ایک مرتبہ 1937ء میں سکھوں کے خلاف جمرود کی جنگ میں وہ دھوکا دے چکا تھا۔ لیکن وہ اپنے پتے کھیلنے اور مفادات حاصل کرنے میں بڑی مہارت اور ہوشیاری سے کام لیتا تھا۔اب شجاع سے کسی اعلیٰ عہدے کی تحریری پیش کش حاصل کرنے کا سنہری موقع تھا۔ چناںچہ وہ برطانوی فوج پر حملہ کرنے کا بہانہ بنا کر باہر آیا اور ساتھیوں سمیت وفاداری تبدیل کر لی۔ وہ صحیح وقت کا انتخاب کر کے اپنی ہر بے وفائی اور غداری کے بدلے اقتدار میں حصہ لیتا تھا۔ اس عمل سے اس نے قندھار کے حکمرانوں کا حوصلہ پست کر دیا۔ آنے والے چند دنوں میں قندھار کے بہت سے امرا شجاع سے آ ملے اور اپنی وفاداریاں واپس آنے والے شاہ کو پیش کر دیں۔ شجاع کو اس معجزانہ تائید کی توقع نہ تھی۔ قندھار کے حکمران جو دوست محمد کے سوتیلے بھائی تھے، مایوسی کے ساتھ اس تبدیل ہوتی صورت حال کو دیکھ رہے تھے۔25اپریل 1939ء کو شجاع قندھار کے مضافات میں گندم اور جو کے کھیتوں اور باغات سے فاتحانہ انداز میں گزرتا ہوا شہر کے کھلے دروازوں سے اندر داخل ہو گیا۔ حاجی خان کاکڑ شجاع کے ہمراہ تھا۔ اس کے پیچھے برنس اور میک نیگٹن محافظوں کے ایک دستے کے ساتھ چل رہے تھے۔ راستے میں شہر کے لوگوں کے وفود سیدوزئی بادشاہ کا استقبال کرنے کے لیے موجود تھے۔ غریب عوام بھی پھولوں کے ہار لیے موجود تھے۔ انھوںنے اس کے راستے میں بھی پھول بچھا رکھے تھے۔یہ وہی شہر تھا جس نے پانچ سال پہلے شجاع کے خلاف کامیاب مزاحمت کی تھی۔ شجاع سب سے پہلے اس باغ میں گیا جہاں اس کے دادا اور درانی سلطنت کے بانی احمد شاہ ابدالی کامزار تھا۔ مزار پر فاتحہ خوانی کے بعد شجاع اس سے ملحق خانقاہ میں گیا جہاں روایت کے مطابق محمدﷺ کا مقدس اونی چغہ محفوظ کیا گیا تھا۔ شجاع نے اس کو ہاتھوں میں پکڑا، سینے سے لگایا اور بہتے ہوئے آنسوئوں کے ساتھ اپنے اوپر لپیٹ لیا۔ یہ آبائی تخت کی بازیابی اور مذہبی قیادت پر سرفرازی کی علامت تھا۔تین سال پہلے دوست محمد بھی برکت اور خوش قسمتی کے حصول کے لیے یہاں آیا تھا جب اس نے سکھوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا اور امیرالمومنین کا لقب اختیار کیا۔ ڈیڑھ سو سال بعد جب پشتون علما نے ملا عمر کو امیر المومنین کا خطاب دیا تو مذہبی حاکمیت حاصل کرنے اورپورے افغانستان پر طالبان کی اسلامی حکومت قائم کرنے میں برکت اور تائید کی غرض سے وہ بھی یہاں آیا اور اس نے یہ مقدس چغہ پہنا۔ شاہ شجاع نے افغانستان کا تخت تیس سال پہلے نملا کی لڑائی میں کھو دیا تھا۔ لیکن اس نے امید کا دامن نہیں چھوڑا تھا۔ طویل جلاوطنی اور تین ناکام کوششوں کے بعد بالآخر وہ اپنے وطن میں تھا اور اپنے زندگی بھر کے بارک زئی دشمنوں کو شکست دینے کے قریب تھا۔ قندھار پہنچنے کے ایک ہفتہ بعد انگریز افسر تھا مس گیفورڈ نے خط میں لکھا:’’یہ ایک پُرلطف جگہ ہے۔ مناظر رومانوی، آب و ہوا عمدہ اور پھلوں کی فراوانی، معیار اور قیمت کا تم تصور تک نہیں کر سکتے۔ بڑے سائز کے عمدہ ترین آڑو ایک پینی کے چھے، سرخ رنگ سیب نصف پینی کے چھے، خشک آڑو، خوبانی، کشمش، آلو بخارا اور شہتوت کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ ٹھنڈا شربت، کباب، بریڈ، مٹھائیاں اور دوسری ذائقہ دار چیزیں ہر گلی کی نکڑ پر انتہائی سستے داموں بکتی ہیں۔ ایک نیم فاقہ زدہ فوج کی تروتازگی کے لیے اس سے بہتر کوئی اور جگہ نہیں ہو سکتی تھی۔ لیکن یہاں پہنچنے کے لیے ہم کتنے دلخراش سفری مصائب سے گزرے ہیں! دو تین سو میل کے سفر کے بعد قندھار میں ہماری آمد کا موازنہ ماسکو سے پسپا ہونے والی فرانسیسی فوج سے کیا جا سکتا ہے۔ دوست محمد نے افغانستان پر آہنی ہاتھوں سے حکومت کی تھی اور اپنے جہادی منصوبوں کی تکمیل کے لیے لوگوں پر بھاری ٹیکس لگائے تھے اور ان کی جائدادیں بھی ضبط کی تھیں۔ اس کے مقابلے میں شاہ شجاع کی حکومت لوگوں کے لیے نرم اور قابل قبول تھی۔ کابل پر قبضے کے ابتدائی چند ماہ میں ممتاز درانی امرا، غلزئی سرداروں اور علما کو خرید لیا گیا۔ یہ ہندوستانی خزانے پر بھاری بوجھ تھا اور جلد ہی واضح ہو گیا کہ افغانستان پر قبضہ سستا ثابت نہیں ہو گا۔لیکن یہ حکمت عملی امن قائم کرنے میں معاون ثابت ہوئی۔ لارڈآک لینڈ نے لندن کی حکومت کو کابل میں امن و سکون اور شجاع کی حکومت کی مقبولیت کی رپورٹ بھیج دی۔ بہت سے سیدوزئی امرا کو شجاع کی مصالحانہ پالیسی پر تحفظات تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ جس طرح بارک زئی قبیلے کو عزت دی جا رہی ہے اور ان کے عہدے اور مراعات بحال کی جا رہی ہیں، زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ اختلاف اور عداوت کا شعلہ پھر بھڑک اٹھے گا کیونکہ دونوں قبائل میں خون کا جھگڑا دو نسلوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ ان کو یقین تھا کہ جلد ہی شاہ شجاع بارک زئیوں کے ہاتھوں قتل کر دیا جائے گا۔ لارڈ آک لینڈ نے افغانستان پر قبضے کے فوری بعد اپنی مہم پسند سوچ کا رخ چین کی طرف موڑ لیا۔ بجائے اس کے شاہ شجاع کی کمزور حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے ضروری مالی امداد فراہم کی جاتی اور کابل اور قندھار میں افواج کے لیے قلعے تعمیر کیے جاتے، فوج کو بتدریج واپس بلا لیا گیا اور شجاع اور میک نیگٹن کے مالی وسائل کو محدود کر دیا گیا۔ جب شجاع کا حرم لدھیانہ سے کابل پہنچ گیا تو اس نے میک نیگٹن پر دبائو ڈالا کہ وہ فوج کو بالاحصار سے باہر نکالے کیونکہ یہ بات اس کے لیے ننگ و عار کا باعث تھی کہ فوج اور حرم ایک ہی جگہ رہیں۔چونکہ قلعہ تعمیر کرنے کی ممانعت تھی اس لیے فوج کی قیادت نے کھلے میدان میں ایک چھائونی تعمیر کر لی جس کا دفاع ممکن نہیں تھا۔ یہ ایک انتہائی احمقانہ فیصلہ تھا کہ ایک اجنبی ملک میں، جہاں دشمن قبائل موجود تھے اس طرح کا ناقابل دفاع فوجی اڈا یا چھائونی تعمیر کی جائے۔ نیز فوجیوں کا گولہ بارود اور اشیائے خورونوش ایک پرانے قلعے میں ذخیرہ کی گئیں جس کے حفاظتی انتظامات بھی ناکافی تھے۔اس عرصے میں برطانوی فوجی افسروں اور افغان خواتین کے درمیان شادیوں اور دوستانہ تعلقات کی خبریں عام ہو گئیں۔ خصوصاً کابل میں فوجیوں کے لیے عصمت فروشی کا کاروبار چل نکلا۔ ان مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے والوں میں الیگزینڈر برنس سرفہرست تھا۔ اس نے کابل کے مرکز میں اپنی رہائش گاہ کی تزئین و آرائش کر لی تھی۔ انواع و اقسام کے کھانے اور شرابیں ہر وقت موجود ہوتی تھیں۔ اس کے پاس کشمیری عورتوں کا ایک گروہ تھا جو اس کی خدمت میں حاضر رہتی تھیں۔ کابل میں اس کی بے حیائی اور عیش و طرب کے قصے زبان زدِ خاص و عام تھے۔ برطانوی فوجیوں اور بازاری افغان عورتوں کا اختلاط اتنا عام ہو گیا کہ وہ افغان عورتوں کی آسان دستیابی کے گیت گاتے پھرتے تھے۔ معززین شہر جو اسلامی شریعت پر یقین رکھتے تھے افغان آبرو کی نیلامی پر پریشانی اور غصے کا اظہار کرنے لگے تھے۔درحقیقت برطانوی عسکری قیادت اور شجاع کے درمیان ملکی اقتدار اور اختیارات کا مقابلہ شروع ہو چکا تھا۔ عوام میں یہ احساس عام تھا کہ شجاع کے بجائے میک نیگٹن حکومت چلا رہا ہے۔ بارک زئی مخالفین نے شجاع کو بدنام کرنے کے لیے پروپیگنڈا شروع کر دیا اور باغیانہ جذبات کو ہوا دینے لگے۔ اس طرح نئی حکومت اور افغان عوام کے درمیان فاصلے بڑھنے لگے۔برطانوی قیادت اور شاہ شجاع کے درمیان بڑا اختلاف فوج کے معاملے پر تھا۔ لارڈآک لینڈ نے میک نیگٹن کو واضح ہدایات دیں تھیں کہ افغان نیشنل آرمی کو منظم اور مضبوط کیا جائے تاکہ وہ برطانوی فوج کی واپسی کے بعد شجاع کو تحفظ اور ملک میں امن و امان فراہم کرے۔ دوسری طرف وہ الائونس جو افغان قبائلی سرداروں کو سیاسی اور فوجی حمایت حاصل کرنے کے لیے باقاعدگی سے دیا جاتا تھا کافی کم کر دیا گیا۔ افغان سردار توقع کرتے تھے کہ دولت مند فرنگی ان کے الائونس میں اضافہ کریں گے۔ شجاع بھی یہ سمجھتا تھا کہ فراخدلانہ انعام و اکرام افغان سرداروں کی غیرمشروط حمایت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔ مزیدبرآں شاہ محسوس کرتا تھا کہ افغان نیشنل آرمی اس کے ماتحت نہیں جس سے اسے اپنی بے بسی کا احساس ہوتا تھا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ برطانیہ کی مالی امداد کے بغیر وہ اتنی بڑی فوج نہیں رکھ سکتا۔ان حالات میں شجاع سخت افسردگی اور مایوسی کا شکار ہو گیا۔ وہ گھنٹوں بیٹھا کھڑکی سے باہر دیکھتا رہتا۔ اسے آج کا کابل اپنی جوانی کے کابل سے بہت مختلف محسوس ہوتا تھا۔ وہ برطانوی حکام کے ساتھ معاہدے کے مطابق ملکی نظم و نسق اور فوج پر مکمل اختیارات چاہتا تھا۔ لیکن روزمرہ کے حکومتی امور میں میک نیگٹن اور برنس کی مداخلت اور بالادستی بڑھتی جا رہی تھی۔ شجاع کا بااعتماد گورنر ملاشکور ظاہر داری قائم رکھنے کی کوشش کرتا تھا کہ شاہ شجاع بااختیار حکمران ہے۔ اس وجہ سے انگریز افسر ملاشکور کے خلاف ہو گئے۔اگرچہ شاہ شجاع اپنی شاہانہ شان و شوکت کی مبالغہ آمیز نمائش کرتا تھا لیکن افغان عوام میں اس کے لیے کوئی گرم جوشی نہیں پائی جاتی تھی۔ وہ اس کو فرنگیوں کا کٹھ پتلی بادشاہ سمجھتے تھے۔ اس کے غیر ضروری درباری تکلفات نے بھی عوام کو اس سے دور کر دیا تھا۔ اس کاحکمرانی کا یہ انداز دوست محمد کے عوامی انداز سے بہت مختلف تھا۔ افغان سردار بھی شجاع کے دربار میں ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونے اور غیر ضروری انتظار کرنے میں ذلت اور بے عزتی محسوس کرتے تھے۔ افغان علما بھی فرنگیوں کی آمد کے باعث شجاع سے نفرت کرنے لگے تھے۔میک نیگٹن نے افغان سرداروں کی آمدنی میں کٹوتی کر کے روایتی قبائلی نظام اور سرداروں کی مستقل آمدنی کے ذریعے کو سبوتاژ کر دیا۔ اس سے شجاع کے دو بڑے حامی سردارعبداللہ خان اچکزئی اور امین اللہ خان لغاری اپنے ملک میں کافر انگریزوں کی موجودگی اور سرداری نظام میں ان کی مداخلت سے سیخ پا ہو گئے اور کابل میں انگریزوں کی مخالفت کے مرکزی راہنما بن گئے۔بارک زئی مخالفین کو باغیانہ جذبات کی پرورش کے لیے نہایت سازگار ماحول مل گیا تھا۔ افغان عوام کا لالچ، مذہبی تعصب اور غیر ملکیوں اور ان کے کلچر سے نفرت ایسے آتش گیر جذبات تھے جن کو بھڑکانے میں دیر نہیں لگی۔ علما بھی شجاع کی حکومت کے خلاف متحد ہو گئے‘ جب انگریز افسروں نے عظیم صوفی خانقاہ ’’عاشقاں و عارفاں‘‘ کی وقف جاگیر کو غصب کر لیا۔ یہ بے تدبیری اور بدانتظامی کی انتہا تھی کیونکہ یہ خانقاہ ایک اہم اور قدیم روحانی مرکز تھی اور صدیوں سے بارک زئیوں کا مدفن بھی۔ اس کا انتظام دو نہایت طاقتور اور بااثر مذہبی راہنما بھائیوں کے ہاتھ میں تھا۔ یہ میر مسجدی اور میر حاجی تھے۔ میر حاجی پل خِشتی مسجد کے خطیب اور کابل کے علما کے قائدبھی تھے۔ صورت حال کو مزید دگرگوں کرنے میں میک نیگٹن کا ہاتھ تھا جس نے ملّائوں کو کنٹرول کرنا اور ان کے نظامِ انصاف میں دخل دینا شروع کردیا تھا۔ملائوں کو اس پر سخت اعتراض تھا جس طرح یہ ’’لائسنس یافتہ کافر‘‘ ان کے شہر کو غلط کاریوں میں مبتلا کر رہے تھے اور انگریز اور ہندوستانی فوجی گلیوں میں کھلے عام شراب نوشی اور بدکاری کے مرتکب ہو رہے تھے۔ شجاع کی حکومت کے خلاف عوامی جذبات اس وقت انتہا کو پہنچ گئے جب جولائی ۱۹۴۰ء میں میر حاجی کے ایما پر افغانستان کے علما نے جمعے کے خطبے میں شاہ شجاع کا نام حذف کرنا شروع کر دیا۔ کیونکہ ان کی رائے میں افغانستان کے اصل حکمران کافر تھے اور شجاع محض ایک نام نہاد کٹھ پتلی۔سمجھدار انگریز افسروںنے محسوس کرنا شروع کر دیا تھا کہ شہر میں فوجیوں کی کم تعداد، انگریزوں سے نفرت اور بڑھتے ہوئے مخالفانہ عوامی جذبات کسی سرکشی اور بغاوت کا سبب بن سکتے ہیں۔ اگست ۱۹۴۰ء میں شجاع اور انگریز افسروںکو یہ خوفناک خبر ملی کہ دوست محمد بخارا کے تہ خانے سے باہر نکل آیا ہے۔ پتا چلا کہ کابل کے ایک تاجر خان کبیر نے جو دوست محمد کا ممنون احسان تھا، تہ خانے کے محافظوں کو دس ہزار روپے رشوت دی اور دوست محمد کو بخارا سے بچ نکلنے میں مدد دی۔ خبریں آ رہی تھیں کہ دوست محمد شمالی افغانستان میں پہنچ چکا ہے اور اس نے مقدس جنگ یعنی جہاد کا عَلَم بلند کر دیا ہے۔اگست کے اواخر میں سیگان کے مقام پر برطانوی چوکی کو بیس میل پیچھے بامیان میں دھکیل دیا گیا۔ صورت حال اس وقت بدتر ہو گئی جب شجاع کی فوج کا ایک دستہ جو امیر دوست محمد پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا، باغی ہو گیا اور دشمن کے ساتھ جا ملا۔ تقریباً اسی وقت کوہستان کے تاجک قبائل نے شاہ کے خلاف بغاوت کر دی کیونکہ ۱۸۳۹ء میں کابل پر قبضہ کرنے میں انھوں نے جو مدد کی تھی شاہ نے اس کا مناسب معاوضہ ادا نہیں کیا تھا اور اپنے تمام وعدوں سے پھر گیا تھا۔ افغانوں کو انقلاب کے لیے اٹھ کھڑے ہونے میں صرف ایک سال لگا لیکن اب انگریزوں کے خلاف جہاد شروع ہو چکا تھا۔دوست محمد کے ساتھ اس کا بیٹا اکبر خان بھی قیدخانے سے بچ نکلا تھا لیکن اس کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ دوست محمد نے خان کبیر کی مدد سے ایک صوفی فقیر کا بھیس بدل لیا اور بخارا سے روانہ ہو گیا لیکن غلط راستہ اختیار کرنے کی وجہ سے وہ ایک بنجر پہاڑی صحرا میں پھنس گیا۔ اس کا گھوڑا مسلسل سفر اور تھکان سے مر گیا۔ خوش قسمتی سے امیر کو بلخ جانے والا ایک کارواں مل گیا۔ راستے میں چراغ چی کے مقام پر مخبر کی اطلاع پر بخارا حکومت کے ملازموں نے کارواں کی تلاشی لی لیکن امیر کو تلاش نہ کر سکے کیونکہ امیر نے نہایت چالاکی سے روشنائی کی مدد سے اپنی ڈاڑھی کا رنگ تبدیل کر لیا تھا۔قافلے کے ساتھ شہر سبز پہنچ کر بھوکے پیاسے امیر نے درویشوں کے ایک ڈیرے پر پڑائو کیا۔ وہاں قلندر لوگ چائے پی رہے تھے لیکن انھوں نے اس فقیر کو کوئی توجہ دی نہ ہی کھانے پینے کی کوئی پیشکش کی۔ امیر خالی پیٹ شہر کے اندرداخل ہو گیا اور لوگوں سے ملّاکبیر نامی تاجر کے بارے میںپوچھا۔ ملّاکبیر کابل سے تعلق رکھتا تھا لیکن شہر سبز میں بھی اس کا ایک گھر تھا۔ جب اس نے امیر کو دیکھا تو اس کے ہاتھ کو بوسہ دیا اور اسے بحفاظت گھر کے اندر لے گیا۔ امیر کی کسمپرسی دیکھ کر ملّا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس نے اپنی خدمات امیر کے سپرد کر دیں۔ کچھ دیر وہاں آرام کے بعد امیر نے ملّا کبیر کو شہر سبز کے گورنر کے پاس بھیجا کہ وہ اس کو امیر کے آنے کی اطلاع کرے۔ گورنر یہ خبرسن کر خود ملّاکبیر کے گھر آ گیا، امیر سے بہت احترام سے پیش آیا اور اسے شاہی مہمان خانے لے گیا۔مہمان نوازی کے فرائض سے فارغ ہو کر گورنر نے امیر بخارا کے قابل مذّمت رویے کا ذکر کیا اور پیشکش کی کہ وہ اس سے انتقام لینے کے لیے فوج بھیج سکتا ہے۔ دوست محمد نے اس پیشکش کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اس کے بجائے اسے سات سوگھڑسوار دیے جائیں جو دریائے اوکسس کے پار اس کا ساتھ دیں۔ گورنر رضامند ہو گیا اور اس نے ضروری سازوسامان اور اشیائے خورونوش کا بندوبست کرنے کے بعد سات سو گھڑسوار فوجی بطور محافظ امیر کے ہمراہ روانہ کر دیے۔