(پہلا حصہ)
افغانستان کو اپنی جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے مغرب، مشرق، شمال اور جنوب کے درمیان ایک پل کا درجہ حاصل ہے۔ یہ خطہ اپنے قدرتی وسائل، تاریخی نوادرات اور آثار قدیمہ کے لحاظ سے ہمیشہ تاریخ کے ہر دور میں دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں اور حملہ آوروں کا مرکز نگاہ رہا اور جو بھی یہاں آیا تو کسی خاص عقیدے یا نظریے کو پھیلانے کی غرض سے نہیں بلکہ افغانستان کے قدرتی وسائل اور قیمتی معدنیات کو لوٹنے کی نیت سے آیا۔ ابتدائی انسانی تاریخ سے لے کر آج تک افغانستان دنیا کی قدیم اور عظیم تہذیبوں اور ثقافتوں کا گہوارہ رہا ہے جس کے آثار اب بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔
آج بھی افغانستان کے مختلف علاقوں اور پہاڑوں میں قبل از تاریخ دور کے غاروں میں رہنے والے انسانوں کی زندگی اور بود و باش کے آلات و اوزار اور دیگر باقیات ملتی ہیں جنہیں آثار قدیمہ کے ماہرین نے پچاس ہزار سالہ قدیم قرار دیا ہے جن میں اس وقت کے فن وآرٹ کے ابتدائی نقش ونگار اور دیگر نمونے آج بھی پہاڑوں کے مختلف غاروں میں پائے جاتے ہیں۔
تحریر کی ایجاد کے ساتھ جمشید بادشاہ نے بلخ میں ایک مضبوط آریائی تمدن کی بنیاد رکھی جس کے بعد زرتشت کے زمانے میں اس تمدن کو مزید فروغ ملا۔ یونانی فاتح سکندر اعظم نے آتے ہی موجودہ آریائی تہذیب اور تمدن میں یونانی تہذیب کا رنگ بھر کر دونوں تہذیبوں کی آمیزش بنائی لیکن بعد میں بدھ ازم نے اس تہذیب اور کلچر کا پورا ڈھانچہ تبدیل کردیا اور نقش ونگار، تصویرکشی اور مجسمہ سازی میں گندھارا تہذیب ایک منفرد شکل میں سامنے آئی۔ اسلام کے آتے ہی فن وآرٹ کی دنیا میں نئے نئے تجربے شروع ہوئے۔
کوزہ گری اور ظروف سازی کے علاوہ فن خطاطی نے خوب ترقی کی۔ دسویں صدی کے بعد پندرہویں صدی میں غزنوی، غوری اور تیموریوں کے دور میں افغانستان کا فن وآرٹ زیادہ تر جاگیردار اور امیر طبقوں کے ہاتھوں پروان چڑھا اور اسی دور میں صوبہ ہرات فن وآرٹ کے حوالے سے پوری دنیا میںمشہور ہوا۔ ہرات میں تیموری خاندان کے دور میں جو فن وہنر باقی رہا اس میں ایک فن خطاطی تھا جس نے چودھویں صدی میں خراسان، ماورا لنہر اور ایران میں بہت زیادہ ترقی کی تھی جس کے بے شمار نمونے آج بھی کسی نا کسی شکل میں کتبوں اور کتابوں میں موجود ہیں۔
افغانستان میں فن خطاطی کے اسلوب، نستعلیق کو رواج دینے میں میرعماد حسینی(وفات 1414ھ) کے بعد انیسویں صدی کے وسط میں میر عبدالرحمان ہروی نے اس فن کو بام عروج تک پہنچایا۔ نستعلیق کے یہ آخری استاد جو ہرات، قندہار اور کابل میں قیام پذیر رہے، 1850ء کو وفات پاگئے۔ اس کے بعد ان کے شاگردوں میں ملا محمد حسین، مرزا نجف بہرام اور مرزا جان مستوفی نے فن خطاطی کے قابل تقلید نمونے تخلیق کیے۔
