پر اتنا زور دار وار ہواکہ میں تقریباً گھوڑے سے گر گیا۔ایک پائوں پر لٹکتے ہوئے میں نے دشمن کے پہنچنے سے پہلے خود کو سیدھا کیا اور فائرنگ سے بچتا تیز رفتاری سے آگے نکل گیا۔‘‘آخر کار وہ چھائونی پہنچ گئے۔ رات کے وقت ان کی پارٹی کے مزید افراد آ گئے۔ اس ساری کارروائی میں درجن بھر آدمی مارے گئے۔ لیکن کولن میکنزئی نے پچاس جوانوں کے ساتھ جو تاریخ رقم کی، وہ چھائونی میں موجود پانچ ہزار فوجی نہ کرسکے۔ ہر قابل ذکر انٹیلی جنس ادارے نے اعتراف کیا ہے کہ اگر ایک دو رجمنٹ فوجی اس قلعے میں بھیج دیے جاتے تو انگریز شہر پر اپنا قبضہ برقرار رکھ سکتے تھے۔یوں انگریز جرنیلوں کی بے عملی کے سبب نہ صرف خزانہ باغیوں کے ہاتھوں میں گیا بلکہ چار لاکھ روپے مالیت کی گندم، جو‘ شراب اور دوسری ضروریات زندگی دشمن پر وار کیے بغیر ان کے حوالے کر دی گئیں۔ یہ سب کچھ بغاوت رونما ہونے کے صرف چھتیس گھنٹے کے اندر رونما ہوا۔ یہ بات افغانوں کے لیے بھی حیران کن تھی کہ پانچ ہزار آدمیوں کی برطانوی فوج جس کے اعلیٰ نظم و نسق، بلند کردار، حوصلے اور قیادت کی دانائی کی کہانیاں انھوں نے سن رکھی تھیں، خاموشی سے بیٹھی باغیوں کو چھائونیوں کے دروازوں تک پہنچتے ہوئے دیکھتی رہی۔تاہم افغان قوم کی آنکھیں کھل چکی تھیں۔ ہر شخص انگریزوں کا دشمن اور انھیں انتہائی قابل نفرت سمجھتا تھا۔ دوپہر تک دور و نزدیک سے ہزاروں افغان جمع ہوئے اور انگریزوں کا مال غنیمت لوٹ کر لے گئے۔ انگریز چھائونیوں میں بیٹھے بے بسی سے یہ سب کچھ دیکھتے رہے۔ان حالات میں کابل کی محصور چھائونی میں بھوک اور قحط کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ فوجیوں کو نصف راشن دیا جانے لگا۔ ادنیٰ ملازمین اور بار برداری والے جانوروں پر سب سے زیادہ آفت ٹوٹی اور قحط کا نشانہ سب سے پہلے وہی بنے۔ ہپوجانسن اپنی ڈائری میں لکھتا ہے: ’’ہمارے مویشی کئی دنوں سے فاقہ کشی کا شکار ہیں۔ ان کے لیے گھاس کا ایک پتا یا چارہ دستیاب نہیں۔ اسٹور میں موجود جو‘ ملازمین کو ایک پائو روزانہ کے حساب سے دیا جاتا ہے۔ہمارے مویشی درختوں کی شاخوں اور چھال پر زندہ ہیں۔ مشکل ہی سے کوئی جانور بوجھ اٹھانے کے قابل ہے۔‘‘ایک ہفتے بعد صورت حال مزید سنگین ہو گئی۔ ’’ہمارے ملازمین کو دو دن سے کھانے کو کچھ نہیں ملا سوائے بھوک سے مرنے والے اونٹوں اور گھوڑوں کی لاشوں کے۔ درختوں کی شاخیں اور چھال بھی دستیاب نہیں۔ چھائونی کے تمام درخت ٹنڈمنڈ ہو چکے۔‘‘ سرما کی آمد کے ساتھ ہی مصیبت دو چند ہو گئی۔ برفباری سے درجہ حرارت گر گیا۔ دراصل غلے اور چارے کی فراہمی غلزئی قبائل کی ذمہ داری تھی۔ جب میک نیگٹن نے ان کی تنخواہ میں کٹوتی کر دی تو انھوں نے انتقاماً خوراک فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔تقریباً اسی وقت باغی لوٹی ہوئی توپوں سے چھائونی پر بمباری کرنے لگے۔ اگرچہ افغانوں کے پاس تربیت یافتہ توپچی نہیں تھے، پھربھی دیواروں کے اندر گرنے والے گولے محصور فوجیوں کے اعصاب شل کرنے لگے۔ اس دوران قلعہ محمد شریف سے فائرنگ شروع ہو گئی۔ یوں وہ چھائونی سے باہر نکلنے والے برطانوی فوجیوں کو نشانہ بنا سکتے تھے۔ چھے نومبر کو الفنسٹن نے فائرنگ کا جواب دینے سے منع کر دیا کہ یوں اسلحہ ختم ہو جائے گا۔ حالانکہ ان کے پاس اتنا اسلحہ تو تھا کہ ایک سال تک محاصرہ برداشت کر لیتے۔