پہلی سانس بھی جلا وطنی میں اور آخری بھی، لیکن ان کے بیچ دس سال کا ایک ایسا عرصہ بھی ہے جو انہوں نے اپنے ملک میں بطور ملکہ گزارا۔
ثریا طرزی نے اپنے وطن کی خواتین کو آزاد فضا کی ایسی جھلک دکھائی جس کا ادراک ایک صدی گزر جانے پر بھی درست طور پر نہیں کیا جا سکا ہے۔
انہیں اسی مغرب میں مشکل سے یاد کیا گیا جہاں 1927 میں جب وہ اپنے شوہر بادشاہ امان اللہ خان کے ساتھ کامیاب دورے پر آئیں تو بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے ان کا استقبال کیا تھا۔
سال رواں کے آغاز میں ٹائم میگزین کی جانب سے ان خواتین کو یاد کیا گیا جنہوں نے دنیا کی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا اور انہی خواتین میں ثریا طرزی بھی شامل تھیں۔
72 سال تک ٹائم نے اپنا عنوان ’مین آف دی ایئر‘ رکھا تاہم 1999 میں اس کو تبدیل کرتے ہوئے ’پرسن آف دی ایئر‘ کیا گیا لیکن اس کے باوجود ماضی میں خواتین کو نظر انداز کیا جاتا رہا۔
مارچ میں ٹائم ان 89 ناموں کو اس عنوان ’بااثر خواتین، جن کے بارے میں زیادہ بات نہیں ہوئی‘ کے تحت منظر عام پر لایا۔
سال 1927 کے لیے افغانستان کی اس ترقی پسند ملکہ کو منتخب کیا گیا جنہوں نے 1929 میں مستقل جلاوطنی اختیار کر لی تھی۔
’ثریا طرزی پہلی افغان خاتون تھیں جنہوں نے خواتین کی ترقی کے لیے کام شروع کیا، انہیں تعلیم کی طرف راغب کیا اور ان کو حقوق دینے کے لیے بھی کوشش کی۔‘
یہ بات خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکن ایم پی شنکائی کاروخیل نے بتائی جو کینیڈا میں افغانستان کی سفیر بھی رہ چکی ہیں۔
’ملکہ نے انقلابی اقدامات شروع کیے اور ان پر بادشاہ سے عمل درآمد بھی کروایا۔ وہ عام لوگوں میں آتیں، انہوں نے خواتین کو ان کے حقوق سے آگاہ کرنے کے لیے ملک بھر میں بے تحاشا سفر کیے اور ساتھ ہی تعلیم حاصل کرنے پر بھی زور دیا۔‘
ٹائم لائن
24 نومبر 1899: ثریا طرزی ایک افغان دانشور محمود ثریا طرزی کے ہاں شام میں پیدا ہوئیں، ان دنوں ان کے والد بھی جلاوطن تھے۔
اکتوبر 1909: نئے بادشاہ حبیب اللہ خان نے ثریا طرزی کے خاندان کو افغانستان واپس آنے کی دعوت دی۔
30 اگست 1913: بادشاہ کے بیٹے شہزادہ امان اللہ کے ساتھ ثریا طرزی کی شادی ہوئی۔
20 فروری 1919: شہزادہ امان اللہ بادشاہ بنے۔
3 مئی 1919: امان اللہ نے برطانوی انڈیا پر حملہ کیا جس سے تیسری اینگلو افغان جنگ چھڑ گئی۔
دسمبر 1927: بادشاہ امان اللہ اور ملکہ ثریا طرزی نے یورپ کا سفر کیا
14 نومبر 1928 ، 13 اکتوبر 1929: افغان خانہ جنگی
17 جنوری 1929: امان اللہ نے ملک چھوڑ دیا اور ثریا کے ساتھ روم میں سکونت اختیار کر لی۔
25 اپریل 1960: امان اللہ 67 سال کی عمر میں سوئٹزرلینڈ میں انتقال کر گئے۔
20 اپریل 1968: ثریا 68 سال کی عمر میں روم میں وفات پا گئیں۔
1926 میں افغانستان کی آزادی کی ساتویں سالگرہ کے موقع پر ثریا طرزی نے ایک متاثرکن تقریر کی۔
انہوں نے کہا کہ ’آزادی ایک ایسی چیز ہے جس کا تعلق ہم سب سے ہے، آپ کا کیا خیال ہے کہ شروع سے ہماری قوم کی خدمت صرف مرد کرتے آرہے ہیں؟ خواتین کو بھی اس میں حصہ لینا چاہیے کیونکہ خواتین نے اپنی قوم کے لیے اور اسلام کے ابتدائی ایام میں بھی ایسا کیا، ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کریں۔‘
یورپ کے دورے کے بعد بادشاہ اور ملکہ دونوں 1928 میں افغانستان لوٹ گئے اور اپنے ملک کو جدیدیت کی طرف لانے کا عزم کیا۔
کابل میں رہنے والے صحافی اور سیاسی تجزیہ کار زبیر شفیقی کہتے ہیں کہ انہوں نے بہت تیز چلنے کی کوشش کی۔
’ملکہ اور ان کے شوہر نے یورپ سے لوٹنے کے بعد وہی کیا جس کا ان پر اثر تھا اور انہوں نے یورپ میں دیکھا تھا، انہوں نے اصلاحات، نظام میں تبدیلی اور آزادی کے لیے کام شروع کیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ انہیں افغانستان کی پسماندگی کا ادراک نہ تھا جو کہ ایک روایتی اور قدامت پسند معاشرہ ہے۔ بادشاہ اور ملکہ نے کچھ قدم جلدی میں اٹھائے جس پر عوام کو اشتعال آیا اور آخرکار بات بغاوت تک پہنچ گئی۔
ایک سال کی طویل خانہ جنگی کے بعد 1929 میں امان اللہ ملکہ کے ہمراہ ملک چھوڑ کر برطانوی انڈیا منتقل ہو گئے۔
بادشاہ کو ایک عظیم مصلح کے طور پر یاد کیا جاتا ہے لیکن ان کے پیچھے ثریا طرزی متحرک تھیں جو 24 نومبر 1899 کو دمشق میں پیدا ہوئیں، جہاں عبدالرحمان خان کے اقتدار میں آنے کے بعد 1881 میں افغانستان سے جلاوطنی اختیار کرنے کے بعد ان کا خاندان سکونت پذیر تھا۔ ملکہ کو ترقی پسند سوچ ان کے والد محمود طرزی کی جانب سے ورثے میں ملی تھی۔
محمود طرزی ایک افغان دانشور تھے اور ان کے آزاد اور قوم پرستانہ خیالات بادشاہ کے خیالات کے ساتھ میل نہیں کھاتے تھے۔
دوسری اینگلو افغان جنگ میں ان کے پیش رو کی ناکامی کے بعد عبدالرحمان خان کو انگریز 1880 میں سامنے لائے تھے۔
جلاوطنی کے دوران یورپ کا سفر کرنے اور ترکی میں رہنے سے طرزی کے خیالات میں تبدیلی آئی اور انہوں نے ارادہ کیا کہ یہی کچھ وہ اپنے ملک کے لیے بھی کریں گے۔
اس کا موقع ان کو 1901 میں اس وقت ملا جب عبدالرحمان کے انتقال کے بعد بادشاہت ان کے چھوٹے بھائی حبیب اللہ خان کو ملی اور انہوں نے تمام جلاوطن دانشوروں کو وطن لوٹنے کی دعوت دی۔
ایک سرکاری افسر کے طور پر انہوں نے جدیدیت کے اپنے پروگرام پر کام کرنا شروع کردیا۔ اس دوران ان کی بیٹی ثریا بادشاہ کے بیٹے امان اللہ خان سے ملیں دونوں میں محبت ہوئی اور 30 اگست 1913 کو شادی کر لی۔
20 فروری 1919 کو حبیب اللہ خان کو قتل کر دیا گیا جس کے بعد امان اللہ بادشاہ اور ثریا ملکہ بن گئیں جبکہ محمود طرزی کو وزیر خارجہ مقرر کر دیا گیا۔
اس کے بعد صورت حال تیزی سے تبدیل ہونا شروع ہوئی۔ تین مئی 1919 کو امان اللہ نے ان پالیسیوں پرعمل شروع کیا جو محمود طرزی کی جانب سے دی گئی تھیں اور ان میں برطانوی انڈیا پر حملے کا قدم بھی شامل تھا۔
تیسری اینگلو افغان جنگ جس کو افغانستان میں جنگ آزادی کے طور پر بھی جانا جاتا ہے اگست تک ختم ہو گئی۔
پہلی عالمی جنگ کی وجہ سے وسائل اور افرادی قوت کی کمی سے دوچار انگریز حکومت نے کابل کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کیا۔
افغانستان کی جانب سے طرزی اور برطانوی انڈیا کی طرف سے چیف برٹش مشن ہنری ڈوبز نے معاہدے پر دستخط کیے جس میں ایک دوسرے کا احترام اور حقوق کا خیال رکھنا بھی شامل تھا۔
افغانستان نے آخرکار برطانیہ سے پیچھا چھڑا لیا اور طرزی نے یورپی ممالک کے دارالحکومتوں میں سفارت خانے کھولے اور ساتھ ہی ملک کو جدیدیت کی طرف لے جانے پر ملکہ اور بادشاہ کو یورپ کی مدد بھی ملنا شروع ہوئی۔
ٹائم کی طرف سے مارچ میں پیش کیے جانے والے خراج عقیدت میں ان کو یاد کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’شدید مخالفت کے باوجود بادشاہ اور ملکہ نے کثرت ازواج اور پردے کے خلاف مہم چلائی اور اس پر خود عمل کر کے دکھایا۔‘
بادشاہ نے زیادہ تعداد میں بیویاں رکھنے اور حرم بنانے کی روایات کو یکسر مسترد کیا جبکہ ملکہ خواتین کے حقوق اور تعلیم کی پرجوش حامی تھیں، اور لوگوں کے درمیان اپنا برقعہ پھاڑ کر پھینکنے کے لیے مشہور تھیں۔
1921 میں کابل میں لڑکیوں کا پہلا پرائمری سکول ’مستورات سکول‘ کھولا گیا جس کی سرپرستی ملکہ ثریا طرزی خود کرتی تھیں، ان کو 1926 میں وزیر تعلیم بنایا گیا۔
اس کے بعد مزید سکول کھولے گئے اور 1928 میں مستورات سکول کی 15 طالبات جو کابل کے نمایاں خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں، کو مزید تعلیم کے لیے ترکی بھیجا گیا۔
یہ ایک اشتعال انگیز قسم کا قدم تھا۔
شیرین خان نامی افغان لکھاری کی جانب سے مضامین پر مشتمل کتاب ’ناقابل شکست سرزمین‘ میں لکھا گیا ہے۔
’چھوٹی غیر شادی شدہ لڑکیوں کو دوسرے ملک بھیجے جانے کو بہت سے حلقوں میں خطرے کے طور پر لیا گیا کہ ملک کو سماجی اور ثقافتی اقدار کے خلاف جدیدیت کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔‘
بادشاہ کی صنف کے لحاظ سے بلاامتیاز پالیسیاں ایک قدامت پسند، قبائلی، وہاں کی سماجیات اور دور دراز کے علاقوں میں رہنے والوں کی سوچ سے بہت زیادہ ہٹ کر تھیں۔
دسمبر 1927 میں بادشاہ اور ملکہ چھ ماہ کے دورے پر یورپ روانہ ہوئے۔
انگلینڈ میں اس جوڑے کی پرنس آف ویلز سے ملاقات طے ہوئی اور وہ شاہی ٹرین میں لندن روانہ ہوئے۔ کنگ جارج اور ملکہ مریم نے وکٹوریہ سٹیشن پر ان کا استقبال کیا۔ اس کے بعد شاہی بگھی میں بکنگھم تک کا سفر کیا۔ لوگ بڑی تعداد میں مہمانوں کو خوش آمدید کہنے آئے تھے۔
یورپی ممالک کے دارالحکومتوں علاوہ ماسکو میں بھی ان کا شاندار استقبال انگریزوں کے لیے پریشان کن تھا جو افغانستان کو سوویت یونین کے خلاف بفر زون کے طور پر دیکھ رہے تھے۔
جولائی 1928 میں افغانستان لوٹتے ہی یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ یورپ کا دورہ ایک تباہ کن غلطی تھی۔
مریم وردک جو ایک وکیل اور تجزیہ کار ہیں اور صنفی برابری کے لیے کام کرتی ہیں، کا کہنا ہے کہ ’ثریا کی طرف سے ہونے والی محنت محض چند مہینوں ہی ختم ہو کر رہ گئی۔‘
اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے بادشاہ نے ناقدین کو خوش کرنے کی کوشش کی اور سیکولر سکولز کے علاوہ لڑکیوں کے سکول بھی بند کر دیے گئے۔
خاندان کے حوالے سے بنائے جانے والے قوانین، کثرت ازواج پر پابندی اور خواتین کو طلاق کا حق دینے کے قوانین کو منسوخ کر دیا گیا اور سیکولر عدالتوں کو ختم کرتے ہوئے شرعی عدالتیں بنائی گئیں اور بھی بہت کچھ تبدیل کیا گیا۔
مگر یہ ساری کوششیں بے سود رہیں، نومبر 1928 تک افغانستان خانہ جنگی میں گھِر گیا اور ’ڈاکو بادشاہ‘ کہلائے جانے والے حبیب اللہ کلاکانی نے اپنی سرگرمیاں مزید تیز کیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنوری 1929 میں امان اللہ ملک سے نکل گئے۔
کلاکانی صرف دس ماہ ہی بادشاہ رہ سکے، 13 اکتوبر 1929 کو نادر شاہ نے انہیں نکال باہر کیا اور انگریزوں کی مدد سے بادشاہ بن گئے۔
آج تک افغانستان میں لوگوں کا یہی خیال ہے کہ امان اللہ کی حکومت ختم کرنے میں برطانوی حکومت کا ہاتھ تھا اور ان کی بیوی کے خلاف جعلی خبروں کی مہم چلائی گئی تھی۔
’بادشاہ کے ساتھ بیرونی ممالک کے دوروں کے موقع پر ہمیشہ انہوں نے افغانستان کی جدیدیت کو پیش کیا اور دونوں ہی ملک میں استحکام چاہتے تھے۔‘ یہ بات تاریخ دان حبیب اللہ رفیع نے بتائی۔
