حضرت یعقوب ؑ کے خاندان ستر افراد مصر آے تھے ۔ بائبل میں ہے کہ ’ سو یعقوب کے گھرانے کے جو لوگ مصر آئے تھے وہ سب مل کر ستر ہوئے اور اسرائیل کو مصر میں بود باش کرتے ہوئے چارسو سال ہوئے تھے اور چار سوبتیس سال گزر جانے پر ٹھیک اسی روز خداوند کا سارا لشکر ملک مصر سے نکل گیا اور دعیس سے سیکات تک پیدل سفر کیا اور بال بچوں کو چھوڑ کر وہ کوئی چھ لاکھ مرد تھے اور کل تعداد بتیس لاکھ بتائی جاتی ہے ۔ جب کہ یہ کسی حساب سے چارسو سال میں ستر افراد سے ۳۲لاکھ کی آبادی وجود میں نہیں آسکتی ہے ۔
ابن خلدون کا کہنا ہے کہ اس واقع پر کسی بھی جہت سے غور کیجیے اور بتایئے کہ اتنی بڑی تعداد میں اس وقت حضرت موسیؑ کے لیے فوج لکھنا ممکن تھا ۔ پہلے تو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ دفاعی ضروریات کے مطابق ہر ملک میں فوج رکھی جاتی ہے ۔ مگر اس قدر کے جتنی حرب و دفاع کے لئے ضروری ہو اور ملک کے مالی حالت اس کے مصارف بردشست کرسکے ، پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ ایرانیوں کی طاقت ان سے زیادہ تھی ۔ ( ایرانیوں نے بخت نصر کے بعد بابل کو زیر کرلیا تھا ) جس کا ثبوت یہ ہے کہ بخت نصر نے جب اسرائیلیوں پر حملہ کیا اور وہ بیت المقدس کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی تو کوئی اسرائیلی فوج مزاحمت نہ کرسکی ۔ یہ ایرانی اس قدر طاقت ور ہوتے ہوئے بھی قادسیہ کے میدان میں ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ فوج نہ لا سکے ۔ ان حالات میں حضرت موسیٰؑ کے لئے یہ کیوں ممکن ہے کہ وہ اتنی بڑی فوج رکھتے ۔ ایک مشکل اس واقع کی صحت کی یہ بھی ہے کہ اگر فوج زیادہ ہوگی تو اقتدار و سطوت کے دائرہ وسیع ہوں گے ۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ اسرائیلی شام و حجاز سے ( صرف فلسطین و کنعان ) کے کہیں جم نہیں سکے ۔ افزائش نسل کی قدرتی رفتار اس مبالغہ آرائیوں کی تردید کرتی ہے ۔ کیوں کہ حضرت یعقوبؑ اور حضرت موسیٰؑ کے درمیان چار پشتوں کا فرق ہے ۔ جیسا کہ محققین نے تصریح کی ہے کہ صرف چار پشتوں میں نسل کا بڑھنا اور پھیل جانا قطعی ناقابل اعتبار ہے ۔
بائیل میں ہے کہ حضرت سیلمانؑ کے عساکر کی تعداد بارہ ہزار درج ہے ۔ حلانکہ یہ بنی اسرائیل کا وہ دور ہے جو سب سے کامیاب اور زریں دور کہا جاتا ہے ۔ کیوں کہ جتنا عروج انہیں اس دور میں حاصل ہوا پھر کبھی نہیں ہوا ۔ جب عنفوان شباب میں فوج کی تعداد بارہ ہزار سے تجاور نہیں ہوسکی تو حضرت موسیٰؑ کے دور میں یہ چھ لاکھ کس طرح ہوسکتی ہے ۔
بنی اسرئیل کو قوموں کی تاریخ میں کبھی سیاسی اہمیت حاصل نہ ہوسکی ۔ ان کی اہمیت مذاہب کی وجہ سے ہے ۔ کیوں کہ دو بڑے مذاہب یہودیت اور عیسایت نے ان میں سے جنم لیا ہے ۔ حضرت سیلمانؑ کے بعد ان میں سیاسی اتحاد ختم ہوگیا تھا ۔ کیوں کہ آپؑ کے بعد آپؑ کا بیٹا رہو بام تخت نشین ہوا تو بنی اسرائیل کے دس قبائیل نے رہوبام کی اطاعت قبول کرنے سے انکار کردیا اور یرویعام کی سردگی میں علحیدہ شمالی حکومت کی بنیاد ڈالی ۔ جس کا صدر مقام سامریہ تھا ۔ جب کہ جنوب کی حکومت یہودیہ کا دارلحکومت حسب سابق یروشلم رہا اور بیت المقدس کے مقابلے میں دوبت کدے دان اور بیت ایل کے مقام پر بنوائے ۔ ان دونوں حکومتوں کے درمیان ہمیشہ جنگ و پیکار کا سلسلہ جاری رہا ۔ یہی وجہ ہے جب ۹۰۰ ق م میں فرعون شینک نے یروشلم پر حملہ کیا تو وہ یت المقدس کو نہیں بچا سکے ۔ اس نے شہر لوٹنے کے علاوہ ہیکل سلیمانی کو بھی تباہ و برباد کرڈالا ۔
