کوئٹہ شہر کے شمال مشرق میں تقریبا چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر خانوزئی بلوزئی نام کا ایک قصبہ واقع ہے. انتظامی لحاظ سے یہ قصبہ ضلع پشین کے حدود میں واقع ہے. اس قصبہ اور آس پاس کے علاقے کی اہم بات یہ ہے کہ خواندگی اور شرح تعلیم کی درجہ بندی کے لحاظ سے یہ براعظم ایشیا کے سرفہرست علاقوں میں شمار ہوتا ہے . تقریبا ایک سو سال پہلے، علامہ عبدالعلی آخوند ذادہ نے پہلی بار اس علاقے میں سکول کهولا جبکہ ابھی پشتون معاشرے میں حصول تعلیم اور تعلیمی اداروں کو صحیح نہیں سمجھا جاتا تھا. علامہ عبدالعلی آخوند نے پہلے پہل اپنے گھر کے بچے بچیوں کو اس سکول میں داخل کرایا اور پھر آہستہ آہستہ تمام گاؤں والوں کی ذہن سازی کی اور انہیں یہ سمجھانے میں کامیاب ہوئے کہ تعلیم حاصل کرنے کے فوائد کسی سے پوچھ کر سیکھنے کی چیز نہیں بلکہ تعلیم حاصل کرنا بہ ذات خود ایک واضح فائدہ ہے.
علامہ عبدالعلی آخوند پٹہ خزانہ (قدیم پشتو کتاب) کے دریافت کنندہ ہونے کے علاوہ پشتو زبان کے ادیب بھی تھے، آپ کا دیوان (شاخ گل) جو کہ نظموں کا ایک مجموعہ ہے پشتو اکیڈمی کوئٹہ کی طرف سے شائع ہوا.
#علامہ_عبدالحی_حبیبی آپ کے بارے میں لکھتے ہیں:
“علامہ عبدالعلی کو میں 1338 ہجری (1917) سے جانتا تھا. اس وقت میری عمر دس سال کی تھی جب کندہار کے ایک گلوکار باغی اخندزادہ علامہ عبدالعلی کے اشعار ارغنداب کے باغات میں فلک بوس آواز کے ساتھ گایا کرتے تھے.
1314 شمسی (1935) کے موسم سرما میں ہندوستان جاتے ہوئے میں نے کوئٹہ میں قیام کیا تو وہاں میں نے عبدالعلی آخوند زادہ کو اپنی طبابت کی دکان پر بیٹھے دیکھا. اس زمانے میں، میں کندھار کے “طلوع افغان” (اخبار) کا ایڈیٹر تھا، اور میرے اخبار کی ہر تازہ کاپی علامہ عبدالعلی صاحب کو بھیجی جایا کرتی تهی . انہوں نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا اور نہایت پیار و شفقت سے میرا ماتھا چوما. یہ میری علامہ صاحب سے زندگی میں پہلی ملاقات تھی اور ان کے ساتھ بیٹھ کر خوب باتیں کی. چار سال بعد (1939)میں جب میں اپنے دفتر (کندھار) میں طلوع افغان کے صفحات اور پشتو ادب کے چند معدوم اور نامعلوم حصوں کی جانچ پرکھ اور انہیں فہرست دینے میں گهم تھا تو کوئٹہ سے مجھے عبدالعلی آخوند کا ایک پیغام موصول ہوا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ انہیں پشتو ادب کا ایک بہت قدیم نسخہ ملا ہے اگر کندھار سے اسکی دوبارہ اشاعت ممکن ہے تو میں بھیج دیتا ہوں. یہ میرے لیے ایک بہت بڑی خبر تھی کیونکہ ہمارے لئے تو قدیم پشتو ادب کا ایک بیت یا ورق بھی بہت اہم تها یہاں تو علامہ صاحب پوری کی پوری کتاب ڈھونڈ لائے تھے. میں نے اس پیغام کے جواب میں کہا کہ میں خود کوئٹہ آکر آپ سے ملوں گا. مگر خدا کا کرنا یوں ہوا کہ میں 1319 شمسی (1939) میں کندھار سے کابل شفٹ ہوا اور یہاں آکر پشتو سوسائٹی کا ہیڈ مقرر ہوا اور اپنے آفیشل مصروفیات میں اتنا گهم رہا کہ 1320 شمسی (1940) کے موسم سرما تک سر کهجانے کی بھی فرصت نہیں ملی. 1322 شمسی (1942) کے موسم بہار میں، میں کوئٹہ گیا اور اپنے عزیز دوست اور مہربان بزرگ عبدالعلی آخوند زادہ سے ملا تو انہوں نے وہ نایاب کتاب مجھے دکھائی. جونہی میری نظر اس کتاب پر پڑی تو وہ واقعی ایک پوشیدہ خزانہ سے کم نہیں تھی. میں نے علامہ صاحب سے کہا کہ یہ تو واقعی میں ایک پٹہ خزانہ(پوشیدہ خزانہ) ہے اگر آپ یہ میرے حوالے کرے تو میں اسے چھاپ کر ساری دنیا کے سامنے پیش کروں گا. اللہ علامہ صاحب کو اعلیٰ مقام عطا فرمائے وہ مسکرائے اور کہا چهاپ دو، آپ ہی کے لیے تو سنبھال کر رکھی تھی، لے لو.
علامہ صاحب کی یاد میں یہ چند سطور لکھتے ہوئے تسلیم کرتا ہوں کہ مرحوم اگر اس کتاب کو پشین کوئٹہ میں دریافت نہ کرتے تو آج پشتو زبان اور ادب اس تاریخی خزانے سے یکسر محروم ہوتی”.
اخندزادہ صاحب 1944 میں اس دار فانی سے رخصت ہوئے اور پشین کے نواح میں خانوزئی بلوزئی میں سپرد خاک ہوئے.
اللہ انکی روح کو شاد رکھے.
علامہ مرحوم کچھ عرصہ تک ریاست قلات میں وزارت تعلیم کے قلمدان پر فائز رہے. بعد میں اپنے گاوں میں طبابت کے پیشہ میں عوام کی خدمت کرتے رہے. واضح رہے کہ علامہ عبدالعلی آخوند اور دیگر عظیم پشتون سکالرز پر بہترین مونوگرافس لکھے جاسکتے ہیں.