کوژک سرنگ کی تاریخ

دانیال شاہ

برطانیہ اور روس کے درمیان جاری گریٹ گیم کے دوران دونوں قوتیں اپنا اقتدار وسطی ایشیا میں پھیلانا اور اس خطے میں موجود قدرتی وسائل پر قابض ہونا چاہتی تھیں۔ 19 ویں صدی کے اواخر میں ہندوستان میں موجود برٹش راج، روس کے وسطی ایشیا میں پھیلتے اقتدار کو لے کر پریشان ہونا شروع ہو گیا تھا۔

شیلا باغ اسٹیشن میں موجود ماضی میں استعمال ہونے والی چابیاں اس جگہ کی تاریخ کی شاہد ہیں — تصویر دانیال شاہ

اس بات کے ڈر سے کہ روسی قندھار کے ذریعے اس خطے میں داخل ہو سکتے ہیں، برٹش نے قندھار تک ریلوے پٹریوں کا جال بچھانے کا فیصلہ کر لیا، تاکہ روسی افواج کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ اپنی فوجوں کو وہاں بھیج سکیں۔ اس مقصد کے لیے برٹش کو مشہور 2290 میٹر بلند درہء کھوجک کو بائی پاس کرنا تھا جو کہ صدیوں سے فوجوں، تاجروں اور فاتحوں کی گزر گاہ رہا ہے۔

سرنگ کے بعد شیلا باغ اسٹیشن تعمیر کیا گیا تھا — تصویر دانیال شاہ

3.9 کلومیٹر طویل یہ سرنگ 1888 سے 1891 کے درمیان درہء کھوجک کے نیچے تعمیر کی گئی تھی اور اس سرنگ کا نام بھی اسی درے کے نام پر کھوجک ٹنل رکھا گیا۔

سرنگ کے سامنے ایک چھوٹی تختی نصب ہے جس پر اس کا نام اور اس کی تعمیری مدت کندہ ہے۔ یہ جگہ شیلا باغ قصبے میں سطح سمندر سے 1939.8 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ شیلا ایک پشتو لفظ ہے جس کا مطلب ہے ایک موسمی پہاڑی ندی اور باغ کا ظاہر ہے کہ باغ ہی مطلب ہے۔

کھوجک ٹنل — تصویر دانیال شاہ

ایک خوفناک قصہ یہ بھی ہے کہ اس سرنگ کے تعمیری منصوبے کے چیف انجینیئر نے اپنے اس شاہکار کے مکمل ہونے سے پہلے خود کشی کر لی تھی۔

سرنگ کی ایک پرانی تصویر میں سرنگ کے داخلی حصے پر دو ٹاورز دیکھے جاسکتے ہیں جو کہ 1935 میں آئے زلزلے میں زمین بوس ہو گئے تھے۔ اسٹیٹ بینک نے انجینیئرنگ کے اس کمال کو تسلیم کیا اور 1976 میں اس کی تصویر پانچ روپے کے نوٹ پر چھاپ دی گئی جو کہ 2005 تک یہ نوٹ چلتا رہا۔

شیلا باغ اسٹیشن کے ٹکٹ گھر پر آج بھی ماضی کے خوبصورت بورڈز لگے ہوئے ہیں — تصویر دانیال شاہ

نوٹ میں سرنگ کے مشرقی علاقے کو دکھایا گیا ہے اور یہ ایک یاد دہانی ہے کہ کس طرح کھوجک ٹنل نے ایک دور میں برصغیر کی اقتداری سیاست میں ایک اہم مرکز کے طور پر اپنا کردار ادا کیا تھا۔

کوژک ٹنل کی تصویر 1976 سے 2005 تک پانچ روپے کے نوٹ پر چھپی ہوتی تھی،جس کے بعد یہ نوٹ بند کر دیا گیا — دانیال شاہ
شیلا باغ (کوژک سرنگ) چمن
1899ع
چمن کوژک تاریخی سرنگ جو 1888 سے 1891 یعنی تین سال کے عرصے میں انگریز حکمران نے تعمیر کیا۔
شیلا باغ (کوژک سرنگ) کی مختصر تاریخ: شیلا باغ برصغیر پر برطانوی دور حکومت میں انگریزوں کو روس کا افغانستان سے قندھار کے راستے اس علاقے میں داخل ہونے کا خدشہ تھا، یوں انہوں نے اپنی فوج کو افغانستان کے طرف بھیجنے کے لئے توبہ کاکڑی کے پہاڑی سلسلے کا مشہور پہاڑ خوجک (پشتو کوژک) میں سے سرنگ کھود کر نکالے کا فیصلہ کیا. سرنگ کھود نے کے چیف انجنیئر نے سرنگ مکمل ہونے سے ایک دن پہلے خود کشی کی تھی ، شاہد اسکے اندازے کے مطابق مطلوبہ عرصے سے زیادہ دن ( ایک ہی دن ) لگ گیا. تقریباً 4 چار کلو میٹر لمبی شیلاباغ سرنگ 1888 سے لیکر 1891 تک تعمیر ہوئی تھی. شیلاباغ سطح سمندر سے لگ بھگ 2000 میٹر بلندی پر واقع ہے شیلاباغ نام کے پیچھے بھی دو مفروضے ہیں، اول یہ کہ لفظ ‘شیلا’ پشتو زبان میں پانی کی برساتی ندی کو کہتے ہیں اور باغ ملا کر، ندی والا باغ اخذ ھو سکتا ہے. شیلاباغ سے ٹھنڈے اور شفاف پانی کا چشمہ بھی قابل ذکر ہے. شیلا باغ سرنگ کی تصویر پانچ روپے کے نوٹ پر لگائی گئی تھی ، جسکا اجرا 1976 میں ہو کر 2005 تک راہج رہا. اس سرنگ کی تعمیر کا کام 14اپریل 1888ء کو شروع کیا گیا، جس کے لیے 6,449روشنی دینے والے چراغ حاصل کیے گئے اور 80ٹن پانی، ٹینکر کے ذریعے منگوایا گیا۔ یہ سرنگ دنیا کی چار بڑی سرنگوں میں شمار ہوتی ہے، جس کی تعمیر میں 97لاکھ، 24ہزار 426اینٹوں کا استعمال کیا گی.

 

شیلا باغکوژک ٹنل
نظريات (0)
نظر اضافه کول