ان میں ایک نام سید عطا محمد حسینی، جو قندہار کے رہنے والے تھے اور جنہیں امیر عبدالرحمان نے اپنے دربار کا خوش نویس بھی مقرر کیا تھا، نے تذکرۃ الاولیاء کی دو جلدیں نستعلیق میں لکھیں جو کابل کے سرکاری کتب خانے میں پڑی تھیں۔ اس دور کے دیگر خطاطوں میں سردار غلام محمد، قاضی طلامحمد، محمد عمر درانی، مرزاغلام قادرکاکڑ اور اس طرح اور بے شمار نام لیے جاسکتے ہیں۔
نقاشی، مصوری اور چوب کاری کے فن میں مرزا رضا ہروی، مرزاباقر کابلی، محمد عظیم اور حاجی فخرالدین کے نام قابل ذکر ہیں۔ 1919ء کو امان اللہ خان کے دور حکم رانی میں نقاشی اور مصوری کو خصوصی توجہ دی گئی۔ افغانستان کا قومی عجائب گھر جو ابتداء میں ’’کابل میوزیم‘‘ کے نام سے مشہور تھا، غازی امان اللہ خان کے دور میں’’ارگ‘‘ کے کوٹہ باغچہ کے مقام پر کھول دیا گیا جسے بعد میں 1918ء کو ’’باغ بالا مانڑئی‘‘ منتقل کردیا گیا۔ بعد میں میوزیم کے لیے دارالامان کے قریب الگ عمارت بنائی گئی
1919ء کے آخری دور میں میوزیم میں سو سے زیادہ قدیم اور تاریخی آثار موجود تھے مگر بعد میں جس وقت افغانستان اندرونی خانہ جنگیوں کا شکار ہوا تو میوزیم بھی اپنوں اور غیروںکے ہاتھوں لٹنے سے نہ بچ سکا۔
میوزیم میں محفوظ بے شمار تاریخی اور قیمتی آثار، جو افغانستان کی قدامت اور شان وشوکت کے زندہ نمونے تھے، مسلح گروپوں کے ہاتھوں لٹ کر دوسرے ممالک کے سمگلروں کے ہاتھوں اونے پونے داموں فروخت کردیے گئے۔
ان میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے کئی سیاسی، مذہبی، فوجی اور سرکاری شخصیات کا نام بھی لیا جاتا ہے یعنی ’’ان میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں‘‘ جنہوں نے اپنے ڈرائنگ روموں کو افغانستان کے قومی عجائب گھر کے قیمتی، تاریخی اور نادر نمونوں سے سجا رکھا ہے۔ افغانستان کے باشندے اپنی ثقافت اور تہذیب سے بہت پیار کرتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اس کی ترقی اور حفاظت کے لیے کوششیں بھی کرتے رہے ہیں۔1921ء میں فن و ثقافت کی ترقی اور ترویج کے لیے ایک کوشش یہ بھی کی گئی کہ اس کے لیے ایک الگ وزارت بنائی گئی اور میٹرک تک مصوری اور ڈرائنگ کو بطور ایک لازمی مضمون رواج دیا گیا۔
اس کام کے لیے پروفیسر محمد خان اور پروفیسر عبدالغفور کو جرمنی بھیجا گیا تاکہ وہاں وہ فن کی دنیا میں نئے نئے تجربات سے استفادہ کرسکیں اور واپس آکر یہاں کے طالب علموں اور فن مصوری سے شوق رکھنے والوں کو ان تجربات کی روشنی میں سکھا سکیں۔ پروفیسر غلام محمد خان وہاں مصوری میں اعلیٰ ڈگری حاصل کرکے واپس آئے اور کابل میں اس فن کے لیے ایک الگ سکول کھولا اور بے شمار شاگرد پیدا کیے جن میں غوث الدین اسام، غلام علی امید اور سید جلال خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔ افغانستان میں تھیٹر اور ڈرامہ کی تاریخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خراسان میں قدیم زمانے سے تمثیل کی طرز پر مختلف کھیل شاہی دربار اور لوگوں کی عام محفلوں میں وقت گزاری اور ہنسنے ہنسانے کے لیے کھیلے جاتے تھے۔
