ټول حقوق د منډيګک بنسټ سره محفوظ دي
ثریا طرزی جنہیں ثریا شہزادی خانم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، افغانستان کی تاریخ میں کبھی نہ بھلائی جانے والی شخصیت ہیں، خواتین کے لئے افغانستان میں تعلیم اور حقوق کے لئے اس معاشرے کی پہلی آواز اور عملی اقدامات کرنے والی خاتون، انہوں نے اپنے ملک کی خواتین کو ایک ایسی آزاد فضا کی جھلک دکھائی تھی جس کا ادراک آج ایک صدی گزر جانے پر بھی درست طور پر نہیں کیا جا سکا ہے۔
24 نومبر سنہء 1899 میں ثریا طرزی نے افغان دانشور و سیاسی رہنما محمود ثریا طرزی کے گھر میں آنکھ کھولی، ثریا طرزی کے والد محمود طرزی کا تعلق محمود زئی پشتون قبیلے کی بارکزئی شاخ سے تھا، ثریا طرزی اپنے والد کی جلا وطنی کے دور میں ملک شام کے شہر دمشق میں پیدا ہوئی تھیں، ثریا طرزی کے والد محمود طرزی ایک افغان دانشور تھے اور ان کے آزاد اور قوم پرستانہ خیالات بادشاہ وقت کے خیالات کے ساتھ میل نہیں کھاتے تھے۔ دوسری اینگلو افغان جنگ میں ان کے پیش رو کی ناکامی کے بعد عبدالرحمان خان کو انگریز سنہء 1880 میں افغانستان میں بحیثیت حکمران سامنے لائے تھے۔ محمود طرزی کو اپنے خیالات اور سیاسی سوچ کی بنیاد پر عبدالرحمان خان نے اقتدار میں آنے کے بعد سنہء 1881 میں افغانستان سے جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور کردیا تھا.
ملک شام اس وقت خلافت عثمانیہ کا حصہ تھا، ثریا طرزی نے اپنی ابتدائی تعلیم ملک شام سے ہی حاصل کی، وہاں پر انہیں مشرقی و مغربی علوم کو ایک ساتھ سیکھنے کا موقع ملا، ثریا طرزی، محمود ثریا کی دوسری بیوی اسماء رسمیا کی اولاد تھیں، ان کی والدہ کا تعلق شام کے شہر الیپو Aleppo سے تھا، جلا وطنی کے بعد محمود طرزی کا خاندان شام میں ہی سکونت پذیر تھا۔ ثریا طرزی کو ترقی پسند سوچ اپنے والد محمود طرزی کی جانب سے ہی ورثے میں ملی تھی۔
جلاوطنی کے دوران یورپ کا سفر کرنے اور ترکی میں رہنے سے محمود طرزی کے خیالات میں تبدیلی آئی اور انہوں نے ارادہ کیا کہ یہی کچھ وہ اپنے ملک کے لیے بھی کریں گے۔ اس کا موقع ان کو سنہء 1901 میں اس وقت ملا جب عبدالرحمان کے انتقال کے بعد بادشاہت ان کے چھوٹے بھائی حبیب اللہ خان کو ملی اور انہوں نے تمام جلاوطن دانشوروں کو وطن لوٹنے کی دعوت دی۔ اکتوبر سنہء 1909 کو نئے بادشاہ حبیب اللہ خان کی افغانستان واپسی کی دعوت پر ثریا طرزی کا خاندان افغانستان واپس آئے اور ایک سرکاری افسر کے طور پر انہوں نے جدیدیت کے اپنے پروگرام پر کام کرنا شروع کردیا۔
اس دوران ان کی بیٹی ثریا طرزی بادشاہ کے بیٹے امان اللہ خان سے ملیں دونوں میں محبت ہوئی اور 30 اگست 1913 کو شہزادے امان اللہ خان نے ثریا طرزی سے شادی کر لی۔ 20 فروری سنہء 1919 کو حبیب اللہ خان کو قتل کر دیا گیا جس کے بعد امان اللہ بادشاہ اور ثریا طرزی ملکہ بن گئیں جبکہ محمود طرزی کو وزیر خارجہ مقرر کر دیا گیا۔ اس کے بعد صورت حال تیزی سے تبدیل ہونا شروع ہوئی۔ 3 مئی سنہء 1919 کو امان اللہ نے ان پالیسیوں پرعمل شروع کیا جو محمود طرزی کی جانب سے دی گئی تھیں اور ان میں برطانوی انڈیا پر حملے کا قدم بھی شامل تھا، جس سے تیسری اینگلو افغان جنگ چھڑ گئی۔
