کوئٹہ کی تاریخ

کوئٹہ کا نام ایک پشتو لفظ سے نکلا ہے جس کے لغوی معنیٰ ‘قلعہ’ کے ہیں۔ کوئٹہ شہر سطح سمندر سے تقریباً 1700 میٹر سے 1900 میٹر کی بلندی پر واقع ہے اور اپنے بہترین معیار کے پھلوں کی پیداوار کے لیے مشہور ہے۔ یہ بنیادی طور پر خشک پہاڑوں میں گھرا ہوا شہر ہے جہاں سردیوں میں شدید سردی اور برف باری ہوتی ہے۔

ابتدائی تاریخ:

کوئٹہ شال کوٹ ایک پرانا شہر ہے جس کے نام کا لغوی معنیٰ ‘قلعہ’ کے ہیں۔ خیال ہے کہ یہ نام کسی قلعہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے پڑا کہ کوئٹہ چاروں طرف سے پہاڑوں سے گھرا ہوا شہر ہے جس سے وہ ایک قدرتی قلعہ ہے۔

شال کوٹ:

افغانستان کے بادشاہ نادر شاہ کے قتل کے بعد احمد شاہ ابدالی جو نادر شاہ کے فوج کے سالار تھے لویہ جرگہ کے ذریعے بادشاہ منتخب ہوئے، یہ جرگہ شیر سرخ بابا کے مزار پر منعقد ہوا تھا، اسی دوران صابر شاہ ملنگ نے ایک گندم کا خوشہ ان کے سر پر بطور تاج کے لگایا اور احمد شاہ کو بطور بادشاہ تسلیم کیا گیا، احمد شاہ درانی کو بجا طور پر افغانستان کا بانی کہا جا سکتا ہے۔ اس وقت سلطنت اٹکسے کابل، کوئٹہ ،مستونگ ،قلات ،سبی، جیکب آباد، شکارپور ،سندھ ،پشین، ڈیرہ اسماعیل خان ،ضلع لورالائی اور تمام پنجاب پر مشتمل تھا، شال کوٹ(کوئٹہ) قندھار کا ایک ضلع تھا، احمد شاہ درانی کا دورے سلطنت ( 1747ء سے 1823ء) تک افغانستان پر رہی۔ 1765ء کا زمانہ آیا سکھوں نے پنجاب میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا ہوا تھا ۔1772ء تک احمد شاہ درانی اور اس کے بعد اس کی اولاد کی حکومت رہی۔ اس کی اولاد میں ایوب شاہ کو1823ء میں قتل کر دیا گیا۔ احمد شاہ ابدالی کی ہمشیرہ کا مزار بھی خواجہ ولی مودودی چستی کرانی کی درگاہ کے احاطہ کے اندر کرانی ،کوئٹہکے مقام پر واقع ہے۔

رسم تاج پوشی احمد شاہ ابدالی 1747ء

شال:

پنجاب کی مہم سے واپسی پر احمد شاہ ابدالی نے میر نصیر خان کو ہڑند اور داجل کے علا قے بطور انعام دیے۔ اسی زمانے میں جب احمد شاہ کی مشرقی ایران کی مہم سے واپسی ہوئی تو اس نے میر نصیر خان کی والدہ بی بی مریم کوکوئٹہ کا علا قہ یہ کہتے ہوئے دیا کہ یہ آپ کی شال ( دوپٹہ ) ہے۔ اسی دن سے کوئٹہ کا نام شال کوٹ پڑ گیا،اور یہ ریاست قلات کا حصہ بن گیا۔ قلعہ میری قلات ( قلعہ کوئٹہ ) کے قریب خواجہ نقرالد ین شال پیر بابا مودودی چشتی کا مزار بھی واقع ہے، شال کوٹ کو جو شاہراہ ہندوستان اور ایران سے ملاتی ہے اُسے شال درہ کہتے تھے آج اُس شاہراہ پر اسی نام سے ایک بہت بڑی آبادی قا ئم ہے، خواجہ ولی مودودی چستی کرانی کا مزار بھی اسی وادی کے اندر بمقام کرانیواقع ہے

سید احمد شہید کا سفر شال:

