منډيګک
افغان تاريخ

والیِ سوات کی تقریبِ تاج پوشی کا احوال

جلال الدین یوسفزئی

0 542

والیِ سوات کی تاج پوشی کا دن یعنی 12 دسمبر 1949ء ایک اہم تاریخی واقعہ ہے۔ بدقسمتی سے اس اہم دن کو ہونے والی تقریب کی کوئی ویڈیو ریکارڈنگ موجود نہیں ہے۔ اور اگر کوئی ایسی ویڈیو بنائی بھی گئی ہے، تو وہ اب تک سامنے نہیں آئی ہے۔ البتہ تصاویر کی شکل میں ایک ذخیرہ موجود ہے جو کہ ہم جیسے ’’ناسٹلجیا‘‘ میں مبتلا لوگوں کے لیے بڑی غنیمت ہے۔ یادِ ماضی بارے وہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ، ملاحظہ ہو:
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب!
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
اب اسے کوئی ناسٹلجیا کہے یا کوئی اور نام دے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یادِ ماضی نہ ہو، تو تاریخ پر لکھنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی، تو مَیں عرض کر رہا تھا کہ اُس تاریخی دن کا کوئی ویڈیو ریکارڈ موجود نہیں۔ بہت کم لوگ ہوں گے جو اس تقریب کا احوال جانتے ہوں گے۔ اوپر سے 70 سال کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد یہ یادیں ذہن سے محو ہوچکی ہوں گی، تو کیوں نہ آپ کو 70 سال پہلے ہونے والی اُس تقریب میں لے جاؤں اور اُس دن سے متعلقہ اہم باتیں آپ کے گوش گزار کراؤں۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ اس روز میاں گل عبدالودود المعروف باچا صاحب اپنے 32 سالہ طویل اقتدار سے سبک دوش ہونے والے تھے اور عنانِ اقتدار اپنے بیٹے میاں گل عبدالحق جہاں زیب کے حوالے کرنے والے تھے۔
تو ہوتا کچھ یوں ہے کہ 12 دسمبر 1949ء کو وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان چکدرہ سے سوات کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ وزیراعظم کے ساتھ اُن کا ذاتی اسٹاف ہوتا ہے۔اس کے علاوہ صوبائی سیکرٹری اور گورنر کے سیکرٹری بھی اُن کے ہمراہ ہوتے ہیں۔ تاریخی دستاویزات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ لنڈاکی کے مقام پر باچا صاحب، وزیرِاعظم پاکستان اور دیگر مہمانوں کا استقبال کرتے ہیں۔ وزیراعظم کے استقبال کے بعد باچا صاحب اپنی ذاتی گاڑی میں سوار ہوتے ہیں اور اس بات کو یقینی بنانے کی سعی کرتے ہیں کہ وزیراعظم سے پہلے صدر مقام سیدو شریف پہنچ سکیں۔ جوں ہی لیاقت علی خان سیدوشریف پہنچتے ہیں، تو اُنہیں 21 توپوں کی سلامی پیش کی جاتی ہے۔ سیدوشریف پہنچنے پر وزیراعظم ولی عہد میاں گل جہانزیب کی رہائش گاہ پر آدھے گھنٹے کے لیے ٹھہرتے ہیں اور ملاقات کا اہتمام ہوتا ہے۔
دن 11 بجے وزیراعظم تقریب گاہ میں پہنچ جاتے ہیں، اور ایک بار پھر باچا صاحب، ولی عہد اور پولی ٹیکل ایجنٹ سے مصافحہ کرتے ہیں۔ ریاستِ سوات کے سپاہیوں کی طرف سے اُن کو ’’گارڈ آف آنر‘‘ پیش کیا جاتا ہے۔ انتقالِ اقتدار کے لیے جو پگڑی بنائی گئی ہوتی ہے، وہ میز پر سجائی جاتی ہے۔ یہاں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ مذکورہ پگڑی ایک سادہ کپڑے سے بنائی گئی تھی اور کسی طرح بھی دوسرے شاہی ریاستوں کے حکمرانوں کی طرح سونے جواہرات اور ہیروں سے مزین نہیں تھی۔
تقریب میں سب سے پہلے باچا صاحب تقریر کرتے ہیں اور حاضرین سے مخاطب ہوتے ہیں۔ وہ حاضرین سے کہتے ہیں کہ جس طرح 32 سال پہلے آپ لوگوں نے مجھ پر اعتماد کا اظہار کیا تھا، اور حکمران تسلیم کیا تھا۔ ٹھیک اُسی طرح میں آج بھی اُمید رکھتا ہوں کہ آپ میرے بیٹے کو حکمران کی صورت میں شرفِ قبولیت بخشیں گے۔
باچا صاحب کی تقریر کے بعد ہر قبیلے کے دو نمائندے سٹیج پر آتے ہیں اور میز پر رکھی گئی پگڑی کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ یہ تمام عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ با اختیار لوگ نئے حکمران پر اعتماد کرتے ہیں اور اُنہیں ریاستِ سوات کا والی تسلیم کرتے ہیں۔
جب یہ تمام کارروائی اختتام پذیر ہوتی ہے، تو وزیراعظم پاکستان اپنی نشست سے اُٹھتے ہیں اور پگڑی ولی عہد کے سر پر رکھتے ہیں اور یوں میاں گل عبدالحق جہانزیب سوات کے حکمران بن جاتے ہیں۔
اب تقریر کی باری لیاقت علی خان کی آتی ہے۔ اُن کے بعد دن کی آخری تقریر والی صاحب کرتے ہیں۔ یہ بات دلچسپی کے لیے بتاتا چلوں کہ وہ تقریر پشتو زبان میں کی گئی تھی اور راقم کے پاس وہ اب بھی موجود ہے۔ یہ تقریر ایک اہم تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس بات کا تعین بھی تقریب سے پہلے کیا کیا گیا تھا کہ سٹیج پر کون کون براجمان ہوگا اور ’’گارڈ آف آنر‘‘ کے موقع پر کون آگے اور کون پیچھے ہوگا. یہ بات بھی راقم کے علم میں آئی کہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھا کہ سٹیج؍ ڈائس کے قریب کس کس نے بیٹھنا ہے. البتہ حکومتِ پاکستان کے عہدہ داروں سے یہ تاکید ضرور کی گئی تھی کہ سٹیج پر شرکاء کی تعداد کم سے کم رکھی جائے۔ جہاں تک عام شرکا کا تعلق ہے، تو اس حوالے سے والیِ سوات کو مکمل اختیار دیا گیا تھا کہ وہ جتنے شرکا کو بلوانا چاہے، بلواسکتے ہیں۔ اس تقریب کو احسن طریقے سے اختتام تک پہنچانے کے لیے ریاستِ سوات کے اہلکاروں کی مدد صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) کے چیف سیکرٹری نے کی تھی۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Protected contents!