تیسری اینگلو افغان جنگ جس کو افغانستان میں جنگ آزادی کے طور پر بھی جانا جاتا ہے اگست تک ختم ہو گئی۔ جو پہلی عالمی جنگ کی وجہ سے وسائل اور افرادی قوت کی کمی سے دوچار انگریز حکومت نے کابل کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کیا۔ یہی دن افغانستان کا آزادی کا دن منایا جاتا ہے، افغانستان کی جانب سے محمود طرزی اور برطانوی انڈیا کی طرف سے چیف برٹش مشن ہنری ڈوبز نے معاہدے پر دستخط کیے جس میں ایک دوسرے کا احترام اور حقوق کا خیال رکھنا بھی شامل تھا۔ افغانستان نے آخرکار برطانیہ سے پیچھا چھڑا لیا اور محمود طرزی نے یورپی ممالک کے دارالحکومتوں میں سفارت خانے کھولے اور ساتھ ہی ملک کو جدیدیت کی طرف لے جانے پر ملکہ اور بادشاہ کو یورپ کی مدد بھی ملنا شروع ہوئی۔
بادشاہ امان اللہ خان نے بادشاہت ملنے کے بعد کئی حیرت انگیز اور مروجہ روایات سے ہٹ کر اقدامات کئے امان اللہ خان نے زیادہ تعداد میں بیویاں رکھنے اور حرم بنانے کی روایات کو بھی بادشاہت کے بعد یکسر مسترد کیا، اور ملکہ ثریا طرزی خود خواتین کے حقوق اور تعلیم کی پرجوش حامی تھیں، ثریا طرزی نے ملکہ ثریا طرزی خانم بننے کے بعد سنہء 1921 میں کابل میں لڑکیوں کا پہلا پرائمری سکول ’مستورات سکول‘ کھولا، جس کی سرپرستی ملکہ ثریا طرزی خود کرتی تھیں، ان کو سنہء 1926 میں وزیر تعلیم بنادیا گیا۔ اس کے بعد مزید سکول کھولے گئے۔ ثریا طرزی امور سلطنت کی ہر میٹنگ میں شامل رہتی تھیں، جس کا اس سے پہلے افغان روایات میں تصور بھی نہ تھا، وہ گھڑ سواری بھی کرتی تھیں۔ انہوں نے ہی پہلی بار اس معاشرے میں خواتین کے برقعے کو عورت کے لئے اس کی مرضی کے اختیار کا حق دیا تھا۔
ملکہ ثریا طرزی نے افغانستان میں خواتین کے لئے پہلی بار ایک رسالے کا اجراء بھی کیا ، جس کا نام “ارشاد نسواں” (Guidance for Women) تھا۔
سنہء 1926 میں برطانیہ سے افغانستان کی آزادی کی ساتویں سالگرہ کے موقع پر بحیثیت “ملکہ” ثریا طرزی نے اپنی قوم سے خواتین کی تعلیم اور مساوات پر ایک متاثرکن تقریر کی۔
“It (Independence) belongs to all of us and that is why we celebrate it. Do you think, however, that our nation from the outset needs only men to serve it? Women should also take their part as women did in the early years of our nation and Islam. From their examples, we must learn that we must all contribute toward the development of our nation and that this cannot be done without being equipped with knowledge. So we should all attempt to acquire as much knowledge as possible, in order that we may render our services to society in the manner of the women of early Islam.”