’مگر ہمارے اس وقت کے دشمن انگریزوں نے، جو افغانستان پر قبضہ نہ کر سکنے کا بدلہ لینے کے لیے ملکہ کے خلاف جھوٹی اطلاعات پھیلانا شروع کر دیں تاکہ یہاں ترقی کا سفر رک سکے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ملکہ کی ایسی جعلی تصاویر لوگوں میں تقسیم کیں جن میں ملکہ عریاں ٹانگوں کے ساتھ بیٹھی تھیں جو مقامی لوگوں کی برہمی کا باعث بنیں۔
’برطانیہ ایک آزاد اور خوش حال افغانستان کو دیکھ نہیں سکتا تھا کیونکہ اس سے برطانیہ کے زیر تسلط انڈیا میں بھی تحریک پیدا ہو سکتی تھی اور ممکن ہو سکتا تھا کہ لوگ برطانیہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہی وجہ تھی کہ برطانیہ نے اس وقت کی حکومت اور خاص طور پر ملکہ کو کمزور کرنے کی کوشش کی تھی۔‘
برطانیہ ہر حال میں انڈیا کو سنبھالے رکھنا چاہتا تھا جو کہ سلطنت کے تاج کا سب سے اہم موتی تھا اور اسے امان اللہ کے سوویت یونین کے ساتھ تعلقات سے خوف محسوس ہوا جو اس وقت مزید بڑھ گیا جب مئی 1921 میں امان اللہ نے سوویت یونین کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کیا۔
جلاوطنی اختیار کرنے کے بعد امان اللہ اور ملکہ ثریا طرزی اٹلی چلے گئے، جہاں انہوں نے زندگی کے باقی ایام روم میں گزارے۔
امان اللہ کا انتقال اپریل 1960 میں ہوا جبکہ ان کی اہلیہ اس کے بعد آٹھ سال تک زندہ رہیں اور 68 سال کی عمر میں 1968 میں انتقال کے بعد ان کے تابوت کو فوجی دستوں کی حفاظت میں روم ایئرپورٹ لے جایا گیا اور وہاں سے افغانسان پہنچایا گیا جہاں سرکاری سطح پر ان کا جنازہ پڑھایا گیا۔
آج بھی بادشاہ اور ملکہ جلال آباد میں واقع امیر شہید گارڈنز میں اپنے خاندانی مقبرے میں اکٹھے ہیں۔
11 اکتوبر کو بچیوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ ان مسائل کے بارے میں شعور اجاگر کیا جائے جن کا سامنا عالمی سطح پر بچیوں کو ہے۔
2016 میں ورلڈ ہیومینیٹیریئنز سمٹ کے موقع پر بننے والی تنظیم ’ایجوکیشن کین ناٹ ویٹ‘ اس سال افغانستان کی لڑکیوں کو درپیش مسائل کو اجاگر کر رہی ہے۔
ایجوکیشن کین ناٹ ویٹ کے مطابق ’تین عشروں سے زائد تک جاری رہنے والی جنگوں نے افغانستان کے تعلیم کے نظام کو تباہ کر دیا ہے، موجودہ افغانستان میں 7 اور 15 سال کی عمر کے درمیان سکول نہ جانے والے بچوں (ساٹھ فیصد بچیاں) کی تعداد 32 سے 37 لاکھ تک ہے۔‘
افغان لڑکیوں اور خواتین کی آزادی کے لیے کی جانے والی کوشش کے 90 سال بعد بھی افغانستان کی خواتین بندشوں میں جکڑی ہیں۔
یہ سب دیکھ کر ثریا طرزی اداس ہوں گی کہ ان کا ملک تب سے اب تک کس قدر کم آگے بڑھا ہے۔
وردک کہتی ہیں کہ ’میں ملکہ ثریا طرزی کی جدوجہد کو سراہتی ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر وہ خواتین کی آزادی اور حقوق کے لیے موزوں راستہ اختیار کرتیں تو زیادہ موثر ہوتا۔‘
’آج ہم خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، کم عمری میں شادی کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور لوگ جہیز دیتے بھی ہیں اور لیتے بھی۔‘
وردک نے یہ بھی کہا کہ ’اس کے باوجود مجھے یقین ہے کہ ملکہ کا ویژن آج بھی کئی نوجوان خواتین میں زندہ ہے، تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ کر ہم مضبوط نسلوں کے ساتھ کھڑے ہو سکتے ہیں کیونکہ تعلیم خوش حالی کی چابی ہے۔‘