اسی زمانے میں آشوری طاقت پکڑے جارہے تھے اور وہ اپنی سلطنت کو وسعت دینے کی فکر میں تھے ۔ چنانچہ اس واقعہ کے دو سو سال کے بعد آشوری بادشاہ تغلد بلاسر سوم نے شام پر حملہ کیا اور سامرہ کو برباد کردیا ۔ اس کی موت کے بعد اس کے بیٹے شلمانصر پنجم نے پھر شام کا محاصرہ کرلیا ۔ وہ اس محاصرے کے دوران مر گیا ۔ اس کے جانشین سرغون دوم نے تقریباً ستائیس ہزار یہودیوں کو جلاالوطن کردیا ۔ جن کا انجام دنیا کو آج تک دنیا کو معلوم نہیں ہوسکا ۔ سامریہ پر قبضہ کرنے کے بعد اس نے فلسطینی علاقوں پر حملہ کیا اور حکومت یہودیہ کو آشوریہ بالادستی پر مجبور کردیا ۔ سرغون کے بعد سناخریب کے عہد میں یہودیوں نے کلدانیوں سے ساز باز کرکے آشوری حکومت سے گلو خلاصی کرنا چاہی ، مگر کامیابی حاصل ہو نہیں ہوئی ۔ سناخریب نے سامریہ اور یروشلم کو پامال کرکے دولاکھ یہود کو جالا وطن کردیا ۔ گو اس نے یروشلم پر قبضہ نہیں کیا مگر سامریہ کی ریاست ہمیشہ کے لئے ختم کردی ۔
آشوریوں کے کمزور ہونے کے بعد مصریوں نے شام پر حملے کئے ۔ تیخو دوم فرعون مصر نے مجدو کی جنگ میں ہیودیوں کے بادشاہ یوسیاہ کو قتل کرکے فلسطین پر قبضہ کرلیا ۔ مگر اس وقت کلدانی شام پر تسلط کی فکر میں تھے ۔ چنانچہ انہوں نے اپنے شہرہ آفاق بادشاہ بخت نصر کی قیادت میں شام کی طرف پیش قدمی کی اور قارقمش کی جنگ میں تیخو کو شکست دے کر مصریوں کی ایشیا کی طرف پیش قدمی روک دی ۔ پھر یروشلم کا محاصرہ کرکے اس پر قبضہ کرلیا اور یہودیوں کے بادشاہ الیاقیم کو دس ہزار یہودیوں کے ساتھ گرفتار کرکے بابل بھیج دیا اور صدیقہ کو اپنے نائب کی حثیت سے تخت پر بیٹھادیا ۔ مگر اس کے واپس جاتے ہی صدیقہ نے بابل کی بلادستی کے خلاف بغاوت کردی ۔ اس اطلاع کو پاتے ہی بخت نصر پھر یروشلم پر حملہ آور ہوا شہر کو فتح کرکے تاراج کر ڈالا ۔ صدیقہ کے بیٹے قتل کردئیے گئے اور اس کی آنکھیں نکلوادی گئیں ۔ ہیکل کو مسمار کردیا گیا اور تابوت سکینہ ، تورات کی اصل جلد اور دوسری مقدس اشیاء تلف کردی گئیں اور تقریباً کل یہودی اسیری کی زندگی بسر کرنے کے لئے بابل بھیج دئیے گئے ۔
بنی اسرائیل ہمیشہ ارد گرد کی قوموں سے متاثر رہے ۔ انہوں نے نہ صرف ان کی ثقافت بلکہ ان کے مذاہب کو بھی اپنایا اور ان کے دیوتاؤں کی پوجا کی ۔ ان میں اسیری بابل سے پہلے یہودا یا خالق حقیقی کا شعور پیدا نہیں ہوسکا ۔ یہودا کو بھوک کا لگنا ، کشتی لڑنا ، شرمیلا ، قربانی کا تقاضہ کرنے والا ، جو صرف یہود پر مہربان ہے اور غیر یہودیوں کے لئے قہار ہے ۔ کبھی ان کے ذہن میں رب العالمین یعنی خالق حقیقی کا خالص تصور جگہ نہیں ہوسکا ۔ انہوں نے یہوادا کی رحمانیت صرف بنی اسرائیل کے لئے اور اس کی قہاریت غیر اسرائیلیوں کے لئے مخصوص کردی ۔ توحید پرستی اور جزا و سزا کا تصورر نہیں رکھنے کی وجہ سے یہ ہمیشہ کثرت پرستی میں مبتلا رہے ۔ وہ ابتدا میں بچھڑے کی پوجا کرتے تھے ۔ ان کے دو محبوب دیوتا بعل اور مولک تھے ، جو ان کی پڑوسی قوموں کے دیوتا تھے ۔ ان کے انبیاؑ نے انہیں راہ راست پر لانے کی بڑی کوششیں کیں ۔ انہیں ڈرایا ڈھمکایا اور ان کی گمرائیوں کی نشاندہی کی ، مگر ان پر بال برابر اثر نہیں ہوا ۔ بلکہ انہوں نے اپنے انبیاؑ پر سختیاں کیں ، انہیں ذلیل کیا اور انہیں ہلاک کیا ۔ وہ ان کے حق میں دعائے خیر دینے کے بجائے لعنتیں دیتے ، ان کی گمراہیوں پر نوحے کہتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔ ان کی کتابیں اس کی گوا ہیں ۔
