بلخ کے مقامی حکّام کا کہنا ہے کہ اِس ولایت کی چند تاریخی نشانیاں اور عمارتیں دوبارہ مرمت ہوئی ہیں اور حالیہ کھدائیوں کے نتیجیے میں اِس ولایت کے مختلف علاقوں میں چند اہم باستانی آثار بھی دستیاب ہوئے ہیں۔
ولایتِ بلخ کے رئیسِ اطلاعات و ثقافت صالح محمد خلیق کہتے ہیں کہ بلخ کی اکثر تاریخی عمارتوں کی حالت خوب ہے اور تا حال ۲۵ باستانی عمارتیں مرمت ہو چکی ہیں اور چند دیگر قدیم عمارتیں بھی در حالِ مرمت ہیں۔
بلخ کی بیشتر تاریخی یادگاریں اور عمارتیں دورِ اسلامی سے تعلق رکھتی ہیں، لیکن یہاں آتشکدۂ نوبہار جیسی بعض قبل از اسلام دور کی تاریخی یادگاریں بھی موجود ہیں۔
ولایتِ بلخ کے رئیسِ اطلاعات و ثقافت کہتے ہیں ولایتِ بلخ کے قدیم علاقوں اور تاریخی یادگاروں کی تعداد ۱۰۰ سے زیادہ ہے، جن میں سے چند کی مرمت ہو چکی ہے۔
مرمت شدہ تاریخی یادگاروں میں آرامگاہِ احمد خزروی بلخی، آرامگاہِ فاطمہ بلخی، آرامگاہِ خواجہ نظام الدین، آرامگاہِ میر روزہ دار اور قلعۂ تختہ پل کی تاریخی مسجد شامل ہیں۔
مسجدِ نُہ گنبد یا حاجی پیادہ ابوخالد برمک کے توسط سے ۱۰۷ ہجری کے بعد، اُس وقت کہ جب وہ حکمرانِ خراسان اسد بن عبداللہ القسری (دورۂ حکمرانی: ۱۰۷ھ-۱۲۰ھ) کی طرف سے بلخ کی بازسازی پر مامور تھا، یا فضل بن یحیٰی برمکی کے توسط سے ۱۷۸ھ میں بلخ میں تعمیر ہوئی تھی۔
مسجدِ خواجہ ابونصر پارسا، جو تقریباً ۶۰۰ سال قبل تعمیر ہوئی تھی۔ اِس مسجد کو سبز رنگی کاشیوں سے دوبارہ مزیّن کیا اور اِس مسجد کے صحن کو بھی پختہ خِشتوں سے ڈھانپا گیا ہے۔ یہ مسجد بلخی کی زیباترین مساجد میں سے ایک ہے۔ یہ مسجد ۸۶۷ھ میں تیموری دور میں حاکمِ بلخ میر فرید کے حکم سے تعمیر ہوئی تھی اور امروز یہ مسجد شہرِ بلخ کے مرکزی باغ میں واقع ہے۔ حالیہ سالوں میں وزارتِ اطلاعات و ثقافتِ افغانستان کی جانب سے اِس عمارت کی بھی بازسازی ہوئی ہے۔