ترجمہ ’آزادی ایک ایسی چیز ہے جس کا تعلق ہم سب سے ہے، آپ کا کیا خیال ہے کہ شروع سے ہماری قوم کی خدمت صرف مرد کرتے آرہے ہیں؟ خواتین کو بھی اس میں حصہ لینا چاہیے کیونکہ خواتین نے اپنی قوم کے لیے اور اسلام کے ابتدائی ایام میں بھی ایسا کیا، ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کریں۔‘
دسمبر سنہء 1927 بادشاہ امان اللہ اور ملکہ ثریا طرزی چھ ماہ کے دورے پر یورپ روانہ ہوئے۔ انگلینڈ میں اس جوڑے کی پرنس آف ویلز سے ملاقات طے ہوئی اور وہ شاہی ٹرین میں لندن روانہ ہوئے۔ کنگ جارج اور ملکہ مریم نے وکٹوریہ سٹیشن پر ان کا استقبال کیا۔ اس کے بعد شاہی بگھی میں بکنگھم تک کا سفر کیا۔ لوگ بڑی تعداد میں مہمانوں کو خوش آمدید کہنے آئے تھے۔ یورپی ممالک کے دارالحکومتوں کے علاوہ ماسکو میں بھی ان کا شاندار استقبال انگریزوں کے لیے پریشان کن تھا جو افغانستان کو سوویت یونین کے خلاف بفر زون کے طور پر دیکھ رہے تھے۔
یورپ کے دورے کے بعد بادشاہ امان اللہ خان اور ملکہ ثریا طرزی دونوں جولائی سنہء 1928 میں افغانستان لوٹ گئے اور اپنے ملک کو جدیدیت کی طرف لانے کا عزم کیا۔ مگر افغانستان لوٹتے ہی یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ یورپ کا دورہ ایک تباہ کن غلطی تھی۔ آج کے افغان مورخین کا کہنا ہے کہ ثریا طرزی کو افغانستان کی پسماندگی کا اتنا ادراک نہ تھا جو کہ ایک روایتی اور قدامت پسند معاشرہ تھا ۔ امان اللہ خان اور ملکہ ثریا طرزی نے کچھ قدم جلدی میں اٹھائے جس پر عوام کو اشتعال آیا اور آخرکار بات بغاوت تک پہنچ گئی۔
سنہء 1928 میں ثریا طرزی کے ایک اور انتہائی دلیرانہ قدم بھی وجہ بنا، انہوں نے “مستورات سکول” کی 15 طالبات کو جو کابل کے نمایاں اہل ثروت خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں، ان طالبات کو مزید اعلی تعلیم کے لیے ترکی بھیجا، اس قبائلی معاشرے میں یہ ایک اشتعال انگیز قسم کا قدم تھا۔
ایک افغان صحافی شیریں خان نے اس معاملے پر اپنی کتاب ’ناقابل شکست سرزمین‘ میں لکھا گیا ہے۔
’چھوٹی غیر شادی شدہ لڑکیوں کو دوسرے ملک بھیجے جانے کو بہت سے حلقوں میں خطرے کے طور پر لیا گیا کہ ملک کو سماجی اور ثقافتی اقدار کے خلاف جدیدیت کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔‘ بادشاہ امان اللہ خان کی صنف کے لحاظ سے بلا امتیاز پالیسیاں ایک قدامت پسند، قبائلی، وہاں کی سماجیات اور دور دراز کے علاقوں میں رہنے والوں کی سوچ سے بہت زیادہ ہٹ کر تھیں۔ ان تمام اقدامات کا اصل محرک ثریا طرزی خانم کی ہی سوچ تھی۔
کابل میں رہنے والے صحافی اور سیاسی تجزیہ کار زبیر شفیقی کہتے ہیں کہ انہوں نے بہت تیز چلنے کی کوشش کی۔
’ملکہ اور ان کے شوہر نے یورپ سے لوٹنے کے بعد وہی کیا جس کا ان پر اثر تھا اور انہوں نے یورپ میں دیکھا تھا، انہوں نے اصلاحات، نظام میں تبدیلی اور آزادی کے لیے کام شروع کیا۔‘
ملکہ ثریا طرزی نے انقلابی اقدامات شروع کیے اور ان پر اپنے شوہر بادشاہ امان اللہ خان سے عمل درآمد بھی کروایا۔ وہ عام لوگوں میں آتیں، انہوں نے خواتین کو ان کے حقوق سے آگاہ کرنے کے لیے ملک بھر میں بے تحاشا سفر کیے اور ساتھ ہی تعلیم حاصل کرنے پر بھی زور دیا۔ خاندانی معاملات کے حوالے سے بنائے جانے والے قوانین، کثرت ازواج پر پابندی اور خواتین کو طلاق کا حق دینے کے قوانین بھی بنائے۔
جب بغاوت بہت تیز ہوئی تو اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے بادشاہ نے ناقدین کو خوش کرنے کی کوشش کی اور کئی قوانین کو منسوخ بھی کیا، سیکولر عدالتوں کو ختم کرتے ہوئے شرعی عدالتیں بنائی گئیں اور بھی بہت کچھ تبدیل کیا گیا۔ سیکولر سکولز کے علاوہ لڑکیوں کے سکول بھی بند کر دیے گئے۔ ثریا طرزی کی محنت محض چند مہینوں ہی ختم ہو کر رہ گئی۔
مگر یہ ساری کوششیں بے سود رہیں، نومبر سنہء 1928 تک افغانستان خانہ جنگی میں گھِر گیا اور ’ڈاکو بادشاہ‘ کہلائے جانے والے حبیب اللہ کلاکانی نے اپنی سرگرمیاں مزید تیز کیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک سال کی طویل خانہ جنگی کے بعد جنوری سنہء 1929 میں امان اللہ ملکہ کے ہمراہ ملک چھوڑ کر برطانوی انڈیا منتقل ہو گئے۔
(انڈیا اس وقت برطانیہ کے تسلط میں تھا، اس لیے وہ برطانوی انڈیا کہلاتا تھا، سنہء 2019 انڈیا کے شہر بمبئی میں جلاوطنی کے دور میں ہی امان اللہ خان اور ثریا طرزی کے ہاں ایک بیٹی کی پیدائش ہوئی، جس کا نام “شہاھدخت انڈیا” رکھا گیا).
14 نومبر سنہء 1928 سے 13 اکتوبر سنہء 1929 کا عرصہ مکمل طور پر افغانستان میں خانہ جنگی کی نذر رہا۔ حبیب اللہ کلاکانی بھی صرف دس ماہ ہی بادشاہ رہ سکے، اور 13 اکتوبر سنہء 1929 کو نادر شاہ نے انہیں نکال باہر کیا اور انگریزوں کی مدد سے بادشاہ بن گئے۔ آج تک افغانستان میں لوگوں کا یہی خیال ہے کہ امان اللہ کی حکومت ختم کرنے میں برطانوی حکومت کا ہاتھ تھا اور ان کی بیوی کے خلاف جعلی خبروں کی مہم چلائی گئی تھی۔
جلاوطنی اختیار کرنے کے بعد امان اللہ اور ملکہ ثریا طرزی پہلے انڈیا میں کچھ عرصہ قیام کے بعد اٹلی چلے گئے، جہاں انہوں نے زندگی کے باقی ایام روم میں گزارے۔ امان اللہ کا انتقال اپریل سنہء 1960 میں ہوا جبکہ ان کی اہلیہ اس کے بعد آٹھ سال تک زندہ رہیں اور 68 سال کی عمر میں سنہء 1968 میں انتقال کے بعد ان کے تابوت کو فوجی دستوں کی حفاظت میں روم ایئرپورٹ لے جایا گیا اور وہاں سے افغانستان پہنچایا گیا، جہاں سرکاری سطح پر ان کا جنازہ پڑھایا گیا۔
آج بھی بادشاہ اور ملکہ جلال آباد میں واقع امیر شہید گارڈنز میں اپنے خاندانی مقبرے میں اکٹھے ہیں۔
مختلف الفکر افراد کا ثریا طرزی کے بارے میں اظہار خیال :
1- افغان مورخ حبیب اللہ رفیع کا کہنا ہے کہ
’ثریا طرزی نے امان اللہ خان کے ساتھ بیرونی ممالک کے دوروں کے موقع پر ہمیشہ انہوں نے افغانستان کو بہترین ملک پیش کیا اور دونوں ہی ملک میں ترقی اور استحکام چاہتے تھے۔‘
مگر ہمارے اس وقت کے دشمن انگریزوں نے، جو افغانستان پر قبضہ نہ کر سکنے کا بدلہ لینے کے لیے ملکہ کے خلاف جھوٹی اطلاعات پھیلانا شروع کر دیں تاکہ یہاں ترقی کا سفر رک سکے۔ انہوں نے ملکہ کی ایسی جعلی تصاویر لوگوں میں تقسیم کیں جن میں ملکہ عریاں ٹانگوں کے ساتھ بیٹھی تھیں جو مقامی لوگوں کی برہمی کا باعث بنیں۔ برطانیہ ایک آزاد اور خوش حال افغانستان کو دیکھ نہیں سکتا تھا کیونکہ اس سے برطانیہ کے زیر تسلط انڈیا میں بھی تحریک پیدا ہو سکتی تھی اور ممکن ہو سکتا تھا کہ لوگ برطانیہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ برطانیہ نے اس وقت کی حکومت اور خاص طور پر ملکہ کو کمزور کرنے کی کوشش کی تھی۔ برطانیہ ہر حال میں انڈیا کو سنبھالے رکھنا چاہتا تھا جو کہ سلطنت کے تاج کا سب سے اہم موتی تھا اور اسے امان اللہ کے سوویت یونین کے ساتھ تعلقات سے خوف محسوس ہوا جو اس وقت مزید بڑھ گیا جب مئی سنہء 1921 میں امان اللہ نے سوویت یونین کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کیا۔”
2- افغان “مریم وردک” جو ایک وکیل اور تجزیہ کار ہیں اور صنفی برابری کے لیے کام کرتی ہیں، کا کہنا ہے کہ
’ثریا کی طرف سے ہونے والی محنت محض چند مہینوں ہی ختم ہو کر رہ گئی۔افغان لڑکیوں اور خواتین کی آزادی کے لیے کی جانے والی کوشش کے 90 سال بعد بھی افغانستان کی خواتین آج بھی بندشوں میں جکڑی ہیں۔