سید احمد شہید اپنے سفر نامے میں بیان کرتے ہیں 29 ذلحج کو ان کا لشکر بھاگ بلوچستان سے روانہ ہوکر یکم محرم کو ڈھاڈر کے مقام پر پہنچا۔ یہاں 4 روز قیام کے بعد 4 محرم 1242ھ بمطابق 1826ء کو درہ بولان میں داخل ہوئے اور آٹھ محرم کو شال پہنچئے۔ سید احمد شہید اپنے سفر نامے میں مزید بیان کرتے ہیں یہاں کہ لوگوں کی زبان افغانی ہے۔ دوسروں کی بات سمجھ نہیں سکتے ہیں۔ لیکن ان کے اخلاق کمال کا ہے کہ شال پر خان قلات محراب خان کی حکومت تھی محراب خان محمود خان کا بیٹا تھا اور نصیر خان اوّل (وفات 1794ء) کا پوتا تھا۔

حکم نامہ خان آف قلات میر محراب خان-1223ھ

 سید احمد شہید شال میں اپنے مصروفیات میں کرانیکے بارے میں لکھتے ہیں کہ شال سے دو کوس کے فاصلے پر ایک دیہات میں سادات کا ایک گھرانہ تھا تیسرے روز اس گھرانے کے لوگوں نے کھانے اور میووں سے بڑی ضیافت کی اور سید احمد شہید کو سو آدمیوں کے ساتھ اپنے گھر لے گئے اور بڑی خوشی سے کھانا کھلایا اسی روز شال کے حاکم نے سید صاحب کے ہاتھ پر ارادت اور جہاد کی بیعت کی ـ [1] کرانی کے جس سادات گھرانے کا ذکر اس سفر نامے میں ہے وہ سید لطف اللہ شاہ کا گھرانہ تھا اور ان کے دو بیٹے سید امان اللہ شاہ اور سید عطا اللہ شاہ تھے سید لطف اللہ شاہ میر نصیر خان اوّل کے ساتھ ایران کی مہم پر بھی گئے تھے [2] اسی عرصے کا خان قلات محراب خان کا ایک فرمان بھی موجود ہے –

میر نصیر خان:

میر نصیر خان کا شمار قلات بلوچستان کے ممتاز ہردلعزیز ترین برو ہی سرداروں میں ہوتا تھا، وہ میر عبد اللہ خان برو ہی کا تیسرا چھوٹا بیٹا تھا، اس کی ماں بی بی مریم التازئی قبیلے سے تعلق رکھتی تھی،نادر شاہ کے وفات کے بعد میر نصیر خان، احمد شاہ ابدالی کے ساتھ قندھار چلا آيا، جب افغانستان کے بادشاہ کے لیے احمد شاہ ابدالی کا انتخاب ہوا تو میر نصیر خان نے بروہی سرداروں کی نما ہند گی کی، اسنے احمد شاہ ابدالی کے حق میں رائے دیکر بالادستی قبول کر لی، کچھ دن بعد نصیر خان کے بھائی محبت خان نے لقمان خان کی بغاوت میں حصہ لے کر احمد شاہ ابدالی کا اعتماد کھو دیا ،1749ء میںاحمد شاہ ابدالی کے حکم سے میر نصیر خان اپنے بھائی کی جگہ قلات کے ناظم بنے انکا دور حکومت 1751ء سے 1794ء تک رہا،خوانین قلات افغان حکمرانوں کو سالانہ دو لاکھ روپیہ اور فوجی سپاہی بھی مہیا کرنے کے پابند تھے، نصیر خان کا شمار احمد شاہ ابدالی کے منظور نظر سپہ سالاروں میں ہونے لگا اور اسنے بادشاہ کے ساتھ کئی معرکوں میں حصّہ لیا، ان دنوں میر نصیر خان اؤلقندھار میں تھے احمد شاہ ابدالی نے انھیں قلات کا خان مقرر کیا اور مالیہ وصولی وغیرہ کا کام سونپ دیا، جبکشمیر میں بغاوت ہوئی.

خان نصیر خان، خان آف قلات (1749ء – 1794ء)

آزادی کا اعلان:

1171ھ کو جب خان قلات میر نصیر خان نے آزادی کا اعلان کیا تو احمد شاہ ابدالی نے فورا” ایک فوجی دستہ روانہ کیا، میر نصیر خان کو جب پتہ چلا تو مقابلے کے لیے نکلے مستونگ کے مقام پر جنگ ہوئی، اس دوراناحمد شاہ ابدالی خود قندھار سے مدد کو پہنچا اور قلات کا محاصرہ کیا، کچھ عرصے بعد دونوں کے مابین مشروط راضی نامہ ہوا جس کی رو سے خان قلات احمد شاہ ابدالی فوجی معرکوں میں مدد کرینگے اور احمد شاہ ابدالی نے بھی خان کو کچھ مراعات دیں،اور اس صلح کو مضبوط کرنے کے لیے احمد شاہ ابدالی نے نصیر خان کی چچازاد بہن سے اپنے بیٹے تیمور شاہ کا نکاح کرد یا، احمد شاہ ابدالی درانی کا دورے سلطنت ( 1747ء سے 1823ء)تک افغانستان پر رہا۔ 1765ء کا زمانہ آیا سکھوں نے پنجاب میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا ہوا تھا۔ خان آف قلات میر نصیر خان بھی احمد شاہ ابدالی ابدالی کے ہمرا سکھوں کی سرکوبی کے لیے پنجاب کی طرف روانہ ہو گئے۔ میر نصیر خان بارہ ہزار کا لشکر لے کر براستہ گنداوہ احمد شاہ ابدالی کی مدد کو پنجاب روانہ ہوا، ڈیرہ غازی خان سے سردار غازی خان بھی ایک بلوچ لشکر لے کر میر نصیر خان کی فوج میں شامل ہوا، دریا ے چناب پار کر کے میر نصیر خان کی فوج احمد شاہ ابدالی کے فوج کے ساتھ شا مل ہو یی اور پھر یہاں سے روانہ ہوکر یہ فوج لاہور میں داخل ھويی، میر نصیر خان نے احمد شاہ ابدالی کے حکم پر آگے بڑھ کر سکھوں کا مقابلہ کیا، شدید لڑائی شروع ہوئی، میر نصیر خان نے بڑھ بڑھ کر سکھوں پر حملے کیے، لڑا ئی میں اس قدر بے خود ھوا کہ سکھوں کے لشکر کے بیچ جا پہنچا سکھوں نے اسے گھیرے میں لے لیا اور قتل کرنا چاہتے تھے اسی دوران ہاتھا پائی میں انکی پگڑی سر سے گر گئی سکھوں نے جب ان کے لمبے بلوچی بال دیکھے تو ایک سکھ نے آواز لگائی کہ مت مارنا اپنا ہی بھائی ہے، کیو نکہ داڑھی اور لمبے بالوں کی وجہ سے بلوچ بھی سکھوں کی طرح لگتے تھے، اس معر کہ سے واپسی پر میر نصیر خان نے یہ کہہ کر اپنے بال منڈوا دیے کہ انکی وجہ سے میں شہادت سے محروم ہوا>

قدیم حدود ضلع کوئٹہ پشین:

ضلع   کوئٹہ پشین   بلوچستان کا بالائی ضلع ہے، اس کے  وادیوں کی اونچائی سطح سمندر سے  4500 فٹ سے  لے کر 5500 فٹ تک ہے اور ان وادیوں  میں واقع پہاڑوں کی اونچائی 8000 فٹ سے  11500 فٹ تک ہے،  اس کے  شمال مشرق میں ژوب اور سبی ڈسٹرکٹ شمالاً اور جنوباً مستونگ ڈسٹرکٹ، شمال اور مغرب میں افغانستان اس ڈسٹرکٹ  میں زیادہ تر میدانی علاقے ہیں، جس کی لمبائی کم اور چوڑائی زیادہ ہے،  ان میدانوں کو چاروں طرف سے  ٹوبہ کاکڑ اور وسطی براہوی سلسلہ کوہ نے گھیر رکھا ہے، ٹوبہ کاکڑی کے  سلسلہ میں لوئیہ ٹوبہ کا پلوٹو بھی شامل ہے،  اس سلسلہ سے  شمال میں جو شاخیں نکلتی ہیں ، وہ کوہ خواجہ امران کا سلسلہ کہلا تے ہیں،  یہ اس ڈسٹرکٹ کی مغربی سر حد بناتی ہے جسے سر لٹ کہتے ہیں، مشرق کی جانب کوہ زرغون جس کی اونچائی 11733 فٹ ہے اور کوہ  تکہ تو جس کی اونچائی 11375فٹ اور کوہ مردار اونچائی 10398 فٹ ہے، شمال میں چلتن  اور مشلاخ کے  پہاڑ ہیں،  وادی کی نکاسی آب لورا پشین  اور دریا کاندانی کے  ذریعہ ہوتا ہے، لورا پشین وادی ک کوئٹہ  کے  وسط میں واقع ہے، دریا کاندانی جو شمال میں ہے اور ٹوبہ کاکڑی کے  پلیٹو کی نکاسی کرتا ہے اور یہ ہلمند افغانستان میں جا ملتا ہے>