شہروں میں اس کام کے لیے خصوصی اداکار ہوتے تھے جو عید اور دیگر تہواروں اور شادی بیاہ کی محفلوں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھاتے۔ بازاروں میں قصہ گو لوگ بھی موجود رہتے تھے جو مذہبی اور جنگی قصے سناتے تھے جس کے ساتھ وہ اداکاری بھی کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ کابل کے دربار میں ایک باقاعدہ مجلس آراء بھی موجود رہتا تھا جو پرانے زمانے کے مشہور پہلوانوں کی داستانیں اداکاری کے ساتھ بیان کرتے تھے۔ 1910ء میں فقیر احمد کابل دربار کے مشہور مجلس آراء گزرے ہیں۔
کابل کے پرانے شہر میں ایک محلہ کوچہ سادوھا کے نام سے موجود تھا یہاں اس قسم کے قصہ گو لوگ آباد تھے جنہیں لوگ جنگ نامہ خواناں بھی کہتے تھے۔ ان قصہ گو پیشہ وروں میں ملا علی جان بڑے مشہور تھے جو اپنی باتوں سے لوگوں کو رلاتے اور ہنساتے تھے۔ بعد میں اس فن میں ان کے بیٹے ملا سخی داد اور نواسے اسد اللہ نے بھی بڑا نام کمایا۔
اس کے علاوہ دینو دار باز، محی الدین سراج اور غیاث بھی کابل کے مشہور تمثیل نگار گزرے ہیں۔ بیسویں صدی کی ابتداء میں قندہار میں اداکاروں کے دو گروپ مشہور تھے جنہیں ناٹکیان (ناٹک کرنے والے) کہا جاتا تھا۔ ان میں ایک گروپ کی قیادت فراموز اور دوسرے گروپ کی قیادت حاجی کریم کرتے تھے جو بازاروں میں رات کے وقت ناٹک کرتے تھے۔
ان اداکاروں میں اعضاء اور موسیٰ بڑے مشہور اداکار گزرے ہیں۔ 1920ء کے بعد ’’نمائشیات عرفانی‘‘ کے نام سے ایک ادارہ ’’مولوی محمد حسین اورمڑ جالندھری‘‘ کی سربراہی میں بنایا گیا جنہوں نے پہلا سٹیج ڈرامہ’’سردار جزیرہ جاوا‘‘ کے نام سے جلال آباد کے کوکب باغ اور لغمان کے قلعہ سراج میں 1922ء میں پیش کیا۔ سٹیج اور تھیٹر کے اداکاروں میں سرور گویا اعتمادی، عبدالعزیز ناصری، حافظ نور محمد، علی محمد، سرور صباء کے علاوہ بے شمار اداکاروں نے اپنے فن کے جوہر دکھائے۔
ڈرامہ لکھنے اور ترجمہ کرنے والوں میں فیض محمد ذکریا، صلاح الدین، سلجوقی، حسن سلیمی، علی آفندی، ضیاء ہمایون (ھندی) اور حافظ نور محمد نے نئے ڈرامے ’’مادروطن‘‘، ’’صحبت ہائے اخلاقی‘‘جیسے ڈرامے لکھ کر پغمان کے تھیٹر میں پیش کیے۔ 1925ء میں جشن افغانستان کے موقع پر’’ بچہء می پدر، محاکمہ حکمراناں، فتح اندلس‘‘ اور اس نوع کے دیگر ڈرامے پیش کیے گئے۔ ان ڈراموں کی موسیقی استاد قاسم اور استاد غلام حسین ناٹکی نے ترتیب دی تھی۔