مریم وردک کہتی ہیں کہ
’میں ملکہ ثریا طرزی کی جدوجہد کو سراہتی ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر وہ خواتین کی آزادی اور حقوق کے لیے موزوں راستہ اختیار کرتیں تو زیادہ موثر ہوتا۔‘
’آج ہم خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، کم عمری میں شادی کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور لوگ جہیز دیتے بھی ہیں اور لیتے بھی۔‘
مریم وردک نے یہ بھی کہا کہ
’اس کے باوجود مجھے یقین ہے کہ ملکہ کا ویژن آج بھی کئی نوجوان خواتین میں زندہ ہے، تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ کر ہم مضبوط نسلوں کے ساتھ کھڑے ہو سکتے ہیں کیونکہ تعلیم خوش حالی کی چابی ہے۔‘
3- قاضی نذرالالسلام بنگلہ ادب میں رابندرناتھ ٹیگور کے بعد اہم ترین شاعر و ادیب ہیں ۔
انکی ایک نظم ’امان اللہ ‘ ہے ۔ امان اللہ خان 1919 سے 1929تک افغانستان پر حکومت کی ۔ وہ اپنے والد کی موت کے بعد تخت نشیں ہوئے تھے ۔ وہ ایک روشن خیال حکمراں تھے ۔ انکی اہلیہ ثریا طرزی تھیں ۔ وہ بھی ایک تعلیم یافتہ اورروشن خیال خاتوں تھیں ۔ اس دور میں افغانستان میں شدت پسند قبائل اور ملاؤں کا دور دورہ تھا ملا شور بازار کا عوام میں دبدبہ تھا ۔ امان اللہ خان اور انکی بیوی نے افغانستان میں کافی اصلاحات کیں اور تعلیم کو عام کرنے کے لئے کافی اقدامات کئے ۔ ثریا طرزی خانم نے لڑکیوں کی تعلیم کے لئے اسکول اور کالج کھلوائے ۔ اس اقدام سے وہاں کے روایت پسند قبائل کا طبقہ ان کا مخالف ہوگیا اور ایک قبائلی لیڈر بچہ سقہ نے بغاوت کردیا اور امان للہ خان کو افغانستان چھوڑ کر جرمنی چلاجانا پڑا ۔ ابتدا وہ ہندوستان بھی آئے تھے ۔ انہی کے استقبال میں نذرالاسلام نے یہ نظم لکھی تھی ۔ اس نظم میں ٰ انہوں نے امان اللہ کے اصلاحی اقدامات کی تعریف کی ۔ وہ لکھتے ہیں کہ آپ کی حکومت میں ہندووَں کو کافر نہیں بلکہ ’برادرِ ہند ‘ کہاجاتاہے ۔ آپکی حکومت میں مندروں کی ایک اینٹ بھی نہیں توڑی گئی اور نہ ہی انکے دیوتاؤں کی مورتیاں توڑی گئیں ۔ آپ نے افغانستان کو ایک نئی پہچان دی ہے ۔ آپ نے یہ ثابت کردیا کہ افغانستان صرف ابدالی اور نادر شاہ کا ملک نہیں ہے بلکہ محبت اور مساوات کا ملک ہے ۔
ٹائم میگزین کا ثریا طرزی کو خراج تحسین:
سال رواں کے آغاز میں ٹائم میگزین کی جانب سے ان خواتین کو یاد کیا گیا جنہوں نے دنیا کی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا اور انہی خواتین میں ثریا طرزی بھی شامل تھیں۔ مارچ سنہء میں ٹائم میگزین
” ان 89 ناموں کو اس عنوان ’بااثر خواتین، جن کے بارے میں دنیا میں زیادہ بات نہیں ہوئی”
کے عنوان کے تحت منظر عام پر لایا۔
سال 1927 کے لیے افغانستان کی اس ترقی پسند ملکہ کو منتخب کیا گیا جنہوں نے 1929 میں مستقل جلاوطنی اختیار کر لی تھی۔