1839 کو کوئٹہ کی آبادی 6000 افراد پر مشتمل تھی اور یہ پرانے کچے مکانات کا ایک خستہ حال شہر تھا، 1839 میں ہی فوج میں تبدیلی لاکر لیو یز فورس قا ہم کی گئی، 1840 میں انگریزوں نے کوئٹہ پر مکمل قبضہ کیا، 1841 میں انگریزوں نے کوئٹہ کو خانقلات کے حوالے کر دیا، 1874 تک یہ علاقہ خان کے تسلط میں رہا، 1877 کے ابتدائی دنوں میں بلوچستان ایجنسی بنا، 1878 کے مابین دوسری افغان شروع ھویی، کوئٹہ  شہر آبادی 1998 560301  صوبہ بلوچستان  کا دار الحکومت ہے  یہ 5500  فٹ5 167میٹر کی بلندی پر پہاڑوں میں گھری وادی ہے  کوئٹہ  کا نام پشتو کے  لفظ کوٹ سے  لیا گیا ہے جس کے  معنی قلعہ  کے  ہیں  کوئٹہ  میں بولان پاس ہے  جو افغانستان میں داخل ہونے کا اہم راستہ ہے  کوئٹہ  شہر افغانستان  ایران  اور و سطی ایشیا کے  لیے تجارتی مرکز ہے  یہاں کے  اہم مصنوعات میں ٹیکسٹائل کھانے پینے کی  اشیا اور قالین وغیرہ شامل ہیں  دوسری افغان  کے  بعد 1876 میں کوئٹہ  پر انگریزوں کا تسلط قائم ہوا اس شہر کی اہمیت اس وجہ سے  بھی تھا کہ  سر رابرٹ سنڑ یمن تعینات تھے انگریزوں نے کوئٹہ  کو ایک مضبوط ملٹری گیریزن میں تبدیل کر دیا  شہر کا بیشتر حصہ  1935 کے  زلزلے کے  بعد ازسرِنو تعمیر ہوا  کوئٹہ میں پاکستان کے  دیگر سرحدی علاقوں کی طرح ملٹری اسٹاف کالج اور جیو فزیکل آبروریزی ہے  1979کی روسی جارحیت کے  بعد بڑی تعداد میں افغان مہاجرین نے کوئٹہ کا رخ کیا جس کی وجہ سے  مقامی آبادی میں تیزی سے  اضافہ ہوا  اور اب ایک اندازے کے  مطابق شہر کی آبادی چالیس لاکھ  ہے  افغانستان  میں  جاری خانہ جنگی کے  باعث کوئٹہ اسلحہ اور  منشیات کا مرکز بن چلا ہے   آبادی میں اضافہ بتایا جاتا ہے مقامی قبائل کے  آپس میں زاتی جھگڑے اور  مسئلے بھی ہیں 2007 میں اس علاقے میں آنے والے  سائکلون نے شدید تباہی پھیلائی اور کم از کم 800،000 لوگوں کو متاثر کیا یہ شہر ڈویژنل اور ڈ سٹر کٹ ہیڈ کوارٹر اور اہم تجارتی اور کمونیکیشن  مر کز ے جو وادئ شال کے شمالی حصے میں سطح سمندر سے   5،500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے܂ کوئٹہ کا علاقہ 1876 میں برطانوی کٹر ول میں تھا܂ سر رابرٹ سنڈ یمن نے یہاں پر رزیڈنسی قائم کی ܂ شہر یہاں کے  مضبوط ملٹری گیریزن کے  ارد گرد قائم ہوا اور اسے 1897 میں میونسپلٹی  میں شامل کیا گیا܂ یہاں آرمی کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج 1907 میں کھلا܂ مئی 1935 میں آنے والے شدید زلزلے نے کوئٹہ شہر کو تہس نہس کر دیا اور تقریب 20،000 جانوں کا زیاں ہوا܂ اب یہ علاقہ مغربی افغانستان  مشرقی ایران  اور وسطی ایشیا کے  کچھ حصوں کے  لیے تجارتی مرکز ہے܂ یہاں کے  انڈسٹریز میں کاٹن مل سلفر ریفائنری، تھرمل پاور اسٹیشن پھلوں کے  باغات شامل ہیں܂ کوئٹہ میں جیو فزیکل انسٹی ٹیوٹ، جیو لوجیکل سروے، سنڈ یمن لائبریری، دو گورنمنٹ کالجز جو پشاور یونیورسٹی سے  الحاق شدہ ہیں܂ بلوچستان یونیورسٹی 1970 میں قا،م ہو،ی܂ کوئٹہڈسٹرکٹ کے  شمال میں پشین  ڈسٹرکٹ،  مغرب میں افغانستان ،  مشرق میں سٹی ڈسٹرکٹ اور جنوب میں قلات اور چاغی ڈسٹرکٹ ہیں܂ یہ علاقہ لمبی لمبی وادیوں پر مشتمل ہے جو سطح سمندر سے  5500  سے   4500  فٹ کی بلندی پر واقع ہے  اور جنوب میں ان کو و سطی بروہی  سلسلے نے گھیرا ہوا ہے یہاں کی نکاسی دریائے پشین  لورا اور اس کی شاخوں کے  زر یعے ہوتی ہے܂ یہاں موسم خشک اور معتدل ہے جو انگور، آڑو، ناشپاتی، سیب، بادام، انار وغیرہ  کی کاشت کے  لیے بہترین ہے܂  جو گندم، مکئ یہاں کی اہم فصلیں ہیں܂ یہاں کے قالین

