ټول حقوق د منډيګک بنسټ سره محفوظ دي
سکندر کے زمانے سے باختر یونانیوں کی نوآبادی تھی۔ سلوکس نے چندر گپت سے شکست کھانے کے بعد جو شرمناک معاہدہ کیا تھا اس میں سندھ پار کے علاقے سیستان، شمالی افغانستان اور بلوچستان پر چندگپت کا حق تسلیم کرلیا گیا تھا ۔ بلخ کے یونانیوں کو خدشہ تھا کہ چندر گپت بلخ فتح کرنے کے لئے پیش قدمی کرے گا اس لئے باختریہ کے یونانیوں نے سلوکیوں کے خلاف بغاوت کردی ۔
باختریہ جس کا دارلحکومت بلخ تھا اور وہاں کی بغاوت کی قیادت ڈیوڈیٹسDeudetes جو یونانی نژاد تھا کررہا تھا ۔ اس نے سغدیہ اور مرو کو متحد کرلیاِ اور سلوکیوں کا جوا اتار پھیکا ۔ ادھر پارتھیا نے بھی بغاوت کردی ، اس کی قیادت ایک مقامی سردار ارشک کررہا تھا ۔ اس بغاوت کو سرد کرنے کے لئے انٹی گوس دوم نے اپنے بھائی سلوکس سوم کے ساتھ مل کر 237 ق م میں پارتھیا پر چڑھائی کی اور بلخ کے حکمران ڈیوڈوٹس سے معاہدہ کرکے اسے بھی پارتھیا پر حملہ کرنے کے لئے راضی کرلیا ۔ لیکن ڈیوڈوٹس فوت ہوگیا ارشک نے موقع کو غنیمت جان کر کے اس کے بیٹے کر کے ڈیوڈوٹس دوم سے اتحاد کرلیا اور اس کو سلوکیوں سے مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ کرلیا جس کی وجہ سے سلوکس کو راہ فرار اختیار کرنی پڑی ۔
ڈیوڈوٹس کو ایک اور یونانی سردار یوتھی ڈیمس Ueothidemesنے شکست دی ۔ اسے بھی نئے حکمران انطیوکس اعظم ( 223 تا 187 ق م ) سے لڑنا پڑا ۔ جس نے ایک طویل مقابلے کے بعد باختریہ کی خود مختیاری تسلیم کرلی ۔ انطیوکس یوتھی ڈیمس کے بیٹے ڈیمتریوس Demetrues سے جو باپ کی طرف سے صلح کی گفت و شنید کررہا تھا اس قدر متاثر ہوا کے اپنی بیٹی کی شادی اس سے کردی ۔
یوتھی دیمس ایک طول عرصہ حکومت کے بعد 190 ق م میں وفات پائی ۔ اس کا بیٹا ڈیمتریوس اس کا جانشین ہوا جس کی شہرت پہلے ہی دور تک پھیل چکی تھی ۔ اس نے اپنی سلطنت مستحکم کرنے کے لئے وادی کابل پر حملہ کر کے پنجاب وسندھ کے بعض علاقوں پر قبضہ کرلیا ۔ لیکن اسے اپنے ہندی مقبوضات کی بڑی قیمت دینی پڑی ۔ کیوں کی اس کی عدم موجودگی ایک اور یونانی سردار یوکراٹائی یز Eucratsevess نے اس کے پایہ تخت بلخ پر قبضہ کرلیا ۔ ڈیمتریوس نے اپنے ہندی مقبوضات اپنے قبضہ میں رکھے اور سنگالہ Singala ( سیالکوٹ ) کو اپنا دارلحکومت بنالیا اور اس کے بعد وہ ہندیوں کا بادشاہ کہلانے لگا ۔
ڈیمتریوس کو بعد میں یوکراٹائی یز سے مقابلہ کرنا پڑا کیوں کے اس نے اپنی سلطنت کی حدودیں پنجاب تک بڑھا لیں ۔ اس لڑائی میں ڈیمتریوس مارا گیا مگر یوکراٹائی یز کی کامیابی بھی دیر پا ثابت نہیں ہوئی اور وہ جب واپس جارہا تھا کہ راستہ میں اس کے بیٹے ہیلو کلیز Heloclies نے اسے قتل کردیا اور بعد میں اس پدر کش حکمراں کے دور میں باختر پر ساکاؤں نے قبضہ کرلیا اور یونانیوں نے بھاگ کر ہندی علاقوں میں پناہ لی ۔ اس طرح پنجاب اور کا بل میں ڈیمتریوس اور یوکراٹائی یزکے خاندان کی حکومتیں علیٰ ترتیب قائم ہوئیں ۔ سکوں پر ہمیں ڈیمتریوس خاندان کے کئی حکمرانوں کے نام ملتے ہیں ۔ ان میں ایک انتالکیداس ہے جس کا ذکر ہمیں بیس نگر کے کتبہ میں ملتا ہے اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کے سفیر جو سنگ حکمران بھگا بھدرا کے دربار میں بھیجا گیا تھا وہاں اس نے ایک ستون پر بنوایا تھا ۔ اس کتبے سے ظاہر ہے کہ یاونا ( یونانی ) حکمرانوں نے برصغیر کی ریاستوں سے سیاسی رشتہ جوڑ لئے ، بلکہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ان حکمرانوں نے بعد میں مقامی مذاہب بھی ختیار کرلئے تھے ۔ کیوں کہ سفیر مذکورہ کا نام بہگوت کے نام سے ذکر کیا گیا ہے ۔ اس یونانی خاندان جس نے برصغیر کے سرحدی علاقوں پر حکومت کی ان میں ہرمیوسس Hermioses آخری تھا ۔
یوتھی دیمس کے خاندان میں اپالو دوٹس Apalodotes اور منیانڈر Menander کے نام ادب میں اب تک موجود ہیں ۔ غالباََ اپالو دوٹس کے عہد میں اس خاندان کا اقتدار مشرقی افغانستان سے ختم ہوا ۔ منیانڈر کا نا7144م نسبتاََ زیادہ مشہور ہے ، کیوں کہ بدھ مت کی کتاب ’ ملندا ہنہا ‘ ( ملندا کے سوالات ) میں ملندا درحقیقت منیانڈرا کا نام ہے ۔ یہ کتاب بزرگ سین اور منیانڈر Menander کے سوالات اور جوابات کی شکل میں ہے ، اس کانتیجہ یہ نکلا کہ منیانڈر نے بدھ مذہب قبول کرلیا ۔ منیانڈر کا دور طویل اور خوش حال تھا ۔ جس حکمران نے مگدھ پر حملہ کیا وہ غالباََ منیانڈر ہی تھا ۔
اس کے جانشین ناہل ثابت ہوئے پھر بھی ان ہندی یونانی بادشاہوں کی حکومت دو سو سال تک ہندوستان کے شمالی حصہ جس میں غالباً وادی کابل و سوات اور پشاور اور شمال مغرب کے قرب و جوار کے چند اضلاع اور مشرقی پنجاب شامل تھا ان کے زیر حکومت رہے خواہ وہ پارتھیوں کے زیر طاقت رہے اور ساکاؤں نے پہلی صدی میں ان کی حکومت ختم کردی ۔
یونانیوں نے ہندوستان کی تہذیب پر اپنا کوئی اثر نہیں چھوڑا ۔ پنجاب پر یونانیوں کا دوسو سال تک قبضہ رہا ۔ یہی وجہ ہے یہاں ان ہی علاقوں میں ہم کو یونانی اثر زیادہ ہونا چاہیے ۔ لیکن تعجب تو یہ ہے یہاں بھی یونانی آثار بہت ہی کم اور نامعلوم ہیں ۔ سکوں کے سوا جن کے ایک طرف یونانی زبان میں عبارت ہوتی تھی اور صریحاً یونانی نمونے پر تیار ہوتے تھے اور کوئی چیز نہیں پائی جس سے کہ بیرونی سالہائے دراز کی حکمرانی کے اثر کا پتہ لگتا ہو ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سکوں سے یہ امر بالکل صاف ثابت ہوتا ہے کہ ایک حد تک ان اجنبی بادشاہوں کے درباروں میں یونانی زبان مستعمل تھی ۔ مگر بعد کے سکوں پر دیسی زبان لکھے جانے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عوام و الناس اس سے بالکل نابلد تھے ۔ یونانی زبان کا کوئی کتبہ دستیاب نہیں ہوا اور ہندی کتبات میں اب تک صرف تین یونانی نام پائے گئے ۔
ماخذ
ڈاکٹرمعین الدین ، عہد قدیم اور سلطنت دہلی
پروفیسر مقبول بیگ درخشانی ۔ تاریخ ایران، جلد اول
وسینٹ اے سمتھ ۔ قدیم تاریخ ہند