منډيګک
افغان تاريخ

گندھارا

سوات میں گندھارا آرٹ بُدھّا کے مختلف مجسمّوں، کندہ کاریوں اور مختلف نقش و نگار کی صورت میں فروزاں نظر آتا ہے۔ (Photo: Gandharan Buddhism – WordPress.com)
0 1٬002

وادی کابل و غزنی سے لیکر دریائے سندھ کے پار تک جس میں صوابی، سوات، مردان اور راولپنڈی تک کے علاقے شامل تھے ۔ عرب مورخین نے گندھارا کی ہندوستانی سلطنت کو جو دریائے سندھ سے دریائے کابل تک پھیلی تھی قندھار (گندھار) کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ البیرونی نے قندھار (گندھارا) کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس کی راجدھانی وہنڈ یا اوہنڈ تھی ۔ المسعودی نے قندھار (گندھار ) کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ رہبوط (راجپوت) کا ملک ہے اور دریائے کابل جو دریائے سندھ میں گرتا پر واقع ہے ۔ ہیروڈوٹس نے اس کا ذکر گندایوئے کے نام سے کیا ہے اور دارا کے کتبہ بہستون میں اس کا نام گندرا نام سے تذکرہ ملتا ہے۔
اس علاقے کا سب سے پہلا تزکرہ آریوں کی مذہبی کتاب ’رگ وید‘ میں ملتا ہے ۔ کیوں کے اس کے بھجنوں میں اس علاقے کے اہم دریاؤں کابل، سوات اور گومل کا تزکرہ ملتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس علاقے پر آریاؤں نے قبضہ کرلیا تھا۔
اس علاقے میں جو آثار ملے ہیں انہیں گندھارا کی گورستانی تہذیب Gundhra Grove Cltur کا نام دیا گیا ہے۔
مہا بھارت سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں گندھارا یا گندھار داکی ریاست تھی ۔ جسے کوشالہ Kashala کے حکمران نے ککیہ KaKiya کی مدد سے زیر کیا تھا ۔ کوشالہ کے دو بیٹوں ٹکسا Taksa اور پوشکلا Poskda نے دو شہروں ٹکشاسلہ Taksahshsila یعنی ٹیکسلہ Taksla اور پوشکلہ وتی Poshkalawati (چارسدہ) کی بنیاد رکھی ۔
یہ ریاست دریائے سندھ کے دونوں طرف پھیلی ہوئی تھی ۔ بعض ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ ٹیکسلہ کی بنیاد ٹکا Taka نامی قبیلے نے آباد کیا تھا جو وسط ایشیاء سے آیا تھا۔ چنانچہ اس کے نام پر ٹکلاشیلا پڑا جو رفتہ رفتہ ٹیکسلہ ہوگیا ۔ اس کی تصدیق اس دور کے یونانی مورخ نے بھی کی ہے اور اسے ٹیکسائلو Taksailo کا شہر بتایا ہے۔

گندھارا کا نام سب سے پہلے ہندؤوں کی مذہبی کتاب رگ وید میں آیا ہے۔(Photo: Amazon India)

بدھ مذہب کی کتابوں میں گندھار کا ذکر ملتا ہے ۔ گوتم بدھ کے زمانے میں ٹیکسلہ کی شہرت ایک علمی مرکز کی تھی، جہاں دور دور سے لوگ تحصیل علم کے لئے آتے تھے۔ یونانی جغرافیہ داں استرابو Strabo کے مطابق دریائے سندھ انڈیا اور آریانہ Aryana کے درمیان سرحد کی حثیت رکھتا تھا ۔ آریانہ میں کابل، گومل، کرم، قندھار اور مغربی گندھارا کے علاقے شامل تھے۔ چھٹی صدی قبل عیسوی میں آریانہ کا علاقہ کا ایک وسیع علاقہ گندھار کے حکمران پوکوستی کی مملکت میں شامل تھا ۔
۵۱۵ ۔ ۵۱۸ ق.م کے درمیان دارا نے حملہ کرکے وادی سندھ کے مغربی حصہ پر قبضہ کرلیا۔ اس نے یہاں ایرانیوں اور یونانیوں کو آباد کیا۔ یہ تسلط غالباََ ارتاکسز (۴۴۰ ۔ ۳۵۸ ق. م) کے عہد میں ختم ہوگیا تھا ۔ کیوں کہ جب یہاں سکندر نے حملہ کیا تو ایرانی تسلط نہیں تھا۔

سکندر نے ۳۲۷ ق.م میں کوہ ہندو کش عبور کرکے اس علاقہ کے مختلف شہروں کو جنگ و جدل کے ذریعے مطیع کرتا ہوا اوہنڈ کے مقام پر دریائے سندھ کو عبور کیا. جہاں ٹیکسلہ کے راجہ نے اس کا استقبال کیا اور اس نے سکندر کی اطاعت قبول کرلی تھی ۔ اس طرح یونانی ۳۲۶ ق.م میں پنجاب میں داخل ہوگئے۔