یہاں سے امیر دوست محمد کی قسمت اس پر مہربان ہو گئی۔ وہ دریائے اوکسس پار کر کے بخریت بلخ پہنچ گیا۔ بالآخر امیر خامرد میں اپنے سابق ازبک میزبان میر ولی کے پاس جا پہنچا جہاں امیر کا بیٹا افضل خان اس کا منتظر تھا۔ میر ولی نے امیر کی ہر ممکن مدد کرنے کی پیشکش کی۔ اس کے ساتھ اس نے امیر کو ایک بری خبر سنائی کہ اس کے بھائی نواب جبار خان نے اس کی رہائی سے مایوس ہو کر اپنے آپ کو اور امیر کے حرم کو برطانوی حکام کے سپرد کر دیا تھا۔ اس خبر سے امیر غضب ناک ہو گیا اور اس نے فرنگیوں کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا۔ امیر نے ہزار سے کم ازبک گھڑسواروں کے ساتھ جنوب کی طرف پیش قدمی کی اور پہلی برطانوی فوجی چوکی کے سپاہیوں کو مار بھگایا۔ اس کے جلد بعد بامیان میں تعینات افغان فوج کے سالار صالح محمد نے شجاع کو چھوڑ کر امیر کی فوج میں شمولیت اختیار کر لی۔اس اُمنڈتے ہوئے بحران کی خبر کابل پہنچ گئی اور اس نے انگریز فوجیوںاور شاہ شجاع کو خوفزدہ کر دیا اور وہ بچ نکلنے کے ممکنہ راستوں کے بارے میں سوچنے لگے۔ ۱۸ ستمبر کو بامیان میں برطانوی فوج اور امیر کی فوج میں مقابلہ ہوا۔ جدیداسلحے اور توپوں سے لیس تربیت یافتہ برطانوی فوج نے بڑی آسانی سے افغان گھڑسوار دستے کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کے رکھ دیا۔ ایک سو جوانوں کے نقصان اور اپنی ران پر شدید زخم کے بعد امیر نے اپنی باقی فوج کو میدان سے ہٹا لیا۔ لیکن پسپا ہونے کے بجائے بلاخوف و خطر پہاڑوں پر خشک دریائی گزرگاہوں اور پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے کابل کارخ کیا۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہ کوہستان میں تاجک باغیوں سے جاملے۔اگرچہ کوہستان میں اس کے بہت سے دشمن موجود تھے لیکن اس نے انگریز دشمنی کے مفروضے پر جُوا کھیلا۔ اسے امید تھی کہ کافر حکومت کے خلاف مشترکہ نفرت پچھلی دشمنیوں پر غالب آ جائے گی۔ چناںچہ اس نے تاجک سرداروں کے پاس قاصد بھیجے اور اپنے اتحادی صفی میر آف تغاب کو ذمہ داری سونپی کہ وہ کوہستان کے میروں اور شیخوں کو قائل کرے کہ وہ سب امیر کی قیادت میں جمع ہو جائیں۔ اسے بہت اطمینان اور خوشی ہوئی جب اس کی تجاویز کے فوری مثبت جوابات موصول ہونا شروع ہوئے۔یہ ایک دلیرانہ لیکن پرخطر حکمت علمی تھی۔ میک نیگٹن نے برنس اور جنرل سیل کو دو رجمنٹ فوج کے ساتھ چاریکر کے ضلعی صدر مقام پر قبضہ کرنے کے لیے بھیجا۔ اس طرح انھوںنے کوہستان اور امیر کے درمیان شاہراہ کو بند کر دیا۔ دوست محمد نے کمپنی کی فوج کا براہ راست مقابلہ کرنے کے بجائے گوریلا جنگ کی حکمت عملی اختیار کی۔ وہ اچانک حملہ کر کے کمپنی کی سرکاری فوج کو جانی نقصان پہنچاتے۔ جنرل سیل نے باغی دیہات میں باغیوں کے ٹھکانوں، فصلوں اور درختوں کو تباہ کر دیا اور کوہ دامن کے قریب باغی قلعوں کا محاصرہ کر لیا جب کہ برنس نے کوہستانی سرداروں کو رشوت پیش کی کہ وہ امیر کو دھوکے سے ان کے سپرد کر دیں۔لیکن ان پر فریب کوششوں کے باوجود امیر ان کے ہاتھ نہ آیا، بلکہ دو ماہ کی جھڑپوں اور لڑائیوں میں انگریزوں کو نقصان اٹھا کر چاریکر تک پسپا ہونا پڑا۔ اکثر کوہستانی سردار سرکشی ترک کرنے پر آمادہ تھے بشرطیکہ گزشتہ سال شجاع کی طرف سے کیے گئے وعدے پورے کیے جائیں۔ ایک بااثر مذہبی راہنما اور نقشبندی پیر میر مسجدی بھی ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہو چکا تھا لیکن پھر معاہدے کے خلاف جنرل سیل اور پرنس تیمور نے اس کے قلعے پر حملہ کر کے اس کو تباہ و برباد کر دیا۔ اس کے اہل خانہ کو قتل کر دیا اور اس کی زمینیں دشمنوں میں تقسیم کر دیں۔ غضبناک میر مسجدی زخمی حالت میں نجرو کی طرف فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ انگریزوں کی اس وحشیانہ کارروائی سے کوہستانی باشندے دہشت زدہ ہو گئے۔ انگریزوں نے میر مسجدی کو ہمیشہ کے لیے اپنا دشمن بنا لیا۔ یہ ان کی سب سے بڑی غلطی تھی۔اکتوبر ۱۸۴۰ء میں برطانوی افواج کو ایک بڑا دھچکا لگا جب چاریکر میں افغان فوج کا تربیت یافتہ سکواڈرن دوست محمد سے جا ملا۔ موہن لال کشمیری کے مطابق یہ سب سے بڑا نقصان تھا جس کا سامنا برطانوی فوج کو افغانستان کے قبضے کے دوران کرنا پڑا۔ بیشتر عوام اور سردار منتظر تھے کہ کون فتح مند ہوتا ہے جب کہ وہ موجودہ حکومت سے غیر مطمئن تھے کہ انھوں نے اپنے کیے ہوئے وعدے پورے نہیں کیے۔ آخر کار ۲ نومبر ۱۸۴۰ء کو چاریکر کے فوجی اڈے سے دور پنج شیر کی وادی میں دونوں فوجیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں۔ کمپنی کی فوج ایک باغی قلعے پر حملے کرنے کے لیے پروان درہ کی طرف بڑھ رہی تھی، جب انھیں خبر ملی کہ دوست محمد ان پر حملہ آور ہونے والا ہے۔چند منٹ کے اندر امیر اور اس کے چار سو گھڑسوار برطانوی فوج کے سامنے نمودار ہوئے۔کمپنی کی توپیں عقب میں تھیں ان کو آگے لانے کا وقت نہیں تھا۔ اس لیے کمپنی کے گھڑسوار افسروں نے حملہ کرنے کے لیے گھوڑوں کو ایڑ لگا دی لیکن انھیں بہت دیر بعد پتا چلا کہ ان کے اپنے ہندوستانی گھڑسواروں نے رخ موڑا اور فرار ہو گئے۔ نتیجہ صاف ظاہر تھا۔ دوست محمد کو شاندار فتح حاصل ہوئی۔ کمپنی افسر ڈاکٹر لارڈ اور بہت سے دوسرے فوجی مارے گئے۔دوست محمد کی فتح کے صرف دو دن بعد ۴ نومبر کو متفکر میک نیگٹن اپنے ملٹری سیکرٹری اور مختصر گھڑسوار محافظ دستے کے ہمراہ کابل کے مضافات میں شام کے وقت گھڑسواری کر رہا تھا۔ ایک دن قبل ڈاکٹر لارڈ اور بہت سے دوسرے افسروں کی موت کی خبر نے سب کو تشویش میں مبتلا کر دیا تھا اور ان کا پورا دن مختلف تجاویز پر بحث مباحثہ کرتے ہوئے گزرا تھا۔ملٹری سیکرٹری جارج لارنس کے بقول ’’جب ہم میک نیگٹن کی رہائش گاہ کے قریب پہنچے تو اچانک ایک گھڑسوار ہمارے قریب آیا، اپنا گھوڑا میرے اور میک نیگٹن کے گھوڑے کے درمیان لے آیا اور مجھ سے پوچھا ’’کیا وہ لارڈ صاحب ہیں؟‘‘ میرے ہاں کہنے پر اس نے میک نیگٹن کے گھوڑے کی لگام کو پکڑ لیا اور کہا ’’امیر، امیر!‘‘ میک نیگٹن نے کہا ’’کون، کہاں۔‘‘ فوراً ہی ایک اور گھڑسوار نزدیک آیا اس نے گھوڑے سے نیچے چھلانگ لگائی اور گھوڑے کی رکاب اور میک نیگٹن کے ہاتھ کو پکڑ لیا، ان کو اپنی پیشانی سے لگایا اور بوسہ دیا۔سرولیم میک نیگٹن فوراً نیچے اترا اور کہا ’’خوش آمدید، خوش آمدید!‘‘ اورپھر اس کو اپنے کمرے میں لے گیا۔ دوست محمد داخل ہوتے ہی مشرقی انداز میں سجدے کی حالت میں چلا گیا اور اپنی پگڑی اتارکر پیشانی فرش پر رکھ دی۔ جب وہ اٹھ کر کھڑا ہوا تو اس نے اطاعت کی علامت کے طور پر اپنی تلوار پیش کر دی اور کہا اب یہ اس کے لیے بیکار ہے۔ میک نیگٹن نے فوراً تلوار واپس کر دی اور امیر کو یقین دلایا کہ اس کی طرف سے برطانوی حکومت کی مخالفت کے باوجود اس کا ہر ممکن خیال رکھا جائے گا۔امیر نے جواب دیا کہ یہ اس کا مقدر تھا اور وہ اپنے مقدر کے خلاف کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ امیر ایک مضبوط جسم والا طاقتور شخص تھا۔ اس کی ناک عقابی، ابرو قوس نما اور ڈاڑھی اور مونچھیں ناتراشیدہ تھیں۔لارنس کہتا ہے ’’امیر کے استقبال کے لیے خیمے لگا دیے گئے اور اسے میری نگرانی میں دے دیا گیا۔‘‘اس کا ہمارے قبضے میں آ جانا ایک خواب معلوم ہوتا تھا۔ دو دن کی نگرانی کے دوران میں بمشکل ہی سو سکا اور بار بار اس کے خیمے میں جھانکتا رہا۔اگر ایک طرف برطانوی حکام حیرت زدہ تھے کہ امیر اتنی آسانی سے ان کے ہاتھ کیسے آ گیا اور یہ کہ شاید اس کو احساس نہیں ہو سکا کہ وہ فتح کے کتنا قریب پہنچ چکا تھا۔ دوسری طرف امیر اپنی زندگی کے تحفظ کے لیے ہتھیار ڈال کر ترک ایرانی پروٹوکول پر عمل کر رہا تھا۔ اس خطے میں شکست خوردہ حکمرانوں کا فاتحین کے سامنے ہتھیار ڈالنا اور اطاعت اختیار کرنا کوئی غیرمعمولی بات نہ تھی۔یہ عمل زندگی کی حفاظت کے ساتھ مستقبل میں حالات کے تغیر کے ساتھ اقتدار میں واپس آنے کے امکانات بھی رکھتا تھا۔ دراصل انگریزوں کی طرف سے امیر کے سر کی قیمت دو لاکھ روپے رکھی گئی تھی۔ اور امیر کو یقین تھا کہ افغان اس انعام کے لالچ میں اس کے ساتھ غداری کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ نیز یہ ایک طرح کا اعتراف تھا کہ اب اقتدار کا کھیل اس کے حق میں نہیں اور برطانیہ اقتدار کے نئے کھلاڑی کے طور پر منظر عام پر آچکا ہے۔ وہ پرامیدتھا کہ جلد یا بدیر انگریز اسے اقتدار میں لے آئیں گے یا پھر ان کے زوال کے بعد وہ خود یہ موقع حاصل کر لے گا۔امیر دوست محمد کو ہندوستان بھجوانے کے فوری انتظامات کیے گئے۔ اس سے وعدہ کیا گیا کہ اس کو فیاضانہ پنشن دی جائے گی اور وہ اپنے حرم کے ساتھ رہے گا جس کو فی الحال غزنی کے قلعے میں رکھا گیا تھا۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ اس کو لدھیانہ میںشاہ شجاع کی خالی کردہ رہائش گاہ دی جائے گی۔ امیر کے کابل میں نو دن کے قیام کے دوران امیر میک نیگٹن دوست بن گئے۔ میک نیگٹن نے آک لینڈ سے سفارش کی ’’امیر دوست محمد، شجاع کے مقابلے میں فیاضانہ سلوک کا مستحق ہے۔شجاع کا ہمارے اوپر کوئی حق نہیں تھا کیونکہ ہم نے اس کو تخت سے محروم نہیں کیا تھا۔ جب کہ دوست محمد کو ہم نے برطرف کیا۔ اگرچہ اس نے ہمیں کبھی تکلیف نہیں پہنچائی تھی پھر بھی وہ ہماری پالیسی کا نشانہ بنا۔‘‘ دوسرے الفاظ میں میک نیگٹن نے گویا اعتراف کر لیا کہ بہادر امیر نے ہمیشہ انگریزوں کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھا اور اس کو غیر ضروری طور پر اس کی مملکت اور تخت سے محروم کیا گیا۔ امیر بہت خوش تھا کہ اس نے انگریزوں کے سامنے دستبرداری سے پہلے پروان درہ میں اپنی بہادری ثابت کر دی تھی۔امیر نے صرف ایک معاملے پر برطانوی حکام سے تعاون کرنے سے انکار کیا۔ میک نیگٹن نے بار بار اس پر زور دیا کہ وہ ایک مرتبہ شاہ شجاع سے ملے لیکن دوست محمد نے صاف انکار کر دیا۔ دوست محمد نے کھانے کے وہ خوان نعمت بھی واپس کر دیے جو شاہ شجاع نے اپنے شکست خوردہ حریف کو بھیجے تھے جو افغان آئین ِ عزت کی رُو سے ایک اخلاقی توہین تھی۔میک نیگٹن کی متعدد التجائوں کے جواب میں اس نے کہا اگر شجاع کچھ کہنا چاہتا ہے تو وہ آئے اور آپ کی موجودگی میں بات کرلے۔ برطانوی حکام نے دوست محمد کو سیدوزئی بادشاہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا جس سے شجاع بہت ناراض ہوا۔ وہ کئی ہفتوں سے میک نیگٹن پر زور دے رہا تھا کہ دوست محمد کو قتل یا کم از کم اندھا کروا دیا جائے لیکن میک نیگٹن نے ایسی باتوں پر غور کرنے سے انکار کر دیا۔ شجاع کو بڑا دکھ تھا کہ بارک زئی قبیلے کے افراد انگریزوں کی حمایت سے پوری آزادی کے ساتھ اپنے کاروبار میں مصروف تھے۔ اس رویے سے بادشاہ کا وقار خاک میں مل گیا تھا۔۱۳ نومبر ۱۸۴۰ء کو دوست محمد‘ افضل خان کی معیت میں کابل سے رخصت ہوا۔ اس کے بیٹے افضل خان نے بھی باپ کے ایما پر ہتھیار ڈال دیے تھے۔ جلال آباد میں وہ دونوں اپنے حرم سے جا ملے جس میں دوست محمد کی نو بیویاں‘ اُس کے بیٹوں کی اکیس بیویاں‘ ایک سو دو باندیاں اور دو سو دس غلام اور نوکر شامل تھے۔ بچوں سمیت ان کی کل تعداد تین سو اکیاسی تھی۔ امیر کی باوقار دستبرداری کی خبر سے اس تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا اور لدھیانہ پہنچنے تک امیر کے خاندان کے تمام افراد ان سے آ ملے تھے۔ ان میں اس کے بائیس بیٹے اور انتیس دیگر رشتہ داروں کے علاوہ چار سو نوکر اور تین سو خادمائیں شامل ہو گئیں۔ اس طرح جلاوطن امیر کے ہمراہ کل ایک ہزار ایک سو پندرہ افراد تھے۔دسمبر کے آخر میں بارک زئی قافلے کی لدھیانہ آمد‘ کابل اور شملہ دونوں کے لیے انتہائی اطمینان کا باعث تھی۔ جنرل کاٹن جس نے افغانستان میں برطانوی فوجی کمانڈر کے طور پر اپنی ملازمت مکمل کرنے کے بعد بارک زئیوں کو بحفاظت لدھیانہ پہنچایا، نے اپنے جانشین کے نام پیغام لکھا ’’تمھیں یہاں کچھ بھی نہیں کرنا پڑے گا۔ کیونکہ یہاں امن ہی امن ہے۔‘‘ لیکن حقیقت میں بغاوت ختم نہیں ہوئی تھی۔ دوست محمد کا سب سے زیادہ جنگجو بیٹا اکبر خان کسی نہ کسی طرح بخارا کے قید خانے سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ وہ جلد ہی مزاحمت کا نیا طاقتور مرکز بنے گا اور اپنے باپ سے بھی کہیں زیادہ پرتشدد، بے رحم اور موثر ثابت ہو گا۔اپریل ۱۸۴۱ء میں افغانستان میں برطانوی فوج کا نیا کمانڈر میجر جنرل ولیم ایلفنسٹن افغانستان کے سرمائی دارالحکومت جلال آباد میں پہنچا جہاں شاہ شجاع مقیم تھا۔ پچپن سالہ جرنیل جوڑوں کے شدید درد (گٹھیا) میں مبتلا تھا اور سہارے کے بغیر چل بھی نہیں سکتا تھا۔ واٹرلو کے بعد گزشتہ پچیس سال سے اس نے کسی جنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔ کافی سال نصف تنخواہ پر گزارنے کے بعد اب اپنے بڑھتے ہوئے قرضہ جات ادا کرنے کے لیے باقاعدہ فوجی سروس میں واپس آ گیا تھا۔وہ قوت فیصلہ سے بھی محروم تھا۔ ہندوستان اور افغانستان کے بارے میں قریباً نابلد تھا اور اپنی کمان میں ہندوستانی فوج کے ساتھ کوئی ہمدردی بھی نہیں رکھتا تھا۔ کابل پہنچنے پر وہ شہر کے بارے میں ناگوار تاثرات کا اظہار کرتا ہے۔ الفنسٹن کی اہلیت کو لندن میں کسی نے دیکھا نہ ہی آک لینڈ نے کوئی توجہ دی۔ اس پر مستزاد یہ کہ ساری فوج میں سب سے زیادہ ناگوار، غیر ہردلعزیز اور غیر پسندیدہ افسر جان شیلٹن کو اس کا ڈپٹی مقرر کر دیا گیا۔افغانستان کے جنوب مشرق میں پنجاب کی ریاست انتشار کا شکار ہو چکی تھی۔ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد دو سال کے عرصے میں تین حکمران تبدیل ہو چکے تھے۔ سکھ فوجیوں نے فرانسیسی اور انگریز افسروں کو قتل کر دیا اور سارے ملک میں لوٹ مار شروع کر دی تھی۔ پنجاب برطانیہ کے اتحادی کے بجائے ایک دشمن ریاست میں تبدیل ہو چکا تھا۔ یہ چیز برطانوی حکام کے لیے باعث تشویش تھی کیونکہ پنجاب، افغانستان اورہندوستان میں برطانوی عملداری کے درمیان حائل تھا۔ بلکہ ایسی رپورٹیں مل رہی تھیں کہ سکھ سردار پشاور کے اردگرد باغی بارک زئی اور درانی سرداروںکو پناہ اور مدد فراہم کر رہے تھے۔دوسری طرف افغانستان کے مغرب میں ایرانی سرحد پر بھی ہلچل دکھائی دے رہی تھی۔ ہرات کے طاقتور وزیر یار محمد علیکوزئی نے ہرات کے حکمران شاہ شجاع کے عم زاد کامران شاہ سیدوزئی کو گرفتار کر کے قتل کروا دیا۔ پھر ایران کے بادشاہ محمد شاہ کے ساتھ برطانیہ کے خلاف اتحاد قائم کر لیا۔ علاوہ ازیں قندھار کے جنوب مغرب میں واقع ہلمند اور قلات میں درانی‘ توخی اور غلزئی برطانوی حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔اگرچہ توخی قبائل پر ٹیکس کا نفاذ بغاوت کی فوری وجہ بنا لیکن مزاحمت نے جلد اسلامی رنگ اختیار کر لیا۔ باغی اپنے آپ کو اسلام کے سپاہی اور مزاحمت کو جہاد کا نام دے رہے تھے۔ ہلمند میں باغی راہنما اختر خان درانی نے عظمت اسلام کی بحالی کو اپنا نصب العین قرار دیا۔ جنرل ناٹ نے باغیوں کی سرکوبی کے لیے ایک سریع الحرکت فورس قائم کر لی تھی اور موثر طور پر کارروائی کر رہا تھا۔ ناٹ کے ساتھ نہایت قابل اور ہوشیار سیاسی معاون ہنری رالنسن کام کر رہا تھا۔ اس کا کام یہ تھا کہ وہ قندھار اور ہلمند کے علاقے میں غازیوں کے اجتماعات اور اعلان جہاد کی اطلاعات حکام بالا کو بھیجتا تھا۔ اس نے اس حوالے سے میک نیگٹن کو کئی تفصیلی رپورٹس بھیجیں۔کابل کے شمال میں کوہستان میں بھی صورت حال دھماکا خیز ہو چکی تھی۔ ایلڈرڈ پاٹنگر نے کوہستان کے علاقے میں بڑھتی ہوئی بے چینی، برطانوی فوجوں کی کمزور دفاعی پوزیشن اور کوہستانی سردارں کے شجاع کی حکومت پر عدم اطمینان پر مبنی کئی رپورٹس میک نیگٹن کو ارسال کیں لیکن اس نے ان کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اس نے لکھا ’’اور باتوں کے علاوہ بغاوت کے اسباب میں غیر ملکیوں سے نفرت، انتہا پسندی، ہمارے فوجیوں کی بلاروک ٹوک کارروائیاں خصوصاً عورتوں کو کھلے عام لے جانا اور زناکاری، مقامی باشندوں کا حسد اور انتقام بھی شامل ہیں۔برطانیہ کے مخالفین ہماری کردار کشی کر رہے ہیں، لوگوں کو ہمارے خلاف بھڑکا رہے ہیں اور قانون شکن عناصر کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ پکی ہوئی فصلوں کو آگ لگائی جا رہی ہے۔ نہروں کے کناروں میں شگاف ڈالے جا رہے ہیں۔ ہر وقت وسیع پیمانے پر سازش اور بغاوت کی افواہیں گردش میں رہتی ہیں۔ میں تجویز کرتا ہوں کہ کوہستانی سرداروں سے یرغمال کے طور پر افراد کا مطالبہ کیا جائے۔‘‘ اکثر برطانوی افسروں نے سمجھ لیا تھا کہ اینگلو سیدوزئی حکومت ناکام ہوتی جا رہی ہے۔ اگرچہ میک نیگٹن اس خیال کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا لیکن صورت حال کا حل کسی کے پاس بھی نہیں تھا۔لندن میں بورڈ آف کنٹرول کے صدرنے کہا کہ دوست محمد کی گرفتاری کے بعد فوج کی تعداد کو انتہائی کم کر دیا گیا ہے۔ اس میں زبردست اضافے کی ضرورت ہے۔ افغانستان پر اخراجات اور سرمایہ کاری میں اضافہ ناگزیر ہے۔ نااہل افغان حکومت کو قابو میں رکھنا ضروری ہے۔ اس بنیادی حقیقت کو تسلیم کیا جانا چاہیے کہ ’’انگریز افغانستان کے حکمران ہیں اور شجاع کو تمام احکامات کی تعمیل کا پابند کیا جانا چاہیے۔ افغانستان سے واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘ برنس بھی اسی خیال کا حامی تھا۔ بہت سے انگریز افسران کا یہ بھی خیال تھا کہ ان مسائل کا بہترین حل یہ ہے کہ پنجاب اور افغانستان کو کمپنی کی عملداری میں شامل کر لیا جائے۔ میک نیگٹن بھی افغانستان کی سرحدوں میں ہرات، پنجاب اور ازبک علاقوں سمیت دریائے اوکسس تک توسیع چاہتا تھا تاکہ وسطی ایشیا سے روس کی ممکنہ پیش قدمی کا سدباب کیا جا سکے۔لیکن ان سب خوش کن عزائم کے باوجود تلخ حقیقت یہ تھی کہ کلکتہ کا سرکاری خزانہ خالی ہو چکا تھا۔ افغانستان پر قبضہ توقع سے کہیں زیادہ مہنگا ثابت ہوا تھا کیونکہ سالانہ اخراجات بیس لاکھ پائونڈ تک پہنچ گئے تھے جو کمپنی کی افیون اور چائے کی تجارت کے منافع سے کئی گنازیادہ تھے۔ فروری ۱۸۴۱ء میں لارڈ آک لینڈ کو خبردار کر دیا گیا تھا کہ چھے ماہ ختم ہونے سے پہلے ہندوستان کا خزانہ خالی ہو جائے گا۔ مارچ میں آک لینڈ نے میک نیگٹن کو لکھا ’’ہماری سب سے بڑی ضرورت روپیہ ہے۔ اخراجات کی موجودہ شرح کے مطابق ہم آپ کو کب تک سہارا دے سکیں گے۔ میں کہہ نہیں سکتا۔‘‘ان مشکل اور ناسازگار حالات میں میک نیگٹن کی ایک اعلیٰ تر معاشرتی مرتبے کی متمنی بیوی فرانسس اپنی بلی، طوطے اور پانچ آیائوں کے ہمراہ پنجاب کے راستے کابل چھائونی کی طرف عازم سفر تھی۔ اس کی روانگی سے شملہ میں موجود ایڈن سسٹرز نے سکون کا سانس لیا کیونکہ وہ اس کی صحبت سے گریزاں رہتی تھیں۔ جنرل سیل کی بیوی فلورنشیا سیل اس کی ہمسفر تھی جو بہت بڑے پیانو اور اپنی خوبصورت بیٹی الیگزینڈرینا کے ساتھ کابل پہنچی۔ان خواتین کی کابل آمد سے بہت سے لوگ خوش نہیں ہوئے۔ کینٹ کے سرجن ڈاکٹر جان میگراتھ کے بقول دونوں خواتین یکساں طور پر بے شرم اور غیر مہذب تھیں اور الیگزینڈرینا سیل خوش مزاج ہونے کے باوصف جاہل اور ان پڑھ تھی۔ لیکن اس کی ناخواندگی کے باوجود چھائونی میں نصف درجن نوجوان افسر اس کی محبت کا دم بھرنے لگے۔ لیڈی سیل اپنی بیٹی کے تمام عاشقوں کو ناپسند کرتی تھی لیکن جلد ہی نوجوان انجینئر جان اسٹوارٹ اپنے کنوارے ساتھیوں سے بازی لے گیا۔ لیڈی سیل کرنال میں اپنے باغیچے سے پھولوں کے بیج اپنے ساتھ لائی تھی جن کو اس نے اپنے کابل کچن گارڈن میں کاشت کیا۔ اس کے بقول افغان معززین اس کے پھولوں کے دیوانے تھے اور ان کے بیج حاصل کرنے کے خواہش مند تھے۔انگریز افسروں کی بیگمات کے کابل پہنچتے ہی شاہ شجاع نے اپنے نابینا بھائی شاہ زمان اور اس کے اور اپنے حرم کی لدھیانہ سے کابل واپسی کا مطالبہ کر دیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ چاہتا تھا کہ پنجاب کی صورت حال قابو سے باہر ہونے سے پہلے ان کی خواتین اور اس کا زر و جواہر کا سرمایہ بحفاظت اس کے پاس پہنچ جائیں۔ دوجوان اسکاٹش افسروں جارج براڈفٹ اور کولن میکنزی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی۔ یہ قافلہ شاہ زمان، اس کے بیٹوں، خواتین، ملازموں سمیت چھے ہزار افراد پر مشتمل تھا جس کے لیے پندرہ ہزار اونٹوں کی ضرورت تھی۔ قافلے کی حفاظت کے لیے مذکورہ افسروں کی کمان میں پانچ سو آدمیوں کا حفاظتی دستہ ہمراہ تھا۔دونوں افسر اپنی قابلیت اور مہارت سے قافلے کو پنجاب کے سرکش سکھ فوجیوں اور جمرود کے باغی سرحدی محافظوں سے بچا کر بغیرکوئی گولی چلائے بحفاظت کابل لے گئے۔اس اثنا میں شاہ شجاع نے برطانیہ کی نوجوان ملکہ وکٹوریا کی طرف سے شاہ کو بھیجے گئے تہنیتی پیغام کے جواب میں ایک محبت آمیز خط تحریر کیا۔ اس میں شاہ نے ملکہ کے خط پر بے پایاں مسرت کا اظہار کیا، ملکہ کے حسن و جمال، عقل و دانش، عدل و انصاف اور عظمت اور سربلندی کے بیان میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے اور اپنی دلی محبت، وفاداری اور خلوص کا یقین دلایا۔ لیکن ملکہ سے محبت و عقیدت کے علیٰ الرغم شجاع کابل میں موجود برطانوی افسروں کی بالادستی سے کافی بیزار ہو چکا تھا اور ان کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں سے نالاں تھا۔اسی عرصے میں میک نیگٹن ایک سنگین غلطی کا مرتکب ہوا۔ اس نے برنس کی سفارش پر شجاع کے وفادار اور بااثر گورنر ملاشکور کو بارک زئی وفادار عثمان خان سے بدل دیا اور اس کو نظام الدولہ کا خطاب دے دیا۔ ملاشکور کو برطرف کر کے نظربند کر دیا گیا۔ اس سے نہ صرف شجاع اور انگریز حکام کے درمیان اختلاف کی خلیج مزید وسیع ہو گئی، بلکہ عثمان خان کے جارحانہ اور گستاخانہ رویے کی وجہ سے حکومت کے حامی سردار بدظن ہو کر مخالف مذاحمتی تحریک میں شامل ہو گئے۔میک نیگٹن کی شہ پر نظام الدولہ اتنا بااختیار اور مغرور ہو گیا تھا کہ وہ شاہ شجاع کی بھی پروا نہیں کرتا تھا اور اس کی منظوری کے بغیر شجاع کا کوئی فیصلہ نافذالعمل نہیں ہوتا تھا۔ اس صورت حال نے افغان عوام کے اس شک کو یقین میں بدل دیا کہ شجاع اپنی حکومت میں کوئی اختیار نہیں رکھتا اور حقیقی اختیارات اور اقتدار انگریز حکام کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ نکتہ بارک زئی مخالفین کی پروپیگنڈا مشین کے لیے بہت کارآمد ثابت ہوا۔شجاع کو انگریزوں کے احسانات کا احساس تھا اور وہ ایک وفادار اتحادی کے طور پر تشکر کا اظہار بھی کرنا چاہتا تھا لیکن ایک بے بس کٹھ پتلی کا منصب اس کو منظور نہیں تھا۔ شجاع نے اپنے ان جذبات کا اظہار برنس سے کیا لیکن برنس کو اس سے کوئی ہمدردی نہیں تھی۔ وہ اپنے افسر میک نیگٹن سے متفق تھا جب اس نے کہا ’’شجاع ایک بوڑھی عورت کی طرح ہے جو اپنے عوام پر حکومت کرنے کے لیے موزوں نہیں۔ میں اس کے موزوں یا غیر موزوں ہونے کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ ہم یہاں اس کی حکومت چلانے آئے ہیں اور یہ کام ہم ضرور کریں گے۔‘‘اگست ۱۸۴۱ء میں لارڈ آک لینڈ نے میک نیگٹن کو مراسلہ بھیجا کہ کمپنی کے مالی حالات اتنے دگرگوں ہو چکے ہیں کہ وہ صرف تنخواہیں ادا کرنے کے لیے ہندوستانی تاجروںسے منہ مانگی شرح سود پر پچاس لاکھ پائونڈ مستعار لینے پر مجبور ہیں۔ میک نیگٹن کو حکم دیا گیا کہ وہ افغانستان میں ہر قسم کے اخراجات پر فوری اور قابل قدر کٹوتی کرے۔ میک نیگٹن نے احتجاج کیا لیکن احکامات کی تعمیل پر آمادگی بھی ظاہر کر دی۔ اس نے کابل کے دربار میں غلزئی اور خیبر قبائل کے سرداروں کو بلایا اور ان کو بتایا کہ ان کے وظائف میں آٹھ ہزار کی کٹوتی کی جا رہی ہے۔سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں مشرقی افغانستان کے غلزئی قبائل اور ان کا سردار محمد شاہ خان غلزئی تھا جو اکبر خان کا سسر تھا اور خیبر کے علاقے میں امن و امان کا ذمہ دار تھا۔ یہ میک نیگٹن کی سب سے بڑی غلطی تھی جس کے نتیجے میں افغانستان پر قبضے کی پوری عمارت دھڑام سے زمین بوس ہو گئی۔ غلزئی سرداروں کو امید تھی کہ ان کو اچھی کارکردگی پر انعام و اکرام کے لیے کابل بلایا جا رہا ہے۔ انھوں نے اس اقدام کو معاہدے کی خلاف ورزی اور غداری قرار دیا۔ سردار اپنی آمدنی میں کٹوتی کو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ کیونکہ انگریزوں کے آنے کے بعد ضروریات زندگی کی قیمتیں بہت بڑھ گئی تھیں اور غربت اور فاقہ کشی کی چیخ پکار عام ہو چکی تھی۔بدقسمتی سے میک نیگٹن نے کٹوتی کی تفصیل اور اس کے نفاذ کو نظام الدولہ عثمان خان پر چھوڑ دیا جس کے سرداروں کے ساتھ گستاخانہ اور دھمکی آمیز رویے نے سب کو حکام سے برگشتہ کر دیا۔ شاہ شجاع کی موجودگی میں عثمان خان اور صمد خان درانی کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ نظام الدولہ نے میک نیگٹن سے شکایت کی جس کے نتیجے میں صمد خان کو دربار سے برخاست کر دیا گیا۔ اس صورت حال پر درانی سرداروں میں بے چینی پھیل گئی اور بارک زئی، شاہ کی بے بسی پر خوشیاں منانے لگے۔نظام الدولہ کی سفارش پر میک نیگٹن نے غلزئی سرداروں کے وظیفے بند کر دیے یا ان میں کافی کٹوتی کر دی جس پر انھوں نے شدید احتجاج کیا۔ غلزئی سرداروں کا موقف تھا کہ مغلوں کے دور سے غلزئی، خیبر اور پشاور کے قبائل کو تنخواہ دی جاتی ہے۔ اور یہ سڑکوں، دروں، چیک پوسٹوں کی حفاظت اور محفوظ تجارتی و سفارتی اسفار کے بدلے میں دی جاتی ہے۔ یہ ایک طرح سے افغانستان سے ہندوستان تک راہداری کو محفوظ رکھنے کا معاوضہ ہے جو کبھی کسی حکمران نے بند نہیں کیا۔ میک نیگٹن اور نظام الدولہ کے رویے سے مایوس ہو کر ان قبائل نے اپنے گھر چھوڑ دیے اور پہاڑوں پر چلے گئے اور سرکشی، بغاوت، لوٹ مار اور سڑکوں کی بندش کو اپنا معمول بنا لیا۔ انھوں نے قرآن پر حلف اٹھایا کہ وہ بغاوت کریں گے اور افغانستان سے برطانوی فوج کے انخلا تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔ غلزئی قبائل کی بغاوت اور جنرل الفنسٹن پر گٹھیا کا حملہ تقریباً ایک ہی وقت پر ہوا۔ الفنسٹن کے سرجن ڈاکٹر کیمپبل نے مریض کا معائنہ کیا اور اس کی خراب حالت دیکھ کر دہشت زدہ ہوگیا۔ اس کے مطابق بیماری نے جنرل کے تمام جوڑوں پر شدید حملہ کر دیا تھا۔ وہ ایک تباہ شدہ ڈھانچا کی طرح تھا اور اپنی ڈیوٹی انجام دینے سے یکسر معذور اور ناقابل علاج ہو چکا تھا۔ الفنسٹن نے آک لینڈ کو مراسلہ بھیجا اور درخواست کی کہ اسے فرائض سے سبکدوش کردیا جائے۔ اسی دوران میک نیگٹن نے افغانستان میں برطانوی فوج کو مزید کم کرنے کے لیے کرنل رابرٹ سیل اور اس کے بریگیڈ کو واپس ہندوستان بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے ذمہ ایک کام یہ بھی تھا کہ وہ واپسی کے سفر میں غلزئی قبائل کو سرکشی کا مزا چکھائے۔سیل کا بریگیڈ۹ اکتوبر ۱۸۴۱ء میں کابل سے روانہ ہوا۔ اگلے چند دنوں میں سیل کے دستے پر افغان غلزئی قبائل نے کئی دفعہ شب خون مارا اور ان کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا۔ کابل خورد درے سے گزرتے ہوئے برطانوی فوجیوں کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ سیل خود بھی بری طرح زخمی ہوا۔ بالآخر سیل کو مذاکرات پر مجبور ہونا پڑا۔ اس نے محفوظ راستے کے عوض افغان قبیلے کو ۴۰۰۰۰روپے ادا کیے۔اپنے زخمیوں کو واپس کابل بھیجا اور باقی ماندہ بریگیڈ کے ساتھ تیز رفتاری سے جلال آباد کی طرف پیش قدمی کی۔ چند دن کے اندر بریگیڈ کے ۲۵۰ آدمی مارے جا چکے تھے اور بہت سا سازوسامان اور گولہ بارود لوٹا جا چکا تھا۔ ظاہر تھا کہ یہ صرف غلزئی قبائل کی اپنی آمدنی بحال کروانے کے لیے احتجاجی کارروائی نہ تھی بلکہ پورا ملک برطانوی حکمرانوں اور فوجیوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ افغان باغیوں کی تعداد روز بہ روز بڑھتی جا رہی تھی۔دروں میں اور کابل کے اردگرد بھی لڑائی کی افواہیں عام تھیں۔سیل کا بریگیڈ ۱۲ نومبر کو جلال آباد پہنچا۔ اس قصبے پر قبضہ کرنے کے بعد انھوں نے قلعہ بندی کو مضبوط کیا۔ اگلی صبح ہی بڑی تعداد میں غلزئی اور شنواری قبائلی نمودار ہوئے اور انھوں نے قصبے کا محاصرہ کر لیا۔ سیل نے ایک تیز رفتار قاصد کے ذریعے صورت حال کی اطلاع پشاور میں برٹش ریذیڈنسی کو بھجوا دی۔ اس نے لکھا ’’باغیوں نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔ ہمیں سپاہیوں، خزانے، خوراک اور گولہ بارود کی سخت ضرورت ہے۔ سپاہی نصف راشن پر ہیں۔ ہمارے پاس صرف چھ دن کے لیے چاول ہے اور آٹا بالکل نہیں۔ مدد کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔‘‘جنوبی افغانستان میں وسیع پیمانے پر بغاوت واضح طور پر ناگزیر دکھائی دے رہی تھی۔ قندھار میں پولیٹیکل ایجنٹ ہنری رالنسن کا کہنا تھا ’’غیر ملکیوں کے خلاف مخالفانہ جذبات میں ہر روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان کے ملّا ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ہمارے خلاف تبلیغ کر رہے ہیں۔ سرولیم میک نیگٹن کی غلطیوں نے یہ افسوسناک نتیجہ دکھایا ہے۔ لارڈ آک لینڈ نے اس شخص کو کیسے یہاں کا حاکم بنایا دیا جس نے انگریزوں کے نام سے وابستہ ہر چیز کو قابل نفرت بنا دیا۔‘‘ غزنی کا کمانڈر کرنل تھا مس پامر بھی یکساں تشویش میں مبتلا تھا۔ چاریکر میں ایلڈرڈ پاٹنگر سب سے زیادہ خوفزدہ تھا۔اس کو یقین تھا کہ اس کے گورکھا دستے کا قتل عام ہونے والا ہے۔ تاہم میک نیگٹن ابھی تک ان رپورٹوں کا تمسخر اڑا رہا تھا۔ اس کے ضرورت سے زیادہ اعتماد اور ہٹ دھرمی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ لارڈ آک لینڈ نے افغانستان میں اس کی کارکردگی کا اس کی توقع سے بڑھ کر انعام دینے کا فیصلہ کر لیا تھا یعنی بمبئی کی گورنرشپ اور مالابار ہل پر شاندار رہائش گاہ۔ اس لیے وہ چاہتا تھا کہ وہ جلد سے جلد اس تاثر کے ساتھ اس ملک سے واپس جائے کہ وہاں امن و سکون اور ترقی کا دور دورہ تھا اور بعد میں پیش آنے والے سانحات کی ذمہ دار کسی جانشین پر ڈالی جا سکے۔ میک نیگٹن کی روانگی کی صورت میں اس اعلیٰ منصب پربرنس کے فائز ہونے کے امکانات سب سے زیادہ تھے۔ اگرچہ وہ ہمیشہ اس عہدے کا متمنی رہا تھا لیکن اب مخدوش حالات کے پیش نظر وہ بھی متامل تھا۔ اس کی عیش و طرب کی سرگرمیوں نے اس کو افغانستان میں نفرت کی علامت بنا دیا تھا۔کابل کے سردار اور امرا افغانستان پر برطانیہ کے قبضے، غلزئی سرداروں کے الائونس میں کٹوتی، شاہ شجاع کی بے وقعتی اور ملاشکور کی برطرفی پر ناراض اور نالاں تھے۔ شاہ شجاع کی حکومتی معاملات میں اپنی بے بسی کی شکایات نے بھی قابض برطانوی فوج کے خلاف تفرت کو بھڑکانے میںاہم کردار ادا کیا۔ رات کے وقت انھوں نے قرآن پر حلف اٹھایا کہ وہ قابض افواج کے خلاف متحد رہیں گے اور ان کے خلاف جنگ کریں گے۔ یکم نومیر ۱۸۴۱ء رمضان کے پہلے ہفتہ میں عبداللہ خان اچکزئی کی ایک باندی رات کے وقت فرار ہو کر الیگزینڈر برنس کی رہائش گاہ پر چلی گئی۔ جب خان نے اپنے ایک ملازم کو بھیجا کہ وہ لڑکی کو واپس لے آئے تو برنس نے طاقت اور غرور کے نشے میں ملازم کو شدید زد و کوب کیا اور گھر سے باہر پھینک دیا۔ موہن لال کشمیری کے مطابق یہ حد سے زیادہ اشتعال انگیز حرکت تھی۔ عبداللہ خان اچکزئی نے پہلے امین اللہ خان لغاری کو قرآن کا واسطہ دے کر انگریزوں کے خلاف ساتھ دینے کی اپیل کی۔ جب وہ متفق ہو گیا تو پھر اس نے اپنے گھر پرکابل کے سرداروں کا جرگہ بلایا اور ان سے خطاب کیا۔’’اب ہم انگریزوں کی حکومت کو گرانے میں حق بجانب ہیں۔ ان کے ظلم و استبداد کا ہاتھ چھوٹے بڑے شہریوں کی آن اور عزت تک پہنچ گیا ہے۔ ایک باندی کی عصمت دری کی کوئی حقیقت نہیں لیکن ہمیں اس سلسلے کو یہیں روکنا ہو گا ورنہ یہ انگریز اپنی خواہشات کے گدھے پر سوار ہو کر حماقتوں کا ارتکاب کریں گے۔ وہ جلد ہی ہم سب کو گرفتار کر کے کالا پانی قیدخانے میں بھیج دیں گے۔ میں خدا پر بھروسہ کرتا ہوں اور پیغمبر محمدﷺ کا عَلَم جہاد بلند کرتا ہوں۔ اگر ہم کامیاب ہوتے ہیں تو یہ ہماری خواہش کے مطابق ہو گا۔ اور اگر ہم جنگ میں مر جاتے ہیں تو پھر بھی یہ ذلت اور رسوائی کی زندگی سے بہترہے۔‘‘تمام سردار جو اس کے بچپن کے دوست بھی تھے مقدس جنگ یعنی جہاد کے لیے تیار ہو گئے۔ جب موہن لال کواپنے مخبروں کے ذریعے سازشیوں کی میٹنگ کا علم ہوا تو وہ فوراً برنس کے پاس گیا اور اس کو ممکنہ بغاوت کے بارے میں خبردار کیا۔ برنس اپنے مستقبل کے بارے میں تشویش میں مبتلا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ وہ دن ا س کے لیے کیا خبر لائے گا۔ لیکن غلزئی قبائل نے تمام درے بند کر دیے تھے اس لیے اس روز کابل میں کوئی ڈاک نہیں پہنچی۔اس کا خیال تھا کہ چند دن کے اندر میک نیگٹن بمبئی چلا جائے گا پھر وہ سرداروں کو ان کے الائونس بحال کر کے رام کر لے گا۔ جب موہن لال پل خشتی بازار میں اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا، سازشی حملہ کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔ صبح ہونے سے پہلے ہی وہ برنس کے گھر پر گئے اور حفاظت پر مامور سپاہیوں کا اپنی تلواروں سے کام تمام کر دیا۔ لڑائی کی خبر شہر میں آگ کی طرح پھیل گئی اور کابل کے لوگوں نے اس کو خدا کی طرف سے انعام سمجھ کر خوش آمدید کہا۔ انھوں نے اپنی دکانیں بند کیں اور ہتھیار لے کر جائے وقوعہ پر پہنچ گئے۔ صبح ہوتے ہوتے افغان ٹڈی دل کی طرح گلیوں میں نمودار ہوئے اور الیگزینڈر برنس کے گھر کے گرد جمع ہو گئے۔۲ نومبر کی صبح سرد اور صاف تھی۔ کابل شہر سے باہر چھائونی میں شاہ شجاع کی فوج کو تنخواہ تقسیم کرنے والا افسر ہیو جانسن جلد بیدار ہو گیا۔ اس کے ساتھیوں نے اس کو مشورہ دیا تھا کہ شہر میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر وہ چھائونی میں رات گزارے اگرچہ شہر کے مرکزی شور بازار میں اس کی افغان محبوبہ اس کی منتظر رہی۔ اس کا اپنا گھر برنس کے گھر کے مقابل واقع تھا۔طلوع آفتا ب کے آدھ گھنٹہ بعد اس کے چپڑاسیوں نے اس کو بتایا کہ اس کے گھر اور خزانہ کے سامنے ایک ہجوم جمع ہو چکا ہے۔ وہ اندر داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے اور برنس ان کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ جانسن نے اپنا گھوڑا تیار کرایا اور اپنے گھر تک جانے کا ارادہ کیا لیکن ایک ملازم نے اس کو بتایا کہ برنس اور میرے گھر کی گلی پر ہجوم کا مکمل قبضہ ہو چکا ہے۔ وہ گیٹ توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں اور میرا خزانے کا محافظ ان پر گولیاں چلا رہا ہے۔ اس نے کہا کہ میرا گھر تک پہنچنا ناممکن ہے کیونکہ باغیوں کی تعداد ہر لمحے بڑھتی جا رہی ہے اور وہ یورپی اور ہندوستانی باشندوں کو قتل کر رہے ہیں۔جانس کہتا ہے ’’ میں نے سوچا کہ ان رپورٹس کی موجودگی میں جنرل الفنسٹن کی طرف سے اس بغاوت کو فروکرنے اور خزانے اور برنس کی زندگی بچانے کے لیے ایک دستہ فوری طورپر بھیجا جائے گا اور بہترہو گا کہ میں بھی اس کے ساتھ ہی جائوں۔ میں نے دیکھا کہ شہر کی طرف سے گہرے دھوئیں کے بادل اٹھ رہے تھے۔ میں نے اندازہ لگایا کہ باغیوں نے میرے گھر کو آگ لگا دی ہے۔ میں نے شدید فائرنگ کی آوازیں بھی سنیں۔ لیکن ہم حیران تھے کہ جنرل نے خزانے اور برنس اور دوسرے عملے کو بچانے کے لیے ابھی تک کسی دستے کی روانگی کا حکم کیوں نہیں دیا۔بار بار پوچھنے پر پتا چلا کہ ہنگامے کی خبروں کے بعد بیمار جنرل نے گھوڑے پر سوار ہونے کی کوشش کی تو وہ دھپ سے نیچے گرا اور گھوڑا اس کے اوپرگر گیا۔ اس کے بعد وہ تقریباً مخبوط الحواس ہو گیا۔ اس دوران افواہ پھیل گئی جو سچ ثابت ہوئی کہ سرکش باغیوں نے گیٹ اور دیوار توڑ کر میرے گھر اور خزانہ پر قبضہ کر لیا تھا اور حفاظت پر مامور کمیشنڈ افسروں کے علاوہ ایک صوبیدار اور ۲۸ سپاہیوں کو قتل کر دیا تھا۔ میرے گھریلو ملازمین نے سارا خزانہ لوٹ لیا جو ایک لاکھ ستر ہزار روپے پر مشتمل تھا اور میرے ذاتی مال و اسباب پر قبضہ کر لیا۔میک نیگٹن کے نوجوان ملٹری سیکرٹری جارج لارنس کو اندازہ ہو گیا تھا کہ مصیبت آنے والی ہے۔ اس نے چھائونی میں سب فوجیوں کو تیاری کا پیغام دے دیا۔ اس کے ایک ملازم نے جو شہر سے واپس آیا تھا، بتایا کہ تمام دکانیں بند ہو چکی ہیں اور گلیوں میں مسلح افراد کا ہجوم ہوتا جا رہا ہے۔ لارنس نے میک نیگٹن کو تجویز پیش کی کہ چھائونی میں موجود پانچ ہزر فوجیوں کو فوری طور پر صورتحال سے ٹمنٹے کے لیے شہر بھیجا جائے اور بغاوت کے راہنما امین اللہ خان لغاری اور عبداللہ خان اچکزئی کو ایک لمحہ ضائع کیے بغیر گرفتار کر لیا جائے۔ لیکن یہ تجویز فوراً رد کر دی گئی۔ اور اسے مشورے کے لیے شاہ شجاع کے پاس بالاحصار جانے کا حکم دیا گیا۔ لارنس صبح نو بجے چار سپاہیوں کی معیت میں چھائونی سے روانہ ہوا۔ راستے میں گھات لگائے ہوئے افراد نے ان پر حملہ کر دیا لیکن وہ اپنی مہارت اور تیز رفتاری سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔بالاحصار میں جب لارنس کی ملاقات شاہ شجاع سے ہوئی تو وہ بے چینی سے ٹہل رہا تھا۔ اس نے کہا ’’کیا یہ وہی انجام نہیں جس سے میں نے میک نیگٹن کو پہلے ہی خبردار کیا تھا مگر اس نے میرے مشورے پر عمل نہ کیا۔‘‘ لارنس کے پہنچنے سے پہلے ہی شاہ اپنے بیٹے فتح جنگ اور نظام الدولہ عثمان خان کو کچھ سپاہیوں کے ساتھ شہر میں ہنگامے پر قابو پانے کے لیے بھیج چکا تھا۔ لارنس اس حقیقت سے باخبر تھا کہ انگریز افسران مہینوں سے شجاع کو کاہل اور غیر موثر کہہ رہے تھے۔لیکن جب بحران شروع ہوا تو اسی نے شہر میںبغاوت کو دبانے کے لیے فوری اقدام کیا اور اپنے وفادار اینگلوانڈین کمانڈر ولیم کیمپبل اور فتح جنگ کو ایک ہزار آدمیوں اور دو توپوں کے ساتھ ہجوم کے خلاف کارروائی کے لیے بھیجا۔ درحقیقت شجاع ہی وہ واحد شخص تھا جس نے برنس کی زندگی بچانے کی کوشش کی اگرچہ وہ گزشتہ عشرے سے شجاع کا سب سے بڑا ناقد رہا تھا۔ لارنس کی موجودگی میں فتح جنگ کی کامیاب کارروائی کی خبریں شجاع تک پہنچنا شروع ہو گئی تھیں۔تاہم کچھ دیر بعد واقعات میں خطرناک تبدیلی آنی شروع ہو گئی۔ جلد ہی خبر ملی کہ کیمپبل اور فتح جنگ کے فوجیوں پر شہر کی تنگ گلیوں میں حملہ کیا گیا ہے اور گھروں میں چھپے ہوئے نشانہ بازوں نے ان کے سو آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ ان کی توپیں بھی چھن گئیں اور ان کو برنس کے گھر سے کچھ فاصلے پر روک دیا گیا۔ شجاع اپنے بیٹے کی سلامتی کے لیے فکر مند ہو گیا اور پدرانہ شفقت سے مجبور ہو کر اس نے اپنے بیٹے اور نظام الدولہ کو واپس بلا لیا۔ نظام الدولہ نے واپسی پر سخت لہجے میں غصے کا اظہار کیا ’’فتح کے قریب ہمیں واپس بلانے سے آپ کے فوجیوں کو شکت ہو جائے گی اور ہم سب مصیبت کا شکار ہو جائیں گے۔‘‘برنس کو اپنی مقبولیت اور سلامتی کا اتنا یقین تھا کہ اس کے پاس صرف بارہ محافظ تھے۔ نظام الدولہ نے اس کو مشورہ دیا کہ وہ گھر چھوڑ دے اور اس کے ساتھ بالاحصار چلا جائے کیونکہ اس کی ذاتی سلامتی زبردست خطرے میں تھی۔ برنس نظام الدولہ کے ساتھ جانے پر آمادہ ہو گیا تھا لیکن اس کے محافظ دستے کے افسر نے اس کو یاد دلایا کہ اس کو وہاں ٹھہرکر میک نیگٹن کے جواب کا انتظار کرنا چاہیے۔اس لیے نظام الدولہ اکیلا ہی روانہ ہو گیا اور وعدہ کیا کہ وہ شاہ شجاع کے فوجیوں کی ایک بٹالین کے ہمراہ واپس آئے گا۔ اس اثنا میں بغاوت کے راہنما عبداللہ خان اچکزئی کے حکم پر باغیوں نے برنس کے گھر سے متصل باغ میں پوزیشن سنبھال لی۔ باغی راہنما برنس سے اس لیے نفرت کرتے تھے کہ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ انگریزوں کو افغانستان میں لانے کا ذمہ دار وہی ہے۔ اس پر یہ بھی الزام تھا کہ وہ ان کو مناسب احترام نہیں دیتا۔ وہ اس کو افغانستان میں ایک نہایت متضاد اور ناقابل قبول نظام کے نفاذکا ذمہ دار بھی سمجھتے تھے۔برنس اپنے آپ کو نچلے طبقات میں ہر دلعزیز سمجھتا تھا۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ پر مشکوک تھی۔ اس لیے جب برنس نے اپنے دو ایلچی باغی راہنمائوں کے پاس بھیجے تاکہ وہ اپنی شکایات بتائیں اور اس کے ساتھ امن کی شرائط طے کریں تو انھوں نے پہلے کا سرقلم کر دیا اور دوسرے کو واپس جانے دیا تاکہ وہ یہ پیغام پہنچا سکے۔ پھر سرداروں نے اپنے آدمی مکانوں کی چھتوں پر تعینات کر دیے تاکہ وہ برنس کے صحن میں اتر سکیں۔ موہن لال کشمیری کے بقول تقریباً دو سو آدمیوں نے گھر کو ہر طرف سے گھیر لیا۔ برنس بالائی منزل کی کھڑکی سے باغیوں کو پرسکون رہنے کی تلقین کر رہا تھا اور ان سب کو پرکشش انعامات کی پیشکش کر رہا تھا۔عین اس لمحے باغیوں نے برنس کے گھر کے دروازے کو آگ لگا دی۔ آگ کے شعلے اس کمرے تک پہنچ رہے تھے جہاں برنس اور اس کا بھائی کھڑے ہجوم کو دیکھ رہے تھے اور رحم کی بھیک مانگ رہے تھے۔ برنس کا بھائی باہر باغیچے میں آیا اور اس نے چھ آدمیوں کو مار ڈالا اور پھر اس کے ٹکڑے کر دیے گئے۔ اس کے بعد برنس کے ساتھ کیا ہوا ٹھیک طور پر معلوم نہیں کیونکہ کسی عینی شاہد کا بیان تاریخ میں موجود نہیں۔ اس کی موت کے بارے میں مرزا عطا، منشی عبدالکریم، موہن لال و دیگر کی بیان کردہ روایات موجود ہیں۔ ان میں موہن لال کی روایت نسبتاً قابل اعتبار ہے۔ وہ بیان کرتا ہے۔ ’’جب آگ نے کمرے کو جلا کر خاکستر کر دیا تو سر الیگزینڈر برنس اپنے باغ میں آ گیا۔اس نے ہجوم سے اپنی زندگی بچانے کے لیے التجا کی لیکن جواب میں اس پر گالیوں اور پھٹکار کی بارش کی گئی۔ جب اس کو اپنی زندگی کی کوئی امید نہ رہی تو اس نے اپنی سیاہ نکٹائی آنکھوں پر باندھ لی تاکہ وہ یہ نہ دیکھ سکے کہ موت اس پر کس طرف سے وار کرتی ہے۔ اس کے بعد وہ دروازے سے باہر نکل آیا۔ غضب ناک ہجوم فی الفور اس پر ٹوٹ پڑا۔ دو سو بہادر افغانوں کی آبدار تلواروں نے اس کے جسم کے چیتھڑے اڑا دیے۔ اس وقت اس کی عمر صرف چھتیس سال تھی۔ الیگزینڈر برنس کی سر بریدہ لاش ایک ہفتے تک گلی میں پڑی رہی اور شہر کے کتے اسے نوچتے رہے۔ کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ لاش کے مسخ شدہ ٹکڑے اٹھاتا۔ آخر کار برنس کے ایک قریبی دوست نائب شریف نے اپنے ایک ملازم کو بھیجا کہ گلے سڑے ٹکڑے دفن کر دے۔برنس کے قتل کی خبر پھیلی تو دیہی علاقوں سے قبائلیوں نے شہر کا رخ کر لیا۔ غلزئی قبیلے کے پیادہ اور گھڑسوار بھی میدان جنگ میں کود پڑے۔ چاروں طرف سے قبائلی جوق در جوق کابل میں داخل ہونے لگے۔ دو تین ہفتوں کے اندر جنگجوئوں کی تعداد پچاس ہزار تک پہنچ گئی جو مختلف اسباب کی بنا پر انگریزوں پر حملہ کرنے کے لیے جمع ہوئے۔باغیوں کے اوّلین اہداف شہر اورچھائونی کے درمیان مضافاتی قلعے اور برج گھر تھے۔ برطانوی فوجی افسروں نے انھیں اسلحہ اور اشیائے خورونوش کے گوداموں میں تبدیل کر رکھا تھا۔ باغیوں کو اچھی طرح علم تھا کہ قلعوں میں سامان رسد کی حفاظت کا مناسب انتظام نہیں کیا گیا۔ اگر وہ قلعے تباہ کرتے یا ان پر قبضہ کر لیتے، تو انگریز یا تو بھوک سے مر جاتے یا اسلحہ اور گولہ بارود کی کمی کے سبب ہتھیار ڈال دیتے۔ چناںچہ منٹوں میں انھوں نے قلعہ جعفر خان گرایا اور اسے آگ لگا دی۔ پھر قلعہ محمد شریف فتح ہوا۔ اگلا نشانہ قلعہ نشان خان بنا جہاں شاہ شجاع کی فوج کا سامان جمع تھا۔ یہ برطانوی ہیڈ کوارٹر سے صرف ایک میل کے فاصلے پر تھا۔بہت جلد یہ واضح ہو گیا کہ برطانوی فوج باغیوں کو موثر جواب دینے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ چناںچہ برطانیہ کے حامی سردار بھی باغیوں سے رابطے کرنے لگے۔ ایک انگریز فوجی افسر کے بقول ’’چھائونی سے ایک میل کے اندر اور بالاحصار کی دیواروں کے نیچے ہمارے ہم وطنوں کو قتل کیا جانے لگا۔‘‘ برطانوی فوج کی کمزوری نے افغانوں کو دلیر بنا دیا۔ باغیوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک عبوری حکومت بنا کر اپنا قائد منتخب کر لیں گے تاکہ جہاد کا باقاعدہ اعلان ہو سکے۔ پھر باغی شاہ شجاع کو اپنا قائد بنانا چاہتے تھے۔ چناںچہ انھوں نے شاہ کے پاس ایک وفد بھیجا جس نے اپنی معروضات پیش کیں۔ ’’آپ ہمارے شہنشاہ ہیں اور ہم غیر ملکی قبضے کے خلاف آپ کی حمایت چاہتے ہیں۔ براہ مہربانی اپنے آپ کو غیرملکیوں کے اس گروہ سے الگ کر لیجیے۔‘‘بادشاہ سلامت نے جواب دیا: ’’ہماری حکومت انگریزوں سے الگ نہیں ہو سکتی کیونکہ ہم نے تیس سال بطور ان کے معزز مہمان گزارے ہیں۔ اگرچہ انھوں نے نااہل عثمان خان کو نظام الدولہ اور وزیر بنا کر ہمیں دکھ پہنچایا۔ پھر بھی ہم ان کے خلاف کوئی کینہ نہیں رکھتے۔ بے شک جو انجام ان کا ہونا ہے ہمارا بھی ہو جائے۔‘‘بادشاہ کو اپنی جدوجہد میں شریک کرنے میں ناکامی پر باغیوں نے اسے بھی کافر قرار دے دیا۔ کسی سیدوزئی رہنما کی عدم موجودگی میں انھوں نے پھر بارک زئیوں سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ کئی ہفتوں سے افواہ گرم تھی کہ دوست محمد کا بیٹا اکبر خان بالآخر بخارا کے قید خانے سے بچ نکلا ہے۔ لیکن اس کی غیر حاضری میں باغیوں نے اس کے عم زاد، محمد زمان خان کو اپنا قائد چن لیا۔ اس طرح ایک دہقاتی اور خانہ بدوش کابل کا طاقتور ترین شخص بن گیا۔ بغاوت کے حقیقی راہنمابھی نظرانداز نہیں ہوئے۔ ۔۔۔۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔،