منډيګک
افغان تاريخ

شہر پشاور اور قلعہ بالا حصار، تاریخ کے دریچوں میں

مولانا خانزیب

0 909

پشاور شہر، جنوبی ایشیاء میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے، یہ ہندوستان کا گیٹ وے تھا اس لیے ہر حملہ آور نے اس قلعہ کو مسمار کیا ہو گا اور ہر مرتبہ یہ ازسرنو تعمیر ہوا ہو گا

”بالا حصار”۔۔ یہ فارسی کا کلمہ ہے جس کے معنی ہیں وہ محفوظ قلعہ جو اونچائی پر ہے۔ پشاور کو پختونخوا کا دل کہا جاتا ہے۔ اس کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ یہ پختون وطن، جو کہ مارگلہ سے لے کر دریائے آمو تک واقع ہے، کے بالکل قلب میں واقع ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ پشاور تاریخی طور پر اس خطے میں پیدا ہونے والے تمام تہذیبوں کا گہوارا اور مرکز رہا ہے جبکہ ماضی میں احمد شاہ ابدالی کے خاندان کے دور میں پشاور(1802 سے 1806  تک) افغانستان کا سرمائی دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ پشاور افغانستان کے ساتھ متصل وسطی ایشیاء کی تجارتی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے جو سن سینتالیس سے پہلے تک ایک عالمی تجارتی منڈی تھی  مگر بدقسمتی سے آزادی کے بعد پختونوں کے اس تاریخی شہر کے عظمت کو بھلا دیا گیا اور اس کی تجارتی حیثیت کو نظر انداز کیا گیا۔

جب آپ پشاور سے مغرب کی سائیڈ پر ضلع خیبر کی طرف جاتے ہیں تو ہر ایک یہی سمجھتا ہے کہ یہ سڑک خیبر کی طرف جاتی ہے لیکن تاریخی جبر کا کیا کیا جائے کہ جس کی وجہ سے ہر کوئی یہ بھول ہی گیا ہے کہ درحقیقت یہ روڈ وسطی ایشیاء اور پھر اس کے ساتھ متصل مشرقی یورپ تک جاتا ہے۔

اگر اس خطے میں جنگی جنونیت کے بجائے مستقل معاشی سرگرمیوں پر توجہ دی جاتی اور پختونوں کے وطن میں جنگی معیشت کے بجائے اقتصادی ترقی کا سوچا جاتا تو آج نہ صرف یہ پالیسیاں پختونخوا کے باسیوں کی خوشحالی کا باعث ہوتیں بلکہ پشاور کی اس سڑک پر یورپ اور وسطی ایشیاء کی تجارتی مال بردار گاڑیوں کا ہجوم ہوتا جو سارے ملک کی معیشت کو استحکام بخشتا اور اس کو سہارا دیتا۔ اگر جنگوں کے بجائے یہاں امن ہوتا تو باجوڑ سے لے کر وزیرستان تک پندرہ بڑے تجارتی راستے تمام کے تمام یورپ کے ساتھ تجارتی بنیادوں پر منسلک ہوتے مگر آج حقیقت احوال یہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ بھی تجارت کا حجم روز بروز گر رہا ہے۔

 

افغانستان اور اس خطے کے حوالے سے روا رکھے جانے والی غیر فطری پالیسیوں کے سبب  ایران اور وسطی ایشیاء کے ساتھ نئے تجارتی راستے بنا رہا ہے اور ایک ہم ہیں جو اپنے ہزاروں سالہ قدیم اور تاریخی شہروں اور ان کی تاریخی تجارتی اہمیت کو ختم کر رہے ہیں۔ اسی شہر پشاور میں یہ تاریخی قلعہ اس شہر کی عظمت رفتہ کی علامت ہے جو اس کے ساتھ ساتھ ایک تاریخی ورثہ بھی ہے مگر بدقسمتی سے اس تاریخی ورثے کو بھی جنگی علامت بنا دیا گیا ہے اور بجائے اس کے کہ اس شہر کے وسط میں واقع اس قلعہ کو عوام کیلئے کھول دیا جاتا جس طرح لاہور کا شاہی قلعہ ہے جو سیر و تفریح کے ساتھ ساتھ اپنے ماضی سے باخبر ہونے کا ایک سبب بھی ہے، اسے ایک دفاعی حصار میں بدل دیا گیا ہے۔

قلعہ بالا کی تاریخی عظمت کے حوالے سے علامہ عبدالحئی حبیبی لکھتے ہیں کہ دو ہزار سال قبل بدھ مت کے پیروکار بادشاہ اشوک اعظم نے اپنی سلطنت کے شمال میں بودھا کے چار بڑے اسٹوپے تعمیر کرائے تھے جن میں ایک پشاور کے بالاحصار کے اس ٹیلے پر تھا۔ سٹوپہ میں بڑے خوبصورت پتھر اور خوبصورت لکڑی لگائی گئی تھی، چینی سیاح ہونگ سانگ کے مطابق اس اسٹوپے کو اس نے دیکھا تھا جس میں لکڑیوں پر سونے کے پانی سے نقاشی کی گئی تھی اور بدھ مت کے پیروکاروں کی جماعت اس کے اردگرد رہتی تھی۔ فاہیان کے مطابق یہ سٹوپہ بودھا کی آنکھ کے ساتھ موسوم تھا کیونکہ کہا جاتا تھا کہ گوتم بدھ نے اپنی ایک آنکھ کی قربانی یہاں دی تھی۔

محمد ابراہیم ضیاء بالاحصار کی تاریخی عظمت کے حوالے سے اپنی کتاب تاریخ پشاور میں لکھتے ہیں کہ پشاور پاکستان کا ایک قدیم شہر اور صوبہ خیبر پختونخوا کا صدر مقام ہے جس کے اندر سات ہزار سال تک کے آثار قدیمہ ملے ہیں۔ بڑی وادی میں بنا یہ شہر درہ خیبر کے مشرقی سرے پر واقع ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحد اس کے پاس ہی ہے۔ وسطی ایشیاء اور جنوبی ایشیاء کی اہم گذرگاہوں پر واقع یہ شہر علاقے کے بڑے شہروں میں سے ایک اور ثقافتی لحاظ سے متنوع ہے۔ پشاور میں آب پاشی کے لیے دریائے کابل، دریائے کنڑ  اور دریائے باڑہ سے نکلنے والی نہریں گذرتی ہیں۔ مصدقہ تاریخ کے مطابق اس علاقے کا عمومی نام ”دو سو قبل از مسیح میں پرش پورہ (انسانوں کا شہر) تھا جو بگڑ کر پشاور بن گیا جبکہ ایک زمانے میں اس کا نام باگرام بھی رہا ہے۔ دوسری صدی عیسوی میں مختصر عرصے کے لیے وسطی ایشیاء کے توچاری قبیلے ”کشان” نے پشاور پر قبضہ کر کے اسے اپنا دارالحکومت بنایا تھا۔ اس کے بعد170  تا159 ق م اس علاقے پر یونانی باختر بادشاہوں نے حکمرانی کی اور اس کے بعد مملکتِ یونانی ہند کے مختلف بادشاہ یہاں قابض ہوتے رہے۔

 

احمدشاه بابا

ایک تاریخ دان کے مطابق پشاور کی آبادی100 عیسوی میں دو لاکھ کے لگ بھگ تھی اور اس وقت یہ آبادی کے اعتبار سے دنیا کا 7واں بڑا شہر تھا۔ بعد میں پارتھی، ہند پارتھی، ایرانی اور پھر کشان حکمرانوں نے یہاں حکومت کی ہے۔ کشان حکمران ”کنیشکا”127 عیسوی کے لگ بھگ بادشاہ بنا، اس نے اپنا دارالحکومت پشکلاوتی (موجودہ چارسدہ) سے منتقل کر کے پرش پورہ (موجودہ پشاور) میں قائم کیا تھا۔ دوسری صدی عیسوی سے بدھ بھکشو، زرتشت، ہندو اور روحیت کے پیروکار زرتشت مذہب کے کشان حکمرانوں سے مشاورت کر نے آتے رہے تھے۔ کشان حکمرانوں نے ان کی تعلیمات سے متاثر ہو کر بدھ مت قبول کر لیا تھا اور بدھ مت کو شہر میں سرکاری مذہب کا درجہ مل گیا تھا۔ حکمرانوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پشاور بدھ مت کی تعلیمات کا اہم مرکز بن گیا جبکہ آبادی کی اکثریت زرتشت اور روحیت کی پیروکار رہی۔

قلعہ بالا حصار پشاور کا سب سے قدیم اور تاریخی مقام ہے۔ یہ قلعہ اتنا پرانا ہے جتنا کہ خود پشاور کا شہر۔ قلعہ کی زمین سے مجموعی بلندی بانوے فٹ ہے۔ اس کی دیواریں پختہ سرخ اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہیں۔ قلعہ کی اندرونی دیواروں کی بلندی پچاس فٹ ہے۔ دوہری دیواروں والے اس قلعہ کا کل رقبہ سوا پندرہ ایکڑ ہے جب کہ اس کا اندرونی رقبہ دس ایکڑ بنتا ہے۔ ایک پختہ سڑک بل کھاتی ہوئی قلعہ کے اندر تک جاتی ہے۔ قلعہ کے احاطے میں دو مزار ہیں۔ ان میں سے ایک سفید گنبد والا مزار حافظ مستان شاہ کا ہے جو قلعہ کی اندرونی دیوار کے جنوب مشرقی کونے میں واقع ہے۔ مزار کے قریب ہی ایک سو بیس فٹ گہرا ایک پرانا کنواں بھی موجود ہے۔ اس مزار کو اب یہاں سے چمکنی منتقل کیا گیا ہے۔ دوسری زیارت قلعہ کے شمال مغربی کونے پر سید پیر شاہ بخاری کی ہے۔ ان مزارات پر جمعرات کو زائرین کثیر تعداد میں آتے ہیں۔

پشاور شہر، جنوبی ایشیاء میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ یہ ہندوستان کا گیٹ وے تھا اس لیے ہر حملہ آور نے اس قلعہ کو مسمار کیا ہو گا اور ہر مرتبہ یہ ازسرنو تعمیر ہوا ہو گا۔ ڈاکٹر احمد دانی، قلعہ بالا حصار کے متعلق لکھتے ہیں: 630 میں جب چینی سیاح ہیون سانگ نے پشاور کا دورہ کیا تو اس جگہ کو شاہی رہائش گاہ قرار دیا۔ وہ چینی زبان کے لفظ کن شنگ کو تعریفی کلمات کے لیے استعمال کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ قلعے کی بلند و بالا دیواروں والا حصہ شاہی رہائش گاہ کا سب سے اہم اور خوبصورت مقام ہے۔ ہیون سانگ شہر کے علیحدہ حصے کا بھی ذکر کرتا ہے جو قلعہ بند نہیں تھا لیکن حصار شہر کے مرکز میں تھا جس کی حفاظت کے لیے شہر کے گرد خندق بنی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر دانی مزید لکھتے ہیں: دریائے باڑہ کی گزرگاہ نے ایک اونچی جگہ کو گھیرا ہوا تھا جس میں بالاحصار اور اندر شہر واقع تھا۔ بالا حصار ایک بلند ٹیلے پر اب بھی موجود ہے جو پہاڑی مقام ہر گز نہیں۔ ابتدا میں شاہی رہائش گاہ قلعے کے زیریں حصے میں تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قلعے کے چبوترے کو بلند کرنا شروع کیا گیا۔ نئی تعمیر پرانی تعمیر کے اوپر شروع کی جاتی رہی۔ اس طرح قلعے کی بلند ی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

ان دنوں پشاور شہر، دریائے باڑہ کی دو شاخوں کے درمیان آباد تھا۔ اس دریا کا شمالی حصہ بالا حصار کی بنیادوں کو چھوتا ہو گا۔ جب غزنی کے امیر سبکتگین نے 988 میں پشاور کو فتح کیا تو اس نے دس ہزار گھڑ سواروں کے ساتھ یہاں پڑاؤ کیا تھا۔ پشاور کی اہمیت کے پیشِ نظر شہاب الدین غوری نے 1179 میں اس قلعہ پر قبضہ کیا۔ مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر نے اپنی خودنوشت تزکِ بابری میں قلعہ بالا حصار کا ذکر کیا ہے۔ وہ باگرام (پشاور) کے قریب اپنی فوجوں کے اترنے اور شکار کے لیے روانگی کا ذکر کرتا ہے۔ جب مغل بادشاہ ہمایوں نے افغان بادشاہ شیر شاہ سوری سے شکست کھائی تو افغانوں نے قلعہ بالا حصار کو تباہ کر دیا، بعدازاں جب ہمایوں نے شاہِ ایران کی مدد سے اپنا کھویاہوا تخت دوبارہ حاصل کر لیا تو اس نے کابل سے واپسی پر پشاور میں قیام کیا اور قلعہ بالا حصار کو دوبارہ تعمیر کروایا۔ اس نے قلعہ میں ایک بڑا فوجی دستہ تعینات کیا اور ایک ازبک جرنیل سکندر خان کو قلعہ کانگران مقرر کیا۔ پہلی بار قلعے میں توپیں نصب کی گئیں۔

مؤرخین مانتے ہیں کہ یہ قلعہ کوئی ہزار سال پہلے اس وقت بھی موجود تھا جب سلطان محمود غزنوی نے ہند کے مشہور راجا ’’جے پال‘‘ کو شکست دی تھی۔ (فوٹو: فرائڈے ٹائمز)

1834 میں جب سکھوں نے پشاور پر قبضہ کر لیا تو پہلے تو سکھوں نے قلعہ بالا حصار کی اینٹ سے اینٹ بجا دی لیکن جلد ہی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ ہری سنگھ اور سردار کھڑک سنگھ نے قلعہ کی اہمیت کے پیشِ نظر اسے دوبارہ تعمیر کرایا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے حکم پر شیر سنگھ نے قلعہ بالا حصار کچی اینٹوں سے بنوایا اور اس قلعے کا نام سمیر گڑھ رکھا۔ سکھوں کے زوال کے بعد 1849 میں پنجاب اور خیبر پختونخوا پر انگریزوں نے قبضہ کر لیا۔ اس وقت قلعہ بالا حصار کی دیواریں کچی اینٹوں ا ورگارے سے اٹھائی گئی تھیں۔ انگریزوں نے ان دیواروں کو گرا کر پختہ اینٹوں سے قلعے کی دیواریں تعمیر کیں جو کہ اب تک برقرار ہیں  اور قلعے کے اندر فوجیوں کے لیے بیرکیں بنائیں۔ اس وقت برطانوی گیریژن قلعہ کے اندر تھا۔ قیام پاکستان کے وقت برطانوی ہند کی فوج کا ایک دستہ قلعہ بالا حصار میں مقیم تھا۔ دسمبر 1948 میں قلعہ بالا حصار میں فرنٹیئر کور کا ہیڈکوارٹر قائم کیا گیا جو آج تک برقرار ہے۔

 

جب ہمایوں نے شاہ ایران کی مدد سے اپنا کھویا ہوا تخت دوبارہ حاصل کر لیا تو اس نے کابل سے واپسی پر پشاور میں قیام کیا اور قلعہ بالا حصار کو دوبارہ تعمیر کروایا اور قلعہ میں ایک بڑا فوجی دستہ تعینات کیا اور ایک ازبک جرنیل سکندر خان کو قلعہ کا نگران مقرر کیا۔ پہلی مرتبہ قلعے میں یہاں توپیں نصب کی گئیں۔ طبقات اکبری کے منصف نظام الدین کے مطابق 1585 میں قلعہ بالاحصار آتشزدگی سے تباہ ہو گیا تھا جس میں ایک ہزار کے قریب اونٹوں پر لدا ہوا سامان تجارت بھی ضائع ہو گیا تھا۔ نادر شاہ درانی نے جب درہ خیبر کے راستے سے ہندوستان پر حملہ کیا تو سب سے پہلے اس نے پشاور کی وادی مغلوں سے چھین لی۔ نادر شاہ نے پشاور میں اپنا گورنر مقرر کیا جس نے قلعہ بالا حصار میں رہائش اختیار کی۔ احمد شاہ ابدالی نے بھی وادی پشاور مغلوں سے چھین لی تھی۔ احمد شاہ ابدالی کے فرزند تیمور ابدالی نے پشاور کو اپنا سرمائی دارالحکومت بنا لیا تھا۔ اس نے قلعہ بالا حصار میں اپنی رہائش کے لیے محلات تعمیر کروائے اور اپنے حفاظتی دستے کے لیے ایرانی اور تاجک سپاہی بھرتی کیے۔

جب 1779 میں ارباب فیض اللہ خان نے قلعہ بالا حصار پر یلغار کی تو اسی حفاظتی دستے نے تیمور شاہ کی حفاظت کی تھی۔ 1793 میں تیمور شاہ کی وفات کے بعد شاہ زمان سریر آرائے سلطنت ہوا۔ اس کے دور میں سکھ پنجاب پر قابض ہو گئے۔ 1834 میں سکھوں نے پشاور پر قبضہ کر لیا تو سکھوں نے قلعہ بالا حصار کی اینٹ سے اینٹ بجا دی لیکن جلد ہی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ ہری سنگھ نلوہ اور سردار کھڑک سنگھ نے اس قلعہ کی اہمیت کے پیش نظر اسے دوبارہ تعمیر کرایا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے حکم پر شیر سنگھ نے قلعہ بالا حصار کچی اینٹوں سے بنوایا اور اس قلعے کا نام سمیر گڑھ رکھا۔ سکھوں کے دور کی ایک لوح آج بھی قلعہ بالا حصار کی مرکزی دیوار میں نصب دیکھی جا سکتی ہے۔ سکھوں کے زوال کے بعد 1849 میں پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا پر انگریزوں نے قبضہ کر لیا۔ اس وقت قلعہ بالا حصار کی دیواریں کچی اینٹوں اور گارے سے اٹھائی گئی تھیں۔ انگریزوں نے ان دیواروں کو گرا کر پختہ اینٹوں سے قلعے کی دیواریں تعمیر کیں اور قلعے کے اندر فوجیوں کے لیے بیرکیں بنائیں۔ اس وقت برطانوی گیرژن قلعہ کے اندر تھا قیام پاکستان کے وقت برطانوی ہند کی فوج کا ایک دستہ قلعہ بالا حصار میں مقیم تھا۔ دسمبر 1948 میں قلعہ بالا حصار میں فرنٹیئر کور کا ہیڈ کوارٹر قائم کیا گیا۔ ایک افسوس ناک بات یہ بھی ہے کہ سیاح یا مقامی لوگ بھی اس قلعے میں کھلے عام نہیں جا سکتے  کہ آج کل یہ فرنٹیئر کور کی تحویل میں ہے اور اندر جانے کے لیے آپ کو باقاعدہ اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔ پشاور ہائی کورٹ میں ایک درخواست جمع کرائی گئی تھی کہ یہ قلعہ عام لوگوں کے لیے کھولا جائے لیکن انتظار کی گھڑیاں شاید آج بھی ختم نہیں ہوئیں کہ یہ تجویز آج بھی زیر غور ہی ہے۔ بہرحال پشاور کا قلعہ بالا حصار شیر شاہ سوری کی بنائی گئی جرنیلی سڑک کے کنارے آج بھی سینہ تانے کھڑا ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Protected contents!