کو،ٹہ ڈسٹرکٹ کے  شمال میں پشین  ڈسٹرکٹ،  مغرب میں افغانستان ،  مشرق میں سٹی ڈسٹرکٹ اور جنوب میں قلات  اور چاغی  ڈسٹرکٹ ہیں܂ یہ علاقہ لمبی لمبی وادیوں پر مشتمل ہے جو سطح سمندر سے  5500  سے   4500  فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور جنوب میں ان کو و سطی بروہی  سلسلے نے گھیرا ہوا ہے یہاں کی نکاسی دریائے پشین  لورا اور اس کی شاخوں کے  زر یعے ہوتی ہے܂ یہاں موسم خشک اور معتدل ہے جو انگور، آڑو، ناشپاتی، سیب ، بادام، انار وغیرہ  کی کاشت کے  لیے بہترین ہے܂  جو گندم، مکئ یہاں کی اہم فصلیں ہیں܂ یہاں کے قالین اور کشیدہ کاری بھی بہت مشہور ہیں، 1955 میں کوئٹہ  ڈویژن کوئٹہ،  ژوب ، لورالائی،  سبی ،  چاغی ،  پر مشتمل تھا، یہ پہاڑی علاقہ ہے، جو مشرق میں کوہ سلیمانی سلسلہ اور شمال میں توبہ کاکڑی  کے  سلسلہ کے  ذریعے افغانستان سے  جدا ہوتا ہے، شمال میں افغان  سرحد کے  ساتھ خواجہ امران اور سرل آرٹ کے  پہاڑی سلسلے ہیں، اسی سلسلے میں خو جک پاس واقع ہے ، جہاں اڑھائی میل لمبی سرنگ بنائی گئی ہے.

تصویر کے نیچے درج تفصیل بمقام کوئٹہ بلوچستان : یہ تصویر ہفتہ وار اخبار ٹائمز آف انڈیا مورخہ 22 فروری 1911 کی ہے، سر ہنری میک موہن کے کوئٹہ سے کلکتہ ٹرانسفر کے موقع پردی گئی الوداعی تقریب کی گروپ فوٹو ہے، یہ پارٹی ہنری میک موہن کے عزا ز میں انجمن اسلامیہ بلوچستان کی طرف سے 23 جنوری 1911 کو میک موہن ہال کوئٹہ میں دی گئی، اس پوری تقریب کی شاندار کامیابی کی اُسکے عزت اور اُونچے مقام کو ظاہر کرتی تھی، جو بلوچستان محمڈن کمیونٹی کے دل میں سر ہنری میک موہن کے لیے تھی۔ اس میں کرانی کے ایک معتبر شخصیت سید عمر شاہ کرانی بھی موجود ہی میں، ➀- سید عمر شاہ کرانی، ➁- سلطان سکندر جان، خان آف قلات کے بھائی، ➂- سردار شاہ نواز خان، ➃- میجر اے ایل جیکب، ➄- کیپٹن ایچ ایچ ایم جیک، ➅- کرنل ڈوک، ➆- کول سک آر چر، ➇- سر ہنری میک موہن، ➈- مسٹر ایچ آر سی ڈوبز، ➉-مسٹر ڈی ایری، 11-مسٹر ایف ایم ائے بیاٹی، 12-مسٹر گلی سون، 13-کیپٹن ڈی ایچ، 14-ارباب خدائے داد خان، 15-میر شاہ نواز خان، خان آف قلات کے بھائی،

 

احمد شاہ ابدالیپشینخان آف قلاتسید احمد شہیدشالکوئٹہمیر محراب خانمیر نصیر خان
نظريات (0)
نظر اضافه کول