برطانیہ اور روس کے درمیان جاری گریٹ گیم کے دوران دونوں قوتیں اپنا اقتدار وسطی ایشیا میں پھیلانا اور اس خطے میں موجود قدرتی وسائل پر قابض ہونا چاہتی تھیں۔ 19 ویں صدی کے اواخر میں ہندوستان میں موجود برٹش راج، روس کے وسطی ایشیا میں پھیلتے اقتدار کو لے کر پریشان ہونا شروع ہو گیا تھا۔
اس بات کے ڈر سے کہ روسی قندھار کے ذریعے اس خطے میں داخل ہو سکتے ہیں، برٹش نے قندھار تک ریلوے پٹریوں کا جال بچھانے کا فیصلہ کر لیا، تاکہ روسی افواج کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ اپنی فوجوں کو وہاں بھیج سکیں۔ اس مقصد کے لیے برٹش کو مشہور 2290 میٹر بلند درہء کھوجک کو بائی پاس کرنا تھا جو کہ صدیوں سے فوجوں، تاجروں اور فاتحوں کی گزر گاہ رہا ہے۔
3.9 کلومیٹر طویل یہ سرنگ 1888 سے 1891 کے درمیان درہء کھوجک کے نیچے تعمیر کی گئی تھی اور اس سرنگ کا نام بھی اسی درے کے نام پر کھوجک ٹنل رکھا گیا۔
سرنگ کے سامنے ایک چھوٹی تختی نصب ہے جس پر اس کا نام اور اس کی تعمیری مدت کندہ ہے۔ یہ جگہ شیلا باغ قصبے میں سطح سمندر سے 1939.8 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ شیلا ایک پشتو لفظ ہے جس کا مطلب ہے ایک موسمی پہاڑی ندی اور باغ کا ظاہر ہے کہ باغ ہی مطلب ہے۔
ایک خوفناک قصہ یہ بھی ہے کہ اس سرنگ کے تعمیری منصوبے کے چیف انجینیئر نے اپنے اس شاہکار کے مکمل ہونے سے پہلے خود کشی کر لی تھی۔
سرنگ کی ایک پرانی تصویر میں سرنگ کے داخلی حصے پر دو ٹاورز دیکھے جاسکتے ہیں جو کہ 1935 میں آئے زلزلے میں زمین بوس ہو گئے تھے۔ اسٹیٹ بینک نے انجینیئرنگ کے اس کمال کو تسلیم کیا اور 1976 میں اس کی تصویر پانچ روپے کے نوٹ پر چھاپ دی گئی جو کہ 2005 تک یہ نوٹ چلتا رہا۔
نوٹ میں سرنگ کے مشرقی علاقے کو دکھایا گیا ہے اور یہ ایک یاد دہانی ہے کہ کس طرح کھوجک ٹنل نے ایک دور میں برصغیر کی اقتداری سیاست میں ایک اہم مرکز کے طور پر اپنا کردار ادا کیا تھا۔