بالاالذکر ہوچکا ہے کہ بنی اسرائیل کو تین دفع جلا الوطن کیا گیا ۔ اول آشوری بادشاہ سرغون دوم ستائس ہزار یہودیوں کو سامرہ سے بیدخل کرکے نینواہ لے گیا تھا ۔ مگر اس نے سامریہ کی ریاست بدستور قائم رکھی ۔ دوسری جلاالوطنی بھی سامریہ کی تھی ۔ آشوری فرمان روا سناخریب نے دولاکھ یہود کو سامرہ سے بے دخل کر کے اس ریاست کو ختم کردیا ۔ یہ تعداد بھی اگرچہ مبالغہ آمیز ہے ۔ تاہم ان کا شمار گمشدہ قبایل میں نہیں کیا جاتا ہے ، کیوں کہ یہ قبائل قرب و جوار میں آباد ہوگئے تھے،
تیسری جلاوطنی اسیری بابل کہلاتی ہے ، جنہیں بخت نصر بابل لے گیا تھا اور یہودا کی ریاست ختم کردی گئی تھی ۔ ان کی تعداد پنتالیس ہزار بتائی جاتی ہے ۔ یہ ستر سال کی جلاوطنی کے بعد خورس نے انہیں واپس آنے کی اجازت دی تھی ۔ ان میں سے صرف ستائیس ہزار یہود آئے باقی نے وہیں رہنا پسند کیا تھا ۔
آشوری فرمانروا سرغون دوم ( ۷۲۲ تا ۷۰۵ ق م ) ستائیس ہزار یہود کو نینوا لے گیا تھا ۔ اگرچہ ان کی تعداد مبالغہ آمیز بتائی جاتی ہے تاہم تاریخ میں یہی دس گمشدہ اسباط کہلاتے ہیں اور اس کے بعد بھی سامریہ کی ریاست قائم رہی تھی ۔ یاد رہے سامریہ اور یہودیہ میں اختلاف بت پرستی کی بنا پر ہوا تھا اور آشوری بھی یہودیوں کی طرح سامی النسل اور بت پرست تھے ۔ اس لئے یہ جلد ہی مقامی اقوام میں جذب ہوکر اپنی شناخت کو فنا کرکے تاریخ کے صفحوں سے غائب ہوگئیں ۔
یہ قبائل اگرچہ نینواہ و فرات کے پار جلاالوطن کئے گئے تھے ، جو ترکی اور ایران کی سرھدوں کے قریب ہے اور حقیقت میں بت پرست سے تھے اور مقامی باشندے جو ان کی طرح بت پرست اور سامی نسل تھے اس لئے یہ ان میں باآسانی ان ہی میں جذب ہوگئے ۔ مگر کبھی ان کو افغانستان میں آباد بتایا گیا اور بہت سی قوموں جن میں تاتاری ، پٹھان ، کشمیری اور سومروں کے آبا اجداد بتایا گیا ۔ مگر ان میں کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ یہ اگر اخلاف ہوسکتے تو ترکی اور یورپی قوموں کے ۔ کیوں کے یہ علاقے ان سے قریب ہیں اور یہ سارے دعوے غلط ہیں ، اگر ان میں کوئی حقیقت ہوتی تو بلخصوص یونانی کے علاوہ بابلی اور دوسرے مورخین ضرور ان کا ذکر کرتے ۔ مگر اس بارے میں تاریخ خاموش ہے ۔ آخر سکندر کے ساتھ یونانی مورخین بھی تو ساتھ تھے اور انہوں نے اس علاقے اور قوموں کا تفصیلی ذکر کیا ہے ۔ مگر بنی اسرائیل کے گمشدہ اسباط کا کسی قسم کا ذکر نہیں کیا ۔ اگرچہ بعد میں انہیں تلاش کرنے کی خاص کر عیسائیوں نے بہت کوششیں کیں ۔ مگر انہیں ناکامی ہوئی اور زیادہ سے زیادہ انہوں نے مختلف قوموں پر شبہ ظاہر کیا ۔ مگر یہ کوئی ثبوت یا واضح شواہد فراہم نہیں کرسکے ۔ حقیقت بھی یہی ہے یہ یہ یہود قبیلے بت پرست تھے اور بت پرست اقوام میں جذب ہوکر اپنا ٹشخص مٹا بیٹھے ہیں ۔