گزشتہ مضمون میں ہم نے ادبی ستاروں کے نام سے شہرت پانے والے جن چھ نامور افغان ادبی شخصیات کا ذکر کیا تھا، ان میں استاد علامہ عبدالشکور رَشاد بھی شامل ہے، علامہ عبدالشکور رَشاداگرچہ مذکورہ فہرست کا آخری ستارہ سمجھاجاتا ہے، لیکن ان کی ادبی خدمات کئی حوالوں سے زیادہ بھی ہیں اور منفرد بھی.
علامہ عبدالشکور رَشاد چودہ نومبر 1921 کو تاریخی کندہار کے بابڑ کوچہ میں ایک علمی گھرانے میں پیداہوئے، رَشاد کے والد عبدالغفور بابڑ خود ایک عالم اور فاضل انسان تھے، یوں انہوں نے اپنے بیٹے کی علمی اور فکری نشوونما میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اپنے باپ کی اس تربیت کا اعتراف خود علامہ رشاد بھی ایک انٹرویو میں کرچکے ہیں، کہ ”میرا اولین استاد اور مُربی میرا باپ ہے، اللّٰہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کردے، لیکن مجھے افسوس ہے کہ ان کا سایہ بچپن ہی میں میرے سرسے اٹھ گیا اور میں ان کے کمالات سے پوری طرح مستفید نہ ہوسکا”، علامہ رشاد نے قرآن، احادیث کے علاوہ وقت کے مروجہ علوم کی کتابیں مختصرالقدوری، گلستان اور بوستان اپنے والد سے پڑھیں، عمر محض تیرہ برس تھی کہ بے پناہ ذکاوت کی بناء پر اسکول میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے فارغ التحصیل ہوئے، اگلے سال باقاعدہ طور پر استاد تعینات ہوگئے اور چھوٹے استاد کے نام سے مشہور ہوئے، 1936 میں کندہار شہر کے انتخابی مجلس کے رئیس اور پھر کندہار ہی کے والی کے معاون تعینات ہوگئے، متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے ایک برس بعد علامہ رشاد ہندوستان منتقل ہوگئے، جہاں انہوں نے وسیع بنیادوں پر علمی اور تحقیقی کاموں کا آغاز کیا، ”لودھی پشتانہ” اور ”سوری پشتانہ” کے نام سے چارسو اور چارسو بیس صفحات پر مشتمل ضخیم تاریخی کتابیں انہوں نے قیام ہند ہی کے زمانے میں لکھیں، ہندوستان میں انہوں نے دیوانگری رسم الخط کے ساتھ ساتھ ہندی زباں بھی سیکھی.
علامہ رشاد شروع سے افغانستان کی پہلی جمہوری جماعت ویش زلمی سے منسلک ہوئے تھے، بلکہ ایک جگہ وہ خود فرماتے ہیں، کہ چھبیس سال کی عمر میں انہوں نے پارٹی ویش زلمیان کے فلیٹ فارم سے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا، پچاس کی دہائی کے آخر میں جب وطن لوٹے تو ویش زلمیان ہی کی طرف سے وہ کندہار سے پارلیمان کے امیدوار نامزد ہوئے، کہاجاتا ہے کہ اسی وقت کے والیِ کندہار عبدالغنی خان قلعہ بیگی کے اہلکاروں کی طرف سے انتخابی عمل کے دوران دھاندلی ہوئی تھی، جس کے سبب پر وہ یہ نشست ہار گئے تھے.
1957 میں انجمنِ پشتو کے رکن اور ساتھ ساتھ کابل یونیورسٹی میں زباں و ادب کے استاد مقرر ہوئے، 1962 میں حکومتِ وقت نے ان کو لینن گراد اوبلاست بھیجا، جہاں وہ مشرقی علوم پر تحقیق کرنے والے ایک ادارے میں ڈھائی سال تک ٧٧ بطورِ پشتو استاد پڑھاتے رہے، وطن واپس لوٹے توکابل یونیورسٹی میں علوم بشریات اور ادبیات پڑھانا شروع کیں اور پھر اسی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین مقرر ہوئے.
علامہ رشاد نے پہلا شعر تیرہ سال کی عمر میں کہاتھا، تاہم پہلی مرتبہ ان کا شعر اور ایک تحقیقی مقالہ طلوع افغان رسالے میں 1938 کو طبع ہوا، سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کی طویل مزاحمت اور خلفشار کے زمانے میں وہ کابل ہی میں مقیم رہے، ناسازگار حالت کے پیش نظر وہ اپنی شاعری اور تحریریں کلیفورنیا، ناروے، جرمنی، ہندوستان، پشاور اور کراچی کی مطبوعات میں مستعار نام سے شائع کرواتے تھے، بات کے کھرے اور افغانیت کے علمبردار علامہ عبدالشکور رشاد اپنی حب الوطنی پر بڑا نازاں تھے اور بسا اوقا ت کہا کرتے تھے کہ اپنی دھرتی ہر کسی کو عزیز ہے، لیکن میں ایمان کی حد تک اس سے محبت کرتاہوں.