’ثریا طرزی پہلی افغان خاتون تھیں جنہوں نے خواتین کی ترقی کے لیے کام شروع کیا، انہیں تعلیم کی طرف راغب کیا اور ان کو حقوق دینے کے لیے بھی کوشش کی۔”
ٹائم میگزین کی طرف سے مارچ میں پیش کیے جانے والے خراج عقیدت میں ان کو یاد کرتے ہوئے کہا گیا کہ “شدید مخالفت کے باوجود بادشاہ اور ملکہ نے کثرت ازواج اور روایتی پردے کے خلاف مہم چلائی اور اس پر خود عمل کر کے دکھایا۔”
بد قسمتی سے آج تین عشروں سے زائد تک جاری رہنے والی جنگوں نے افغانستان کے تعلیم کے نظام کو تباہ کر دیا ہے، موجودہ افغانستان میں 7 اور 15 سال کی عمر کے درمیان سکول نہ جانے والے بچوں (ساٹھ فیصد بچیاں) کی تعداد 32 سے 37 لاکھ تک ہے۔‘ افغانستان کی تاریخ کی چند اہم اور حقیقی ترقی کی جدو جہد کی داستانیں “ملکہ ثریا طرزی” کی شخصیت کے بغیر ہمیشہ ادھوری رہیں گی، ملکہ ثریا طرزی جس کی پہلی سانس بھی جلا وطنی میں تھی اور آخری سانس بھی جلاوطنی میں رہی، مگر اس نے دس سال کا ایک ایسا عرصہ جو اپنے ملک میں بطور ملکہ گزارا اس نے ان دس سالوں میں افغانستان کی خواتین کے لئے بہت کچھ کرنے کی کوشش کی، ورنہ آج کا افغانستان چاہے جتنا بدحال بھی ہے، وہاں کچھ خواتین کے حقوق پر مشتمل قوانین اور خواتین کی تعلیم کا سہرا کم از کم ملکہ ثریا طرزی خانم کی کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے۔
ثریا طرزی خانم کو ملنے والے اعزازات :
قومی اعزاز (National honours)
Grand Collar of the Order of the Supreme Sun.
بین الاقوامی اعزازات (Foreign. honours)
Decoration of al-Kemal in brilliants (Kingdom of Egypt, 26 December 1927).
Grand Cross of the Order of the British Empire (United Kingdom, 13 March 1928).
حوالہ جات :
Author : Shereen khan (ناقابل شکست زمین)
Author : Ahmed-Ghosh, Huma. “A History of Women in Afghanistan
نوٹ : ثریا طرزی کی بیٹی “شاھدخت انڈیا” جو انڈیا میں پیدا ہوئیں جو بعد میں Princess India بھی کہلائی، وہ اٹلی اور روم میں ہی پلی بڑھی تھیں، سنہء 1968 میں انہوں نے پہلی بار افغانستان ان کا دورہ کیا تھا، وہاں انہوں نے بچوں کی تعلیم سے چئیرثی کاموں کا آغاز کیا۔ سنہء 2000 میں یہ دوسری دفعہ افغانستان آئیں، وہاں کابل شہر میں انہوں نے اپنے والد اور والدہ کے نام سے ایک ادارے (Mahmud Tarzi Cultural Foundation) کی بنیاد رکھی، جہاں بحیثیت چیئرمین سنہء 2010 تک خدمات ادا کیں، سنہء 2006 پرنسز انڈیا کو اس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی نے یورپ میں میں ثقافتی سفیر تعینات کیا، جس میں کافی عرصہ انہوں نے اپنا وقت روم اور کابل میں گزارا۔ سنہء 2019 میں خصوصی طور پر انہیں دعوت نامہ دے کر افغانستان کی کی صد سالہ آزادی کی تقریب میں سرکاری طور پر مدعو بھی کیا گیا تھا۔