سکندر کے چند سال بعد ہی چندر گپت نے یونانی بالادستی کے خلاف بغاوت کردی اور اس نے دریائے سندھ کے مشرقی حصوں کو اپنی مملکت میں شامل کر لیا۔ سکندر کے سپہ سالار سلوکس نے سکندر کے مفتوع علاقوں کو دوبارہ فتح کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوا ۔
اشوک کے بعد جب موریہ سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا۔ کابل، غزنی، پنجاب و سندھ پر اسو بھاگ سن نے قبضہ کرلیا ۔ اس پر انطیوکس اعظم Antiochus The Garet نے حملہ کردیا۔
اسو بھاگ نے شکست کھائی مگر انطیوکس اعظم بھی مارا گیا۔ اسوبھاگ کے بعد اس کا بیٹا گج حکمران ہوا ۔ پھر اس علاقہ پر یونانی حکمران ہوگئے ۔
سیتھی یونانی حکومت ختم کرکے سیستان سے ہوتے ہوئے اس علاقے پر قابض ہوگئے۔ سیتھی جب پارتھیوں کے زیر اثر ہوئے تو اس علاقہ پر ان کا تسلط ہوگیا اور سو برس زائد عرصہ کے لیے سیتھی اس پر قابض ہوگئے ۔

گندھارا میں بنا بدھا کا مجسمہ

عیسوی کی ابتدا میں اس پر کشانوں کے قبضہ ہوگیا، جس سب مشہور بادشاہ کنشک تھا۔ کنشک کا شمار دنیا کے بڑے بادشاہوں میں ہوتا ہے ۔
۱۲۰ ء ؁ اس خاندان کا سب سے نامور حکمران کنشک Kanshaka کشن یا کشان یا کوشان سلطنت کا بادشاہ ہوا۔ کنشک اپنی فتوحات اور بدھ مت کی سرپرستی کے حوالے سے مشہور ہے۔ اس نے نہ صرف شمالی ہند و گندهارا کو ہی مکمل فتح کیا، بلکہ پامیر کے پار تک کے علاقے کو اپنی سلطنت میں شامل کرلیا تھا اور پاٹلی پتر تک کے علاقہ اس نے فتح کرلیے تھے۔
کنشک کا پایہ تخت پرش پور Purshapura موجودہ پشاور تھا ۔ یہاں اس نے ایک بڑا مینار جوکہ تیرہ منزلہ تھا اور ایک شاندار خانقاہ تعمیر کروائیں تھیں، جو نویں صدی تک بدھ مت کے علوم کے مرکز کی حثیت سے مشہور تھی اور اس سرزمین تین سو سال سے زیادہ میں آگئی ۔
کشانوں کا خاتمہ ہنوں نے کیا ۔ اس طرح اس علاقہ پر یوچیوں کی چار سو سالہ حکمرانی کا خاتمہ ہوگیا ۔ اس علاقہ پر ہنوں کے زابلی مملکت کی حکمرانی تھی ۔
افغانستان میں ان کی قوت کو ترکوں نے صدمہ پہنچایا اور برصغیر میں ایک قومی وفاق نے ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا ۔ ہنوں نے اس علاقہ پر تقریباً دوسو سال حکمرانی کی ۔

جس وقت چینی سیاح ہیون سانگ Hion Tsang (۶۳۰ء) اور وانگ ہیون سی Wang Hioun Tso نے برصغیر کی سیاحت کی تھی، اس وقت گندهارا پر کشتری خاندان کی حکومت تھی ۔ ان کا دارلحکومت کاپسا (موجودہ بلگرام کابل کے شمال میں) تھا ۔ البیرونی انہیں ترک بتاتا ہے ۔ اس خاندان کی حکومت آخری حکمران کو اس کے وزیر کلیر عرف للیہ نے قید کرکے ہندو شاہی یا برہمن شاہی خاندان کی بنیاد رکھی ۔ برہمن شاہی اس علاقے کا آخری حکمران خاندان تھا، جس نے مسلمانوں کا مقابلہ کیا ۔ یہ خاندان ابتدائے اسلام سے ۴۲۱ھ/ ۱۰۳۰ تک حکمران رہا ۔ جب افغانستان کے مشرقی حصوں پر اسلامی لشکر کا قبضہ ہو گیا تو اس کا دارلحکومت کاپسا سے گردیز، گردیز سے کابل، کابل سے اوہنڈ اور آخر میں نندانہ (جہلم کے قریب) منتقل ہوگیا ۔ جہاں ان کا محمود غزنوی نے خاتمہ کردیا۔

ماخذ:
بی ایس ڈھیا، جاٹ
قندھار ۔ معارف اسلامیہ
اکرام علی، تاریخ پنجاب
مولانا اسمعیل ذبیح ۔ اسلام آباد
ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم
ڈاکٹر معین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی
پرفیسر محمد مجیب ۔ تمذن ہند قدیم
مستنصر حسین ٹاڑر ۔ سفر شمال کے
سبط حسن، پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء

اترك رد

لن يتم نشر عنوان بريدك الإلكتروني.

error: Protected contents!