علامہ رشادکمال کا حافظہ رکھتے تھے اور قدرت نے انہیں غضب کی ذہانت ودیعت کی تھی، پاکستان اور ہندوستان کے علاوہ جاپان، امریکہ، یمن اور سعودی عربیہ کے اسفار کیے اور عربی، فارسی، انگریزی، ہندی، روسی اور جاپانی زبانوں پر انہیں خاصا عبور حاصل تھا، پشتو زبان کے مشہور لکھاری محمد نبی صلاحی لکھتے ہیں کہ ”ساٹھ سال کی عمر میں جب ان کو دل کا عارضہ لاحق ہوگیا، تو علاج کیلئے وہ جاپان گئے، جہاں انہوں نے بستر علالت پر ہسپتال میں مریضوں کی تیمارداری کرنے والی نرسوں سے جاپانی زبان سیکھی”
ویش زلمیان کی خالص جمہوری سیاست کے قائل علامہ رشاد ڈنکے کی چوٹ پر روس اور روس نوازوں کی مخالفت کرتے تھے اور ببانگ دہل اس طالبانی سیاست کے بھی ناقد تھے جس میں جمہوریت اور روشن فکری کے لئے کوئی سپیس موجود نہیں تھی، اپنی سیاسی وابستگی کے بارے میں وہ کہتے تھے کہ ”وہ ویش زلمی تھے، ہیں اور رہینگے کیونکہ یہ وہ جماعت تھی جس کے فلیٹ فارم سے پہلی مرتبہ افغانستان میں جمہوریت کی صدا بلند ہوئی تھی.
عمر کی کل تراسی بہاریں دیکھنے والے افغان وطن کے اس مایہ ناز شاعر، محقق، مورخ اور فاضل نے اپنے پیچھے بے شمار تصانیف کا باقاعدہ کتب خانہ چھوڑا، ایک اندازے کے مطابق ان کے کل کتابوں کی تعداد ایک سو چالیس کو پہنچتی ہے، ذیل میں ان کے چند مشہور نثری اور شعری تصنیفات کے نام دیئے جاتے ہیں. ”ملحدشاہی” علامہ کا پہلا شعری مجموعہ تھا جس میں انہوں نے 1978 سے 1992 کے عرصے میں رونماہونے والے واقعات اور اسی دور کی سرکار کی خبرلی ہے. 1992 اور 1996 کے درمیانی عرصے میں پیش آنے والے حوادث کے تناظر میں ان کی شاعری ”تنظیم شاہی” کے نام سے چھپی، جبکہ 1996 سے 2001 تک طالبان حکومت کے سقوط کے بعد آنے والے مجموعے کو انہوں نے ”طالب شاہی” کانام دیا، جس میں انہوں نے طالبان حکومت میں پیش آنے والے واقعات کا منظوم احاطہ کیاہے، ملحدشاہی، تنظیم شاہی اور طالب شاہی کے علاوہ “د زڑہ وینے، لولپہ پیغلہ، دپشتنو غمیزہ، خشمیدلے امریکہ، د وادہ کلے کربلا شو، د تودو وینو حمام افغانستان شو، رونڑے اوشکے اور د گلابو گیڈئی علامہ رشاد کی مشہور شعری کاوشیں ہیں. نثر میں ”سور ی پشتانہ” اور ”لودھی پشتانہ” کے نام سے سینکڑوں صفحات پر مشتمل دو ضخیم تاریخی کتابوں کے علاوہ پشتانہ شعراء، پٹہ خزانہ کا عروضی پہلو، سوبہاش چندربوس، فرہنگِ پٹہ خزانہ، افغانستان اور برطانوی ہندوستان سے متعلق چند باتیں، چمکنی قبیلے کا میاں عمر، بڑے کارنامے سرانجام دینے والی خواتیں، پشتو تجوید کی تاریخ، گیارہویں اور بارہویں جماعتوں کی پشتو قرآئت جیسی مشہور مطبوعہ کتابیں علامہ کی تصنیفات میں شامل ہیں، اسی طرح انہوں نے دوسو سے زیادہ ایسے افغان النسب شعراء کے دو ضخیم تذکرے بھی لکھے، جنہوں نے فارسی اور اردو زبان میں شاعری تخلیق کی ہے، ٹالسٹائی کی کتاب ”بے ہاتھوں خاتوں” ابن سینا کی کتاب ”مخارج ِ حروف” جیسی مشہور کتابوں کے علاوہ انہوں نے بے شمار دوسری کتابوں کاپشتو ترجمہ کیا ہے، اسی طرح حیات افغانی کے پشتو ترجمے کا دیباچہ، حواشی اور تعلیقات، دولت لوانی کے دیوان کا دیباچہ، ٹیگور کے گیتانجلی کے پشتو ترجمے کا دیباچہ، ملا عبدالباقی کی کتاب تبیین الواجبات کا دیباچہ، دیوان احمد شاہ بابا جیسے مشہور دیوانوں اور نثری کتابوں کی تصحیح کے ساتھ ساتھ ان کے دیباچے، حواشی اور تعلیقات بھی لکھے، مذکورہ بالا مطبوعہ کتابوں کے علاوہ علامہ عبدالشکور رشاد نے اپنی زندگی میں درجنوں ایسی کتابیں لکھی ہیں جو تاحال یا توشائع نہیں ہوئیں ہیں یا عنقریب شائع ہونگے.
چار دسمبر 2004 کو افغان وطن کا یہ نابغہ روزگار اور ہمہ جہت فاضل استاد ہم سے رخصت ہوکر ہمیشہ کیلئے امَر ہوگئے، خوشحال خان خٹک نے ایسی شخصیات ہی کے بارے میں تو کہا تھا
میڑنی دی چی یادیژی
پہ سندرو ھم پہ ویر