جنوبی وزیرستان میں قبائلیوں کے ساتھ جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے برطانوی فوجیوں کی قبریں ضلع ٹانک کے علاقے منزئی قلعہ میں ایک تاریخی یاد کے طور پر محفوظ ہیں۔
برطانوی دور حکومت کے دوران جنوبی وزیرستان میں بنی یہ 43 قبریں قدرے بہتر حالت میں ہیں جن میں ایک میجر، دو کیپٹن اور دو لیفٹینینٹس کی قبریں بھی شامل ہیں۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والےسابقہ ڈپٹی کمانڈنٹ منزئی، رحمت خان محسود نے بتایا کہ اس گورا قبرستان میں برطانوی فوج کے وہ اہلکار دفن ہیں جو جنوبی وزیرستان میں قبائلی لشکروں کے ساتھ جھڑپوں میں مارے گئے تھے۔
ایک چھوٹے سے قبرستان میں دفن ہونے والے انگریزوں کی یہ قبریں ایک چاردیواری کے اندر واقع ہیں جن میں سے چند برے حالوں میں ہیں مگر پھر بھی جن قبروں پر کتبے آویزاں تھے ان کی تحریریں اب بھی واضح طور پر پڑھی جاسکتی ہیں۔
برطانوی فوج اور (حاجی)غازی مرزاعلی خان وزیر المعروف ایپی فقیر کے درمیان یہ جنگ تب شروع ہوئی جب مارچ 1936 میں ایک ہندو لڑکی رام کوری نے مذہب تبدیل کرنے کے بعد بنوں کے ایک مسلمان سید امیر نور علی شاہ سے شادی کی، ان کا نام اب اسلام بی بی رکھا گیا۔ لڑکی کے والدین کی جانب سے معاملہ عدالت گیا۔ فیصلہ ان کے حق میں ہوا۔
فیصلے کے بعد انگریزوں نے قبائلی عمائدین پر بہت زور ڈالا کہ اس لڑکی کو واپس کیا جائے۔ عمائدین نے چند شرطیں رکھیں لیکن انگریز انہیں پورا کیے بغیر وہ لڑکی واپس لے کر جانے میں کامیاب ہو گئے اور بنوں کے انگریز ڈپٹی کمشنر نے عدالتی احکامات کے مطابق سید امیر نور علی شاہ کو گرفتار کر کے سزا دلوائی۔
اس سے وزیرستان میں غم وغصہ پھیل گیا اور ایک جرگہ منعقد ہونے کے بعد فقیر ایپی نے انگریزوں کے خلاف کارروائی کا اعلان کر دیا۔
ایک ہندو لڑکی پر 1936 میں بنوں اور شمالی وزیرستان سے شروع ہونے والی جنگ یہ جنوبی وزیرستان تک پھیل گئی۔
فقیر ایپی محسود قبائل کی حمایت حاصل کرنے کے لیے جنوبی وزیرستان کے محسود علاقے میں گئے تاکہ برطانوی فوج کے خلاف لڑنے میں وہ ان کا ساتھ دیں۔
محسود قبائل حاجی مرزاعلی خان عرف فقیر ایپی کے ساتھ انگریز کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہوگئے۔
جب محسود قبائل کی طرف سے برطانوی فوج پر حملے شروع ہوئے تواس دوران انگریزوں نے نومبر 1936 میں دو بریگیڈ فوج جنوبی وزیرستان بھیجی اور مختلف علاقوں میں محسود قبائل کے ساتھ جھڑپیں شروع ہو گئیں جن میں انگریزوں کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
مسلسل چار دن تک جاری ہونے والی لڑائی میں20 سے زیادہ انگریز مارے گئے۔
انگریزوں نے زمینی کاروائیوں کے ساتھ ساتھ فضائی طاقت کا بھی بھرپور استعمال کیا اور قبائلی لشکروں میں شامل جنگجوؤں کو مارنے کے علاوہ مختلف علاقوں سے گرفتار بھی کرلیا۔ کم و بیش چوبیس قبائلی گرفتار ہوئے۔
اپریل 1937 میں جنوبی وزیرستان کے علاقے شہور تنگی میں انگریزوں کے ایک قافلے پر مُسلح قبائلیوں نے اچانک حملہ کیا جس میں 53 برطانوی فوجی مارے گئے، مرنے والوں میں سات فوجی آفسران بھی شامل تھے۔
جنوبی وزیرستان میں ہلاک ہونے والے ان تمام فوجیوں کو ضلع ٹانک کے علاقے منزئی میں واقع ایف سی قلعہ کی حدود میں دفنا دیاگیا اور مزید جھڑپوں کے بعد منزئی قلعے نے ایک پورے قبرستان کی شکل اختیار کر لی۔
آج 83 سال بعد بھی ایک چار دیواری کے اندر ان 43 انگریزوں کی قبریں نظر آتی ہیں جو اس جنگ میں ہلاک ہوئے۔
ویسے تو ہر قبر کی اپنی ہی ایک کہانی ہوتی ہے مگر منزئی میں گوراقبرستان ایک ایسی تاریخی کتاب کی مانند ہے جس نے وزیرستان میں انگریزوں کے ساتھ قبائلیوں کی جنگ پر مشتمل پُرانی تاریخ کو محفوظ کر رکھا ہے۔
ریٹائرڈ ایڈیشنل آئی جی اور سابقہ ڈپٹی کمانڈنٹ منزئی رحمت خان محسود نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ برطانوی حکومت نے منزئی گورا قبرستان کو لڑائیوں میں ہلاک ہونے والے انگریزوں کے لیے مخصوص کر دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ منزئی گورا قبرستان صرف اس لیے محفوظ ہے کہ یہ قلعے کی حدود میں واقع ہے اور قبرستان کے ارد گرد علیحدہ سے ایک چار دیواری بھی موجود ہے۔
رحمت خان کے مطابق قبرستان کا کوئی خاص خیال نہیں رکھا جاتا جس کی وجہ سے بارش کا پانی قبروں کے اندر داخل ہوتاہے اور پانی اندر داخل ہونے کی وجہ سے بعض قبریں زمین بوس ہو چکی ہیں اور بعض کا تو نام و نشان بھی مٹ گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ڈیرہ ڈویژن میں منزئی سے بڑا کوئی قلعہ موجود نہیں۔ یہ قلعہ اٹھارہویں صدی میں تقریباً دو سو ایکڑ سے زیادہ رقبے پر بنایاگیا تھا۔ اس قلعے میں پوری بریگیڈ فوج موجود ہوتی تھی جس سے ریاست وزیرستان کو کنٹرول کرتی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیرستان میں قبائلی لشکروں کے خلاف فوج پوری تیاریوں کے ساتھ یہاں سے بھیجی جاتی تھی اور وہاں فوجی کاروائیوں کے دوران ہلاک ہونے والے فوجیوں کی لاشیں پھر واپس ادھر منزئی قلعہ میں لائی جاتی تھیں۔
رحمت خان محسود نے بتایا کہ برطانوی فوج کے جانے بعد قلعے کو ملیشیا فورس کے حوالے کیا گیا تھا۔ بعد ازاں 1975 میں ملیشیا فورس کو یہاں سے وزیرستان بھیج دیاگیا اور قلعے میں فرنٹیر کانسٹیبلری کو تعینات کردیاگیا جو اب تک یہاں موجود ہیں۔
ایک اہم تاریخی دستاویز منزئی گورا قبرستان مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے اب محض ایک اجاڑ ویرانے کا منظر پیش کرتا ہے۔ شاید ایک دن یہ تاریخی کتاب وقت کے سردوگرم سے متاثر ہو کر کہیں گم ہو جائے گی۔
فقیر ایپی کا انتقال 1960 میں ہوا۔