اب یہ واضح ہو گیا کہ جنرل الفنسٹن انگریز فوج پر بوجھ بن چکا۔ لوگ کہنے لگے کہ اسے ہٹا دیا جائے۔ لیڈی سیل نے اپنی ڈائری میں لکھا: ’’بچارہ جنرل مختلف آرا کی روشنی میں منتشر الخیال ہو گیا۔ جسمانی بیماریوں نے اس کے حواس کمزور کر ڈالے۔ پسپائی کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ہمارے فوجی قیادت کی نااہلی کی وجہ سے کم حوصلگی اور بے اعتمادی کا شکار ہو چکے۔ چھائونی پر گولہ باری اور فائرنگ بڑھ رہی ہے۔ بہت سے انگریز افسر روتے ہوئے پائے گئے۔ وہ اپنی ذلت اور بے بسی کا الزام جرنیلوں پر لگاتے۔‘‘۹/ نومبر کو میک نیگٹن نے بیمار، مایوس اور شکست خوردہ الفنسٹن کی جگہ شیلٹن کو بالاحصار سے چھائونی میں بلا لیا۔یہ ایک بڑی غلطی تھی کیونکہ وہ بھی اتنا ہی نااہل اور بے عمل ثابت ہوا۔ وہ کھلے عام پسپائی کی باتیں کر رہا تھا۔ اس نے زور دیا کہ انھیں فوراً پیچھے ہٹ کر جلال آباد چلے جانا چاہیے۔ اس سے فوجی قیادت اہم معاملات پر تقسیم ہو گئی۔ بالاحصار سے شیلٹن کی روانگی کے بعد شاہ شجاع قلعے میں بالکل تنہا رہ گیا۔ صرف اس کے ذاتی محافظ اور مٹھی بھر انگریز افسر وہاں رہ گئے۔ بادشاہ محاصرے کے دوران حرم سرائے کے دروازے کے پاس بیٹھا رہتا۔ شاہی دربار کے تکلفات معطل ہو گئے۔ اب افسر اس کے پاس کرسیوں پر بیٹھتے۔ وہ دوربین کی مدد سے چھائونیوں میں پیش آنے والے مناظر نہایت بے بسی اور افسردگی سے دیکھتا۔ اس کے ہوش و حواس تقریباً جواب دے چکے تھے۔۱۰/ نومبر کو ’’بی بی مہرو‘‘ پہاڑی کے اردگرد لڑائی زور پکڑ گئی کیونکہ برطانوی فوج کے لیے خوراک کی رسد کا یہی واحد ذریعہ تھا۔ ۱۰؍نومبر کو باغیوں نے پہاڑی پر قبضہ کر لیا۔ تین دن بعد باغیوں نے دو توپوں کو چوٹیوں پر پہنچایا اور وہاں سے چھائونی پر گولے برسانے لگے۔ میک نیگٹن نے بریگیڈئیر شیلٹن کو حکم دیا کہ ان توپوں کے خلاف کارروائی کرے۔ شیلٹن نے پیادہ فوج کے ساتھ ایک بڑا زمینی حملہ کیا۔ لیکن افغان گھڑسواروںنے بلندی سے ان پر حملہ کیا اور سیکڑوں انگریزوں کوگھاس کی طرح کاٹ ڈالا۔مرزا عطا کے مطابق برطانوی فوج نے اسّی آدمیوں کی ہلاکت اور دو سو زخمیوں کے نقصان کے بعد ایک توپ کو ناکارہ بنایا اور دوسری کو گھسیٹ کر چھائونی لے آئے۔ پندرہ نومبر کو برطانوی فوجیوں کے حوصلے کو ایک کاری وار لگا جب چاریکر کی ۷۵۰؍افراد پر مشتمل فوج میں سے صرف دو آدمی یعنی ایلڈرڈ پاٹنگر اور جان ہاٹن محاصرین کا دائرہ توڑ‘ اپنی جان بچا کر کابل پہنچنے میں کامیاب ہو سکے۔دس روزہ محاصرے میں پیاس کی شدت اور محاصرین کی بڑھتی تعداد سے خوفزدہ پاٹنگر نے فیصلہ کیا تھا کہ رجمنٹ کے کچھ سپاہیوں کو بچانے کا واحد راستہ کابل کی طرف پسپائی ہے۔ جونہی پاٹنگر کے فوجی دروازے سے باہر نکلے، کوئی نظم و ضبط قائم نہ رہا۔ پانی کی تلاش میں دیوانہ وار بھاگتے فوجیوں کو باغیوں نے گولیوں سے بھون دیا۔ تین سو سپاہی زخمی ہو کر پیچھے رہ گئے۔ بہت سے سپاہیوں اور ان کی بیویوں کو گرفتار کر لیا گیا۔انھیں تاجک سرداروں نے آپس میں تقسیم کیا اور فوراً غلام بنا کر فروخت کر دیا۔ حوالدار موتی رام کو دشمنوں نے گرفتار کر لیا۔ وہ اسے مار ڈالنے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ اس نے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا اور کلمہ سنایا جس پر اُسے رہا کر دیا گیا۔۲۳؍نومبر کو میر مسجدی کی زیر قیادت کافی تعداد میں جنگجو بی بی مہرو پہاڑی پر جمع ہوئے اور توپوں سے چھائونی پر گولے برسانے لگے۔ بغاوت کا راہنما عبداللہ خان اچکزئی بھی لڑائی کی جگہ پہنچا۔انھوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر حملہ شروع کیا۔شیلٹن نے افغان گھڑسواروں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی پیادہ نفری کے دو حصے کیے۔ لیکن افغان فوراً پیچھے ہٹے اور پتھروں اور چٹانوں کے پیچھے چھپ کر گولیاں برسانے لگے۔ انگریز سپاہی ان کا آسان ہدف تھے۔ تاریخ سلطانی کے مطابق عبداللہ خان اچکزئی نے جو بہادری کے لیے مشہور تھا اور شہادت کی دعا مانگتا تھا، شیر کی طرح انگریز دستے پر حملہ کیا۔ انھوں نے ایک توپ چھین لی اور برطانوی پیادہ سپاہیوں کو پیچھے دھکیل دیا۔ انگریز سپاہی اس حملے کا مقابلہ نہ کر سکے اور بھاگ گئے۔ لیڈی سیل لکھتی ہے: ’’دشمن نے حملہ کیا اور ہمارے سپاہیوں کو بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح ہانک کر لے گئے۔بہرحال بعدازاں شیلٹن نے اپنے باقی پیادہ سپاہیوں کے ساتھ جوابی حملہ کیا اور اپنی توپ بازیاب کروالی۔ سنگینوں کی اس دست بدست لڑائی میں میر مسجدی اور عبداللہ خان اچکزئی دونوں شہید ہوئے۔ اگر غازی عبداللہ خان شہید نہ ہوتے تو ان کے ساتھی اسی روز چھائونی پر قبضہ کر لیتے۔شیلٹن نے باقی ماندہ فوجیوں کو اکٹھا کیا اور ان کی صف بندی کی لیکن کسی ناقابل تشریح سبب کی بنا پر دشمن پہ حملہ نہ کیا۔ اس اثنا میں افغان شمشیر زنوں کی ایک اور پوشیدہ پارٹی نے آخری حملہ کیا۔ اس مرتبہ تمام برطانوی فوجی صفیں توڑ کر چھائونی کی طرف فرار ہو گئے۔ افغان گھڑسواروں نے ان کا تعاقب کیا۔ ایسا نظرآتا تھا کہ تمام ترتیب اور نظم و ضبط ختم ہو چکا۔بریگیڈئیر شیلٹن کی مکمل نااہلی نے سپاہیوں کے اعتماد کو متزلزل کر دیا۔ یہ واقعہ جنگ کا اہم موڑ ثابت ہوا۔ اس دن گیارہ سو میں سے تین سو انگریز مارے گئے۔ پیچھے رہ جانے والے زخمیوں کے پیٹ چاک کر دیے گئے اور ان کے بے بس بیوی بچے یہ دلدوز منظر دیکھتے رہے۔اسی رات برطانوی حکام کو ایک اور بری خبر ملی۔ دوست محمد کے جنگجو اور جنگی حکمت عملی میں انتہائی موثر بیٹے اکبر خان کا شہر میں زبردست استقبال ہوا۔ وہ چھے ہزار ازبک گھڑسواروں کی قیادت کرتا ہوا بامیان سے کابل پہنچا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کے آنے سے زندگی کے باغ میں بہار لوٹ آئی۔ چند دن کے اندر اکبر خان نے چھائونی کے تمام راستے موثر طور پر بند کر دیے۔ ملائوں کو دیہات میں بھیجا گیا کہ وہ کسانوں کو انگریزوں کے ہاتھ اشیائے خوردنی فروخت کرنے سے منع کر دیں۔ چھائونی کے عقب میں دیہات پر قبضہ کر کے فوج متعین کر دی گئی۔ دریائے کابل پر لکڑی کا پل جلا دیا گیا۔ یہ پل چھائونی کو بالاحصار اور جلال آباد کی سڑک سے ملاتا تھا۔ عبداللہ خان اچکزئی اور میر مسجدی کی شہادت کے بعد باغیوں کی قیادت اکبر خان کے سسر اور طاقتور غلزئی کی سردار محمد شاہ خان کے ہاتھ میں آ گئی۔ اب غلزئی اور بارک زئی قبائل میں مکمل اتحاد ہو گیا۔اُدھر چھائونی میں قیامت کا سماں تھا۔ یخ بستہ ہوائوں اور بھوک نے محصورین کے حوصلے اور ہمت کو پست کر دیا۔ گھوڑے اس حد تک بھوکے تھے کہ خیمے کی چوبی کھونٹیاں چباتے اور اپنا ہی گوبر کھاتے پائے گئے۔ لیڈی سیل نے دیکھا کہ ایک گھوڑے نے دوسرے کی دم دانتوں سے کاٹی اور ہڑپ کر گیا۔ جب کہ اس کی گھوڑی ایک بگھی کے پہیے چبانے کی کوشش کر رہی تھی۔مرزا عطا لکھتا ہے: ’’کابل میں اتنی زیادہ برفباری ہوئی کہ انگریز فوجی برفانی آدمی (Snowmen) بن گئے۔ کئی بھوک سے چل بسے۔ دوسروں نے باربردار اونٹوں اور بیلوں کو ذبح کیا تاکہ مسلمان فوجی گوشت کھا سکیں اور ہندو ان کی کھالیں۔ اس جہنم زار کے انتہائی نامساعد حالات میں مذہبی اختلافات اور ممنوعات بھلادی گئیں۔کیمپ کے ملازمین جنھیں مردہ گھوڑوں اور اونٹوں کا گوشت بھی میسر نہ تھا، آوارہ کتوں کو بھون کر کھانے لگے۔کابل کے سرداروںاور امرا کے مشورے سے اکبر خان نے میک نیگٹن کو ملاقات کے لیے خط لکھا۔ فریقین کابل سے باہر مقررہ جگہ پر پہنچے۔ دونوں گرم جوشی سے ملے اور پھر انھوں نے تنہائی میں بات چیت کی۔ دونوں کے درمیان تحریری معاہدہ طے پایا کہ میک نیگٹن اور اس کے فوجی ایک انگریز افسر کو بطور یرغمال کابل چھوڑ کر واپس ہندوستان چلے جائیں۔ جب اکبر خان کے والد امیر دوست محمد غیر ملکی حراست سے رہا ہوئے تو یرغمال افسرکو بھی باعزت چھوڑ دیا جائے گا۔ انگریز حکام کاخیال تھا کہ اس معاہدے کے بعد مزید تصادم پیش نہیں آئے گا۔لیکن میک نیگٹن نے شاہ شجاع اور اس کے خاندان کو اکبر خان کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ اسی بنا پر دونوں کے درمیان سفارتی تعلقات ختم ہو گئے۔ اسی دوران میک نیگٹن کی یہ امید کہ جلال آباد، غزنی یا قندھار سے کمک مل سکتی ہے‘ دم توڑ گئی کیونکہ تینوں مقامات پر برطانوی فوج کو محصور کر دیا گیا۔ کابل چھائونی میں صرف ایک دن کی خوراک باقی تھی۔ الفنسٹن اور شیلٹن مایوس اور مفلوج ہو چکے تھے۔ فاقہ زدہ اور شکست خوردہ فوجی بغاوت پر آمادہ تھے۔ان گمبھیر حالات میں ۸؍دسمبر کو برطانوی کمانڈروں کا طوفانی اجلاس ہوا۔ تب الفنسٹن، میک نیگٹن اور شیلٹن آپس میں بول چال کے بھی روادار نہ تھے۔ الفنسٹن نے میک نیگٹن کا خط پڑھا جس میں ہتھیار ڈالنے کے لیے مذاکرات شروع کرنے کو کہا گیا تھا۔ فوجی کمانڈروں نے میک نیگٹن کو حکم دیا کہ وہ شاہ شجاع کا تحفظ نظر انداز کرتے ہوئے صرف برطانوی فوجی افسروں اور جوانوں کی افغانستان سے فوری اور بحفاظت واپسی کے لیے اکبر خان سے ضمانت حاصل کرے۔دریائے کابل کے یخ بستہ کنارے پر فریقین میں ملاقات ہوئی۔ دو گھنٹے مذاکرات کے بعد میک نیگٹن اور اکبر کے درمیان معاہدہ طے پا گیا اس معاہدے میں جس شخص سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا وہ شاہ شجاع تھا۔ حالانکہ اسی کی خاطر افغانستان پر چڑھائی کی گئی۔ سوانح نگار محمد حسین ہراتی کے مطابق شاہ نے اس معاہدے پر غم و غصے کا اظہار کیا۔ اس نے میک نیگٹن کو خط لکھا: ’’کیا تم ہمیں یہاں دشمنوں کے حوالے کرنے کے لیے لائے تھے؟ اس معاہدے کے ذریعے تم اپنی اور ہماری موت اور تباہی کو آواز دے رہے ہو۔‘‘ میک نیگٹن نے جواب دیا کہ اب معاہدے میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ شاہ سخت اضطراب میں مٹھیاں بھینچتا ہوا دن رات اِدھر سے اُدھر دوڑتا اور کہتا ’’میک نیگٹنکا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ یہ ہم دونوں کی موت ثابت ہو گا۔ میک نیگٹن نے شاہ کے قلعے میں موجود برطانوی سپاہیوں کو فوراً بالاحصار چھوڑنے کا حکم دیا اور اکبر کو پیغام بھیجا کہ قلعہ خالی کیا جا چکا ہے۔ وہ اپنے آدمی وہاں بھیج کر قبضہ کر لے۔ اکبر خان نے فوری طور پر دو ہزار مسلح فوجی وہاں روانہ کر دیے لیکن قلعے کے قدیم اور شاہ کے وفادار ملازمین اکبر خان کی آمد سے خوفزدہ تھے۔ انھوں نے قلعے کا دروازہ نہیں کھولا اور اکبر خان کے فوجیوں کو بھاری نقصان پہنچا کر پیچھے دھکیل دیا۔ یوں جب برطانوی افسر شاہ شجاع کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر روانگی کے لیے تیار ہو رہے تھے، اس کے گھریلو ملازمین نے سخت مزاحمت دکھائی۔ شاہ شجاع موسم بہار تک اپنے مضبوط قلعے میں کامیابی سے ڈٹا رہا۔ انگریز حکام کی بزدلی اور کمزوری کے مقابلے میں اس کا حوصلہ اور فوری اقدام قابل تعریف تھا۔ کابل میں تباہی کی خبریں وائسرائے ہند آک لینڈ کو پریشان کر رہی تھیں۔ اس دوران ٹوری پارٹی نے انتخابات جیت کر نئی برطانوی حکومت بنا لی۔ تب لارڈ آک لینڈ نے گورنر جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دے ڈالا۔ اسے اپنی غلط افغان پالیسی اور حکومت ہندوستان کے دیوالیہ پن کا احساس ہو چکا تھا۔ لارڈ ایلن برو ہندوستان کے نئے گورنر جنرل مقرر ہوئے۔ دسمبر میں کابل میں اتنی سخت برفباری ہوئی کہ پہاڑیاں اور قلعوں کی فصیلیں برف سے ڈھک گئیں۔ انڈس آرمی کے جوان سردی سے مرنے لگے۔ میک نیگٹن کو پریشانی تھی کہ تمام قلعے خالی کرنے اور سرداروں کو بھاری رقوم کی نقد ادائی کے باوجود انھیں خوراک، چارہ اور باربرداری کے جانور فراہم نہیں کیے گئے۔ اسی لیے ان کی روانگی کی تاریخ ۱۴؍دسمبر خاموشی سے گزر گئی۔ انگریزوں کی کمزوری اور بے بسی دیکھ کر اکبر خان نے مزید توپوں اور یرغمالیوں کے مطالبات پیش کر دیے۔ اب میک نیگٹن موہن لال کشمیری اور نظام الدولہ کے ساتھ مل کر’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘کی سازشی پالیسی کے مطابق بیک وقت کئی منصوبوں پر غور کرنے لگا۔ میک نیگٹن نے اکبر خان کے مخالف باغی سرداروں کو خط لکھ دیا کہ جو کوئی اس کا سر کاٹ کر لایا‘ اسے دس ہزار روپے کا انعام ملے گا۔ سرداروں نے یہ خط اکبر خان کو دکھایا جس نے اسے میک نیگٹن کی دھوکا بازی پر محمول کیا۔ چناںچہ اکبر خان نے میک نیگٹن کی منافقت بے نقاب کرنے کے لیے ایک چال چلی۔ اس نے اُسے پیشکش کی کہ انگریز موسم بہار تک وہاں ٹھہر سکتے ہیں‘ نیز شاہ شجاع بدستور بادشاہ رہے گا‘ اگر اکبر خان اس کا وزیر بن جائے اور سارے اختیارات اسی کے ہاتھ ہوں۔ نیز وہ امین اللہ خان لغاری کا سر بھی لا کر دے گا‘ اگر اس کام کے لیے اسے تین لاکھ روپے ادا کیے جائیں۔ اگرچہ میک نیگٹن کو اس منصوبے پر شک تھا، لیکن کسی فوجی کمک سے ناامید ہو کر اس نے انگریز قوم کی باعزت پسپائی کے لیے یہ منصوبہ قبول کر لیا۔ دراصل میک نیگٹن کی طرف سے یہ اقدام ڈوبتے کو تنکے کا سہارا تھا۔ یہ تحریری معاہدہ میک نیگٹنکی دھوکا بازی کا کھلا ثبوت ثابت ہوا۔ اس نے یہ دستاویز امین اللہ خاں لغاری کو دکھائی اور افغان سرداروں کو میک نیگٹن کی بے وفائی سے خبردار کیا۔ پھر معاہدے کی تفصیلات طے کرنے کے لیے میک نیگٹن کو ملاقات کی دعوت دی۔ میک نیگٹن اس جال میں پھنس گیا۔ وفادار افغان فوجی افسر، حسن خان نے اُسے اس ملاقات کے مہلک نتائج سے خبردار کیا۔ لیکن تمام مشورے نظرانداز کرتے ہوئے وہ اپنی ذمہ داری پر اکبر خان اور دوسرے افغان سرداروں سے ملاقات کرنے روانہ ہو گیا۔
میک نیگٹن کے ہمراہ محافظ دستے کے علاوہ صرف تین ساتھی‘ لارنس، ٹریور اور میکنزی تھے۔ جب کہ اکبر خان کے ساتھ اس کا سسر محمد خان غلزئی، سلطان جان بارک زئی اور امین اللہ خاں لغاری کا چھوٹا بھائی آئے۔ جب یہ سب ایک پہاڑی ٹیلے کی چوٹی پر بیٹھ گئے، تو کافی تعداد میں مزید افغان وہاں پہنچ گئے۔ لارنس‘ میک نیگٹن کے عقب میں کھڑا تھا۔ اس نے افغانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر اعتراض کیا۔ فوراً ہی محمد شاہ خاں غلزئی اسے گھسیٹ کر لے گیا اور کہنے لگا: ’’میرے ساتھ چلو اگر تمھیں زندگی عزیز ہے۔‘‘ لارنس کہتا ہے کہ میں نے مڑ کر دیکھا تو میک نیگٹن کو زمین پر لیٹے ہوئے پایا۔ اکبر خان نے اس کے دونوں ہاتھ جکڑ رکھے تھے۔ پریشانی اور دہشت اس کے چہرے سے ہویدا تھی۔ اکبر خان نے چلّا کر میک نیگٹن سے کہا: تم ایک عظیم بادشاہ کے وزیر اور شاندار فوج کے سربراہ ہو، ممتاز غیر ملکی شخصیات تمھارے علم اور کمالات کو خراج تحسین پیش کرتی ہیں۔ لیکن میں تمھیں ایک احمق سمجھتا ہوں جس کے وعدے پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا، جس کی تحریر سے دھوکا اور فریب جھلکتا ہے۔ بے وفا، مکار شخص، تم اپنے معاہدے سے اتنی جلد پھر گئے؟ تم سمجھتے ہو، ہم تمھاری خاطر ایک دوسرے کو تباہ کریں گے۔ تجھے شرم آنی چاہیے۔ تم ایک مضحکہ خیز آدمی ہو۔ میرا ارادہ تھا، تمھیں بحفاظت کابل سے ہندوستان روانہ کروں لیکن تمھارا منصوبہ مجھے قتل کرانے کا تھا۔ تمھارا دماغ سیاہ دھوئیں اور فضول تصورات سے بھرا ہوا ہے۔ اب بہتر ہے میرے ساتھ کابل شہر کے اندر چلو۔ دہشت زدہ میک نیگٹن نے عقاب کی گرفت سے کبوتر کے مانند پھڑپھڑا کر بچ نکلنا چاہا لیکن اکبر خان نے اپنی پیاسی تلوار نکالی اور اس کا سر کاٹ ڈالا۔ پھر بائولے کتے کی طرح لاش کے اعضا کاٹ ڈالے۔ کیپٹن ٹریور کو سلطان جان نے قتل کر دیا۔ لارنس اور میکنزی کو گرفتار کر لیا گیا جونہی تشدد کا یہ سلسلہ شروع ہوا‘ میک نیگٹن کے محافظ دستے کے سولہ سپاہی دم دبا کر بھاگ گئے۔ انھوں نے اپنے افسروں کو بچانے کی کوشش تک نہ کی اور نہ ہی چھائونی سے کمک بھیجی اگرچہ مقامِ واردات بالکل قریب تھا۔ بعدازاں میک نیگٹن اور ٹریور کے دھڑ، سر اور ہیٹ عام نمائش کے لیے لٹکا دیے گئے۔ افغان اپنی فتح کا جشن منانے لگے۔ ۶؍جنوری ۱۸۴۲ء کی صبح روانگی کا بگل بجا اور برطانوی فوج کی پسپائی شروع ہوئی۔ لارنس اور میکنزی کو برطانوی فوج کی واپسی میں مدد دینے کے لیے رہا کر دیا گیا۔ یہ مایوس، بے حوصلہ اور سہمے ہوئے فوجیوں کا ایک گروہ تھا جو محفوظ چھائونی سے نکل کر غیر یقینی انجام کی طرف روانہ ہوا۔ راستے ایک ایک فٹ برف میں دبے ہوئے تھے۔ پسپائی اختیار کرتی ہوئی فوج کو موسمی مصائب، بھوک اور المناک حادثات کا سامنا رہا۔ انھیں خوراک اور باربرداری کے جانوروں کا انتظار تھا لیکن اکبر خان نے اس کے عوض باقی توپ خانے اور سارا خزانہ حوالے کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ لارنس کے بقول ’’ایسا لگتا تھا کہ موت اور تباہی ہمارے انتظار میں ہے۔ موہن لال کشمیری اور شاہ شجاع نے خبردار کیا کہ اس موسم میں انگریزوں کا چھائونی سے نکلنا اور سفر کرنا خودکشی کے مترادف ہے لیکن ان کے مشورے نظر انداز کر دیے گئے۔ برطانوی فوج کا پہلا کیمپ چھائونی سے سات میل دور بگرامی کے مقام پر تھا۔ وہاں تک پہنچتے پہنچتے انگریز اپنے بیشتر سازوسامان، اسلحہ اور خوراک سے محروم ہو گئے اور وہ سرد ترین رات انھوں نے بغیر خیموں کے گزاری۔ صبح تک بہت سے سپاہی منجمد ہو کر موت کا شکار ہوئے۔ بہت سوں کے پائوں اور ہاتھ کام کرنے سے جواب دے گئے۔ ہراول دستہ بغیر کسی بگل کے چل پڑا۔ نظم و ضبط بالکل ختم ہو چکا تھا۔ تبھی کئی افغان پہاڑوں سے اترے اور انھوں نے لوٹ مار شروع کر دی۔ اگلے دن وہ بغیر خوراک اور گولہ بارود کے درہ خورد کابل کے منہ پر پہنچے جہاں الفنسٹن نے فوج کو رکنے کا حکم دیا۔ اس طرح بدقسمت سپاہیوں اور ملازمین کو ایک رات بھوک، تھکان، شدید سردی اوربرف سے مقابلہ کرنا پڑا۔ مسلح افغان اردگرد موجود تھے۔ وسیع پیمانے پر قتل عام ناگزیر دکھائی دیتا تھا۔ اگلی صبح بڑی تعداد میں افغان جنگجو اور گھڑسوار کیمپ کے عقب میں جمع ہو گئے۔ لارنس اور میکنزی کو اکبر خان کے پاس مذاکرات کرنے بھیجا گیا تاکہ وہ وعدے کے مطابق بحفاظت سفر کرنے کا موقع دے۔ اکبر خان نے اتفاق کیا کہ اگر لارنس اور میکنزی یرغمال بن جائیں، تو وہ درے میں سفر کے دوران غلزئی قبائل سے تحفظ فراہم کرے گا۔ لیکن غلزئی قبائل نے شب خون مارنے کی پہلے سے تیاری کر رکھی تھی۔ جونہی ہراول دستہ درے کے اندر دور تک گیا‘ اس پر بلندی سے شدید فائرنگ شروع ہو گئی۔ آدمی گرنے لگے۔ اس حملے میں تقریباً پانچ سو باقاعدہ فوجی اور دو ہزار پانچ سو ملازمین مارے گئے۔ پانچ میل کا راستہ مردہ اور زخمی آدمیوں سے اَٹ گیا۔ پہاڑوں سے افغان نیچے اترے، مردوں اور عورتوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور لوٹ مار شروع کر دی۔ خونخوار غلزئی جنگجو خون آلود خنجر باقی ماندہ برطانوی فوجیوں کے سامنے لہراتے گویا یہ کہتے : ’’اپنے اردگرد بکھرے لاشوں کے ڈھیر دیکھو‘ بہت جلد تم بھی ان میں شامل ہو جائو گے۔ تم پھل کھانے کابل آئے تھے‘ اب تمھیں یہ کیسا لگا؟ انگریزافسروں، فوجیوں اور ملازموں نے تیسری رات بھی برفباری کے طوفان میں درے کی چوٹی پر گزاری۔ صبح تک بہت سے سردی سے مر گئے۔ بہت سی عورتوں اوربچوں کو اغوا کر لیا گیا۔ برفباری افغانوں کے لیے نعمت ثابت ہوئی اور اس نے تلواروں سے زیادہ مہلک زخمی لگائے۔ پسپائی کی چوتھی صبح کیمپ پر مکمل مایوسی چھا گئی۔ آدمیوں کے پیروں سے گوشت چھلکوں کی طرح اترنے لگا۔ اس شام الفنسٹن نے تسلیم کر لیا کہ موت اس کے سپاہیوں کا مقدرہے۔ اس نے تمام برطانوی خواتین، مردوں اور آٹھ بچوں کو اکبر خان کی تحویل میں دے دیا۔ لیڈی میک نیگٹن‘ لیڈی سیل اور اس کی بیٹی الیگزینڈرینا بھی ان میں شامل تھیں۔ انگریزوں کے لیے یہ انتہائی ذلت کی بات تھی کہ انھیں اپنی عورتیں اور بچے افغانوں کے سپرد کرنے پڑے۔ اس کے برعکس برطانوی خواتین کی حفاظت افغانوں کے لیے عزت اور بہادری کی علامت تھی۔ اکبر خان نے انھیں گرم کپڑے مہیا کیے، حرارت والی جگہ پررکھا اور انتہائی مہلک سردی سے انھیں بچا لیا۔ اس لحاظ سے افغانوں کا جذبۂ رحم اور مہمان نوازی قابل تعریف ہے۔ وہ سخت لڑائی کے بعد مصیبت میں مبتلا کمزور افراد کی اپپے افراد خانہ کے مانند مدد کرتے ہیں۔ پسپائی کا سفر جاری رکھنے والوں کے لیے دہشت اور ہلاکت کا کھیل ختم نہیں ہوا۔ ۱۰جنوری ۱۸۴۲ء تک کابل کی فوج کا کوئی سپاہی باقی نہیں بچا۔ ہیوجانسن کے مطابق:’’ہم میں سے ہر کوئی سمجھتا تھا کہ وہ چند گھنٹوں کا مہمان ہے۔ سردی‘ بھوک یا دشمن کے ہاتھوں اس کی موت یقینی ہے۔‘‘ تاہم سردی کے ڈسے اور برفباری سے ادھ موئے لوگوں کے لیے درہ تیزین میں ایک اور شب خون تیار تھا۔ دشمن مسلسل فائرنگ کر رہے تھے۔ برطانوی فوج کے کمانڈر نے نہ جانے کس حکمت کے تحت فائر کا جواب نہ دینے کی ہدایت کررکھی تھی۔ اس طرح دشمن نے بغیر مزاحمت کے قتل عام جاری رکھا۔ درہ تیزین میں افغانوں نے ۱۵۰۰؍افراد کو لوٹا، ان کے کپڑے اتارے اور انھیں فاقہ کشی اور سردی سے مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ اسی دن افغانوں نے جنرل ولیم کیتھ الفنسٹن کو قیدی بنا لیا۔ وہ افغانوں کی قید ہی میں تھا کہ ۲۳/اپریل ۱۸۴۲ء کو چل بسا۔ ۱۲؍جنوری ۱۸۴۲ء کی رات زندہ بچ جانے والے ۸۰؍افسر اور جوان گندا ماک پہاڑی کی چوٹی پر افغان دشمنوں میں گھر گئے۔ ان کا تعلق شیلٹن کی ۴۴؍پیادہ رجمنٹ سے تھا۔ دشمن کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ جب کہ ان کے پاس صرف بیس بندوقیں اور بارود کے دو رائونڈ تھے۔ پھر بھی انھوں نے اپنی آن کی خاطر آخری مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ مربع شکل میں منظم ہوئے اور کئی مرتبہ افغانوں کو پیچھے دھکیل دیا۔ گولیاں ختم ہونے کے بعد سنگینوں سے لڑائی جاری رکھی۔ آخر سب ایک ایک کر کے ذبح ہوئے۔ افغان صرف نو آدمیوں کو قید ی بنا سکے۔ قابل سے پسپا ہونے والی فوج سے صرف ڈاکٹر برائیڈن جان بچا کر جلال آباد پہنچ سکا۔ خوفزدہ اور بدحواس ڈاکٹر جلال آباد قلعے کے نزدیک اپنے زخمی گھوڑے سے گرنے ہی والا تھا جب قلعے کے برج سے ایک افسر نے اسے دیکھ لیا۔ فوراً اس کی مدد کے واسطے آدمی پہنچ گئے۔ برطانوی انڈس آرمی کی شکست اور تباہی ایک غیرمعمولی واقعہ تھا اور افغان مزاحمت کاروں کے لیے ایک معجزانہ فتح۔ ایک نوآبادیاتی طاقت کے عروج پر اس طرح کی ذلت آمیز شکست انوکھا اور سبق آموز تاریخی سانحہ ثابت ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ ۲۱؍ہزار برطانوی فوجی افغانستان گئے اور ان میں سے گنتی کے چند افراد ہی واپس ہندوستان آ سکے۔افغانستان سے انگریزوں کے جانے کے بعد شاہ شجاع نے تبدیل شدہ صورت حال میں افغان سیاست اور قبائلی کشمکش کو بڑی مہارت اور بصیرت سے اپنے حق میں موڑ لیا اور امین اللہ خاں لغاری اور نواب زمان خان بارک زئی کے ساتھ اتحاد کر لیا۔ ممکن تھا کہ وہ طویل عرصے تک افغانستان پر حکومت کرتا‘ لیکن اس کے منہ بولے بیٹے اور نواب زمان خان پارک زئی کے حقیقی بیٹے شجاع الدولہ بارک زئی نے اچانک مشتعل ہو کرشاہ شجاع کو قتل کر دیا۔

اس کے بعد امیر دوست محمد کو ہندوستان سے رہا کر دیا گیا۔ اس نے اپریل ۱۸۴۳ء میں افغانستان کی حکومت دوبارہ سنبھالی۔ ۱۸۶۳ء میں اپنی موت تک افغانستان کا طاقتور ترین حکمران رہا۔ غیرملکی طاقتوں کی طرف سے افغانستان پر قبضے اور حکومت کی تاریخ بار بار دہرائی جا رہی ہے لیکن تاریخ ہر بار وہی سبق سکھا رہی ہے کہ افغانستان پر قبضہ یا حکومت کرنا آسان کام نہیں۔

نظريات (0)
نظر اضافه کول