ټول حقوق د منډيګک بنسټ سره محفوظ دي
حافظ الملک کی ولادت :
۱۸۵۷ کے انقلاب سے پہلے جن مجاہدین نے انگریزوں کے خلاف زبردست عملی جہاد کرکے ہندوستان کی آزادی کا راستہ ہموار کیا ان میں ایک اہم اور معتبر نام حافظ الملک حافظ رحمت خان رحمۃ اﷲ علیہ کا ہے۔ آپ کی ولادت قندھار افغانستان میں ۱۱۲۰ھ مطابق۱۷۰۸ء میں’’ روہ‘‘ نام کے ایک مقام پر ہوئی۔ چند برس کی عمر میں بسم اﷲ خوانی ہوئی اور صرف بارہ سال کی عمر میں حافظ قرآن ہوگئے- اس کے بعد دین کی ضروری ضروری معلومات حاصل کیں، مذہب کے ایک معتدبہ حصے پر اپنی پکڑ مضبوط کرلی ،خصوصا علم فقہ میں عبور حاصل کیا اور اپنے فضل وکمال اور عمدہ عادات واطوار کی بنیاد پر لوگوں کے دلوں میں اپنا ایک اہم مقام بنالیا۔
حافظ رحمت خاں کا تعلق قندھار کے بڑھیچ قبیلے سے تھا۔ آپ کے والد گرامی کا نام شاہ عالم خان ہے۔ یہ شاہ جہاں کے عہد حکومت سے ہی ہندوستان آتے رہتے تھے۔ ان کے ایک غلام یا منھ بولے بیٹے داؤد خان ایک مرتبہ افغانستان سے ہندوستان آئے اور معرکہ آرائی کے بعد’’ کٹھیر‘‘ کے کچھ علاقوں کو فتح کرکے اس کے جزوکل کے مالک بن بیٹھے۔ یہ کٹھیر وہی علاقہ ہے جو آج روہیل کھنڈ کے نام سے موسوم ہے(یہ روہیل کھنڈ، اترپردیش میں ہے ا س علاقے میں بریلی ،رامپور،پیلی بھیت اورشاہجہاں پورشامل ہیں)۔اپنے غلام کی فتح وکامرانی کی خبریں سن کر اس سے ملاقات کی تمنادل میں سجائے شاہ عالم خان کٹھیر میں آئے لیکن داؤد خان نے غداری کی اور ان کو قتل کرادیا۔ یہ واقعہ ۱۱۲۳ھ مطابق ۱۷۱۱ء مطابق ۱۷۱۱ء یا ۱۱۲۴ھ مطابق ۱۷۱۳ء کو پیش آیا۔
حافظ الملک کی ہندوستان میں آمد:
داؤد خان کو کٹھیر(روہیل کھنڈ)پر حکمرانی کے دوران کسی جنگ میں ایک حسین وجمیل لڑکا ملا جو مد مقابل کے لشکر سے قیدی بناکر لایا گیا تھا۔ داؤد خان چونکہ اولاد سے محروم تھا اس لیے اس کو اپنا بیٹا بنالیا۔ اس کو اچھی تربیت دینے میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی اور اس کا نام علی محمد خان رکھا ۔داؤد خان کے مرنے کے بعد متفقہ طور پر اس کو جانشین مقرر کردیا گیا ۔کچھ دنوں کے بعد ا س لڑکے (علی محمد خان) نے یہ محسوس کیا کہ اکثر روہیلے میرے غلام ہونے کے سبب میری اطاعت سے کتراتے ہیں تو اس نے اپنے مشیروں سے صلاح ومشورہ کرکے حافظ رحمت خان کے پاس متواتر خطوط بھیج کر ان کو ہندوستان بلالیا ۔اس طرح حافظ الملک حافظ رحمت خاں کا ہندوستان میں ورودہوا۔ حافظ الملک بہت دنوں تک علی محمد خاں کی صحبت میں کام کرتے رہے اور حکومت کو ترقی دینے میں بہت اہم رول ادا کیا۔ اپنی وفاداری وجاں نثاری اور بے مثال شجاعت وشہامت کے ذریعے آپ علی محمد خاں کے بہت معتمد بن گئے۔ حافظ الملک کی ان خوبیوں کو دیکھ کر علی محمد خاں نے آپ کو اپنا جانشین منتخب کرلیا لیکن حافظ الملک نے اپنی جانشینی کو علی محمد خاں کے بیٹے سعد اﷲ خاں کی حق تلفی سمجھا اور بڑے خلوص وایثار کے ساتھ یہ عہدہ ان کی طرف منتقل کردیا۔ علی محمد خاں کے فیض اﷲ خاں اور عبداﷲ خاں نام کے دو بیٹے اور تھے جو افغانستان میں رہتے تھے جب وہ ہندوستان واپس ہوئے تو عہدے کے حصول کے لیے ان تینوں بھائیوں کے درمیان بڑا اختلاف ہوا بالآخر علی محمد خاں کو اپنے صاحب زادوں اور دوسرے سردارانِ کٹھیر(روہیل کھنڈ)کے درمیان روہیل کھنڈ کو تقسیم کرنا پڑا جس میں سے بریلی اورشاہ جہاں پور وغیرہ حافظ الملک حافظ رحمت خاں کے حصے میں آئے۔
حافظ الملک کی انگریزدشمنی:
حافظ الملک اپنے عہدمیں اپنی شجاعت وشہامت، جراء ت وہمت اور جوش وجذبے کی بنیاد پر ملک دشمن طاقتوں کے لیے آہنی دیوار بنے ہوئے تھے۔ مرہٹوں سے جنگ کے درمیان احمد شاہ درانی کے دست وبازوکی حیثیت رکھتے تھے ۔مختلف علاقوں اور صوبوں کے سرداروں کی وقتاً فوقتاً فوجی اعانت کرنا فرض میں سمجھتے تھے۔ چنانچہ ۱۷۶۴ء میں شجاع الدولہ پٹنہ میں انگریزوں سے نبرد آزما تھا اس نے حافظ الملک سے امداد طلب کی توانہوں نے اپنے بیٹے عنایت خاں کی سرکردگی میں۶ہزار آزمودہ کا رفوجی روانہ کیے جنہوں نے ۱۳جنوری ۱۷۶۱میں پانی پت جنگ میں شرکت کرکے شجاع الدولہ کی مدد کی لیکن جنگ کے بعد شجاع الدولہ نے عنایت خاں کے خلاف کچھ سازشیں رچیں جس کی وجہ سے عنایت خاں اپنی فوج کے ساتھ اس سے جدا ہوگئے۔جدائیگی کے بعد شجاع الدولہ کو اپنی کمزور طاقت کا احساس ہوا۔اتنی کم طاقت سے وہ انگریزوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا اسے فوجی اعانت کی بہت سخت ضرورت تھی اس نازک گھڑی میں بھی حافظ الملک نے اس کی گزشتہ غداری اور بے وفائی کو فراموش کرکے اس کا ساتھ دیا۔
حافظ الملک دراصل انگریزوں کے بہت سخت دشمن تھے۔ وہ احمد شاہ ابدالی کی مدد سے انگریزوں کو ہندوستان سے باہر نکالنا چاہتے تھے۔ آپ کی انگریز دشمنی کا شہرہ دوردور تک ہوچکا تھا اس لیے انگریزان کو زیر کرنے کی فراق میں تھے لیکن حافظ الملک کے عزائم کی صلابت ،حوصلوں کی توانائی اوربے مثل شجاعت وبسالت اورپھر نصرت خداوندی کی بناپراب تک انگریزاپنے اس منصوبے میں کامیاب نہ ہوسکے تھے ۔آخر کار انہوں نے منظم سازش کے تحت شجاع الدولہ کو اپنا ہم نوابنا یا اور اس کام کے لیے شجاع الدولہ کو معین کیا۔اس نے انگریزوں کا حلیف بن کر حافظ الملک کی ساری وفاداریوں کو فراموش کرکے پہلے تو سردارانِ روہیل کھنڈ کو حافظ الملک کے خلاف برگشتہ کیا اور پھر ان پر تقریباً ایک لاکھ پندرہ ہزار فوج لے کر چڑھائی کردی۔
حافظ الملک کی شہادت:
جنگ شروع ہونے سے پہلے حافظ الملک نے صلح جوئی کی بہت کوشش کی لیکن انگریز اور شجاع الدولہ آپ کی جان کے درپے تھے اس لیے یہ کوشش بے سودگئی۔ آخر میں مجبور ہوکر شہادت کی آرزو لیے جنگ کے لیے نکل پڑے۔ آپ کی فوج کے بعض سرداروں نے بھی صلح کی کوشش کی لیکن آپ کے شوقِ شہادت نے آپ کو مہمیز کیا اور اپنے فوجیوں کے سامنے فرمایا:
’’شہادت میرے دل کی آرزو ہے اپنے ملک کی حفاظت میں ایسی عزت کی موت مجھے پھر کب آئے گی‘‘
میدان جنگ میں قدم رکھتے ہی حافظ الملک نے اپنی دلیری اور بہادری کے جوہر دکھانے شروع کردیے ۔وہ انگریزوں کوتہ تیغ کرتے ہوئے شجاع الدولہ تک پہنچنا چاہتے تھے لیکن انگریزی فوج نے اپنی توپ کا دہانہ کھول دیا اور گولہ باری شروع ہوگئی۔ عین اسی وقت آپ کے حلیف چند روہیلہ سرداروں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ یہ دیکھ کر پوری فوج منتشر ہوگئی اور حافظ الملک کے پاس بہت کم فوجی رہ گئے لیکن پھر بھی حافظ الملک نہایت جراء ت وہمت کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے۔ آخر کار ایک گولہ ان کے سینے پر لگا اور فوراً ہی آپ کی روح آپ کے جسم کے پنجرے سے آزادہوگئی۔جنگ کرتے ہوئے حافظ الملک کی اس عظیم الشان شہادت کا واقعہ۱۱صفر۱۱۸۸ھ مطابق ۲۳اپریل۱۷۷۴ء میں میران پورکٹرہ میں پیش آیا ۔حافظ الملک کی شہادت کے بعد جب انگریزوں نے روہیل کھنڈ پر قبضہ کیا تو اتنی بے دردی سے لوٹ مار مچائی کہ پوری زمین دہل اٹھی۔ پھر شجاع الدولہ کو اس پورے علاقے کا حاکم بنادیا گویا یہ انگریز دوستی کا انعام تھاجو اسے دیا گیا۔
حافظ الملک کی خصوصیات:
حافظ الملک ایک بے مثال فوجی ہونے کے ساتھ ساتھ علم وفضل اور تقوی وطہارت میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ زبردست ادیب وشاعر، بہترین حافظ قرآن اور علم پرور وعلم دوست تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی فوج میں علماومشائخ کی بڑی تعداد تھی جو انگریزوں کے ساتھ برسرپیکا رہتی تھی۔ حافظ الملک نے انہیں علم وکمال کی بنیاد پر فوج میں اعلی عہدے دے رکھے تھے ۔کہا جاتا ہے کہ آپ عبادت وریاضت ،شجاعت وشہامت ، جراء ت وہمت اور شوقِ شہادت میں سلطان ٹیپو شہید کے بہت مشابہ تھے۔ آپ کے ساتھ ہمیشہ شریک جنگ رہنے والے علما میں سے بعض کے نام یہ ہیں۔ مولانا سید احمد شاہ ،حضرت حافظ شاہ جمال اﷲ،مولانا غلام جیلانی خاں بہادر،ملا سردار خاں کمال زی،ملا محسن خاں امان زٹی،سید معصوم شاہ،ملا برباز خاں،ملا عالم خاں،ملا حسن خاں،ملا عبدالواحد خاں اور قاضی محمد سعید خاں وغیرہ نمایاں ہیں۔
حافظ الملک کی خدمات:
حافظ الملک چونکہ علم وفن سے نہایت گہرا ذوق رکھتے تھے اس لیے کئی تصانیف آپ کی یادگار ہیں لیکن ان کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ ہیں بھی یا زمانے کی ستم ظریفی نے انہیں نگل لیا۔حافظ الملک کی سب سے اہم یادگار جس نے ان زندۂ جاوید بنادیاہے وہ پیلی بھیت شہر کی جامع مسجد ہے۔ جامع مسجد تعمیر فرما کر آپ نے دین کی بہت عظیم خدمت انجام دی ہے یہ جامع مسجددہلی کی جامع مسجدسے بالکل مشابہ ہے۔ یہ جامع مسجد۱۷۶۹میں تعمیرکی گئی ۔یہ بات شاید کم لوگوں کے ذہن کا حصہ ہوکہ حافظ الملک نے ہی۱۷۶۲ء پیلی بھیت کو آباد کیا تھا۔گورنمنٹ کی طرف سے جاری شدہ Imperial Gazetteer of India کے مطابق اس کاپرانانام حافظ رحمت خاں کے ہی اسم گرامی سے منسوب ہے ’’حافظ آباد‘‘ہے ۔ بعدمیں کسی وجہ سے پیلی بھیت ہوا۔آپ نے یہاں ایک ادارہ بنام مدرسہ حافظ العلوم بھی قائم فرمایا تھا جو عرصے تک قائم رہا۔یہ وہی مدرسہ ہے جس میں اپنے وقت کے عظیم محدث وعالم دین اورآبروئے پیلی بھیت حضرت علامہ وصی احمد محدث سورتی علیہ الرحمہ (متوفی۱۳۳۴ھ)نے بہت دنوں تک تدریس کی خدمات انجام دی ہیں۔ حافظ الملک نے اس کے علاوہ اور بھی متعدد مدارس قائم فرمائے جہاں تقریباً دوہزار علما وفضلا کا تقرر کیا خوردونوش کے علاوہ ان کو سوروپیہ مشاہرہ بھی دیتے تھے۔ ان مدارس سے فارغ شدہ علما نے دین متین کی بہت ساری خدمات انجام دی ہیں جن کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔حضرت حافظ رحمت خاں علیہ الرحمہ نے قومی یک جہتی کی اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوئے پیلی بھیت کے مشہورومعروف اورتاریخی ’’گوری شنکر‘‘مندرکے مشرقی اورجنوبی دروازوں کی تعمیربھی کرائی ۔یہ بھی کہاجاتاہے کہ شہربریلی شریف کی مسجدبی بی جی جہاں آج دارالعلوم مظہراسلام واقع ہے ،ا س مسجدکانام حضرت حافظ الملک علیہ الرحمہ کی کسی رشتے دارخاتون کے نام سے ہی رکھاگیاہے ۔حافظ الملک کامزارمبارک محلہ باقرگنج بریلی شریف میں واقع ہے ۔ان کی حیات وخدمات پرانگریزی اوراردومیں متعددکتابیں اورمقالات لکھے گئے۔ان کے صاحب زادے محمدمستجاب کے ذریعے لکھی گئی انگریزی کتابTHE LIFE OF HAFIZ UL MULK HAFIZ RAHMAT KHANکابھی تذکرہ ملتاہے ۔ا س کے علاوہ الطاف علی بریلوی نے بھی ایک کتاب لکھی جو۱۹۳۴ء میں غالباً کراچی سے